سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
32. بَابُ : ذِكْرِ الْقَبْرِ وَالْبِلَى
باب: قبر اور مردے کے گل سڑ جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4266
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ شَيْءٌ مِنَ الْإِنْسَانِ إِلَّا يَبْلَى , إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا , وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ , وَمِنْهُ يُرَكَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے جسم کی ہر چیز سڑ گل جاتی ہے، سوائے ایک ہڈی کے اور وہ ریڑھ کی ہڈی ہے، اور اسی سے قیامت کے دن انسان کی پیدائش ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12552)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تفسیر الزمر 4 (4814)، تفسیر النبأ 1 (4935)، صحیح مسلم/الفتن 28 (2955)، سنن ابی داود/السنة 24 (4743)، سنن النسائی/الجنائز 117 (2079)، موطا امام مالک/الجنائز 16 (48)، مسند احمد (2/315، 322، 428) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: «ليس من الإنسان شئ إلا يبلى إلا عظما واحدا» ”انسان کی ہر چیز ایک ہڈی کے علاوہ بوسیدہ ہو جائے گی“ اور ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: «إن في الإنسان عظما لا تأكله الأرض أبدا فيه يركب يوم القيامة، قالوا: أي عظم هو قال: عظم الذنب» ”انسان میں ایک ایسی ہڈی ہے جسے زمین کبھی بھی نہیں کھائے گی، قیامت کے دن اسی میں دوبارہ اس کی تخلیق ہو گی، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول وہ کونسی ہڈی ہے؟ تو آپ نے کہا: وہ دم کی ہڈی ہے“ مستدرک علی الصحیحین اور مسند ابی یعلی میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: «قيل: يارسول الله! ما عجب الذنب؟ قال: مثل حبة خردل» ”کہا گیا: اللہ کے رسول! دم کی ہڈی کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: رائی کے دانے کے برابر“۔ «عجب»: ع کے فتحہ اور ج کے سکون کے ساتھ اور اس کو «عجم» بھی کہتے ہیں، ریڑھ کی ہڈی کی جڑ میں یہ ایک باریک ہڈی ہوتی ہے، یہ دم کی ہڈی کا سرا ہے، یہ چاروں طرف سے ریڑھ کی باریک والی ہڈی کا سرا ہے، ابن ابی الدنیا، ابوداود اور حاکم کے یہاں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے کہ یہ رائی کے دانے کے مثل ہے، علامہ ابن الجوزی کہتے ہیں کہ ابن عقیل نے کہا: اللہ رب العزت کا اس میں کوئی راز ہے، جس کا علم صرف اسی کو ہے، اس لیے کہ جو ذات عدم سے وجود بخشے وہ کسی ایسی چیز کی محتاج نہیں ہے جس کو وہ نئی خلقت کی بنیاد بنائے، اس بات کا احتمال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو فرشتوں کے لیے نشانی بنایا ہے کہ وہ ہر انسان کو اس کے جوہر کے ساتھ زندہ کرے، اور فرشتوں کو اس کا علم صرف اسی طریقے سے ہو گا کہ ہر شخص کی ہڈی باقی اور موجود ہو، تاکہ وہ اس بات کو جانے کہ روحوں کو ان کے اعیان میں ان اجزاء کے ذریعے سے لوٹایا جائے، اور حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ «ويبلى كل شئ من الإنسان» ”انسان کی ہرچیز بوسیدہ ہو جائے گی“ تو اس میں احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد اس کا فنا ہو جانا ہے یعنی اس کے اجزاء کلی طور پر ختم ہو جائیں گے اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد اس کا پگھلنا اور تحلیل ہونا ہے، تو معہود صورت ختم ہو جائے گی اور وہ مٹی کی شکل میں ہو جائے گی، پھر اس کی دوبارہ ترکیب میں اپنی اصل کی طرف لوٹ آئے، بعض شراح حدیث کے خیال میں اس سے مراد اس کے بقا کا طویل ہونا ہے، نہ یہ کہ اصل میں وہ ہڈی فنا نہیں ہو گی، اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ ہڈی انسان کی تخلیق کی بنیاد ہے، جو سب سے زیادہ سخت ہے، جیسے دیوار کی بنیاد اور جب زیادہ سخت ہو گی تو اس کو زیادہ بقائے دوام حاصل ہو گا، اور یہ قابل رد ہے اس لیے کہ یہ ظاہر کے خلاف ہے، اور اس پر کوئی دلیل نہیں ہے، اور علماء کہتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے، اس سے مراد خصوصیت سے انبیاء ہیں، اس لیے کہ زمین ان کے جسم کو نہ کھائے گی، ابن عبدالبر نے ان کے ساتھ شہداء کو رکھا، اور قرطبی نے ثواب کے خواہاں موذن کو، قاضی عیاض کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہو گا کہ ہر آدمی کو مٹی کھا لے گی اور بہت سے اجسام جیسے انبیاء ہیں کو مٹی نہیں کھائے گی۔ حدیث میں «إلا عجب ذنبه» ہے یعنی ”انسان کے جسم میں اس کے دم کی ہڈی ہی بچے گی“ جمہور اس کے ظاہر کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دم کی ہڈی نہ بوسیدہ ہو گی، اور نہ اس سے مٹی کھائے گی، مزنی نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ «إلا» یہاں واو عطف کے معنی میں ہے، یعنی دم کی ہڈی بھی پرانی ہو جائے گی، اور اس معنی کو فراء اور اخفش نے ثابت کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ «واو» «إلا» کے معنی میں آتا ہے، مزنی کی اس شاذ اور منفرد رائے کی تردید حدیث میں وارد وہ صراحت ہے جو ہمام کی روایت میں ہے کہ زمین اس کو کبھی بھی نہ کھائے گی، اور اعرج کی روایت میں ہے: «منہ خلق» اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی میں سب سے پہلے اسی کی پیدائش ہوئی، اور اس کی معارض سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث: «إن أول ما خلق من آدم رأسه» نہیں ہے اس لیے کہ ان دونوں میں توفیق و تطبیق اس طرح سے ہو گی کہ یہ آدم علیہ السلام کے حق میں ہے، اور دم کی ہڈی کی تخلیق اولاد آدم میں پہلے ہے، یا سلمان رضی اللہ عنہ کے قول کا مقصد یہ ہو کہ آدم میں روح پھونکی گئی نہ کہ ان کے جسم کی تخلیق ہوئی۔ (ملاحظہ ہو: فتح الباری ۸/۵۵۲-۵۵۳، حدیث نمبر۴۸۱۴)
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4266 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4266
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
قبر میں انسان کا جسم آہستہ آہستہ مٹی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
حتیٰ کہ ہڈیاں بھی مٹی بن کر مٹی میں مل جاتی ہیں۔
اس کے باوجود قبر کاعذاب وثواب باقی رہتا ہے۔
(4)
ریڑھ کی ہڈی کا آخری مہرہ بوسیدگی سے محفوظ رہتا ہے۔
کیونکہ اس سے جسم انسانی کی دوبارہ تخلیق ہوگی۔
یہ مہرہ کس طرح محفوظ رہتا ہے۔
؟ اس کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4266
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7415
´آدمی کا بدن تمام مٹی میں گل جاتا ہے مگر ڈھڈی`
«. . . أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْكُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْهُ خُلِقَ وَفِيهِ يُرَكَّبُ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام آدمی کے بدن کو زمین کھا جاتی ہے سوائے ڈھڈی کی ہڈی کے۔ اس سے آدمی پہلے بنایا گیا اور اسی سے پھر جوڑا جائے گا . . .“ [صحيح مسلم/كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ: 7415]
� تشریح:
«عجب الذنب» اس ہڈی کو کہتے ہیں جہاں سے جانور کی دم جمتی ہے آدمی کے بدن میں اس کو ڈھڈی کہتے ہیں۔ سو فرمایا کہ آدمی کا بدن تمام مٹی میں گل جاتا ہے مگر ڈھڈی نہیں گلتی۔ آدمی کی پیدائش پیٹ میں اول وہیں سے شروع ہوتی ہے اور قیامت میں بھی اسی ہڈی سے ترکیب شروع ہو گی۔ سب بدن کی خاک وہاں متصل ہو کر جیسا بدن تھا ویسا تیار ہو جائے گا۔ یہ جو فرمایا ڈھڈی نہیں گلتی ہو گی یا اس کے باریک اجزائے اصلیہ نہ گلتے ہوں گے اگرچہ غیر اصلی اجزاء گل جائیں۔ (تحفتہ الاخیار)
مختصر شرح نووی، حدیث/صفحہ نمبر: 7415
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 231
´عام انسانوں کا بدن مٹی کھا جاتی ہے`
«. . . أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْكُلُهُ التُّرَابُ إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْهُ خُلِقَ وَفِيهِ يُرَكَّبُ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام آدمی کے بدن کو زمین کھا جاتی ہے سوائے ڈھڈی کی ہڈی کے۔ اس سے آدمی پہلے بنایا گیا اور اسی سے پھر جوڑا جائے گا . . .“ [صحيح مسلم/كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ: 7415]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه أبوداود 4743، والنسائي 112،111/4، ح 2079، من حديث ما لك به ورواه مسلم فواد 142/ 2955، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ عام انسانوں کا بدن مٹی کھا جاتی ہے مگر انبیاء، صحابہ اور بعض شہداء صالحین کے اجسام محفوظ رہتے ہیں۔
➋ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سیدنا عبد الله بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک کو چھ مہینے بعد قبر سے نکالا تو جسم خراب نہیں ہوا تھا۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 563/3 روايتة حماد بن زيد عن ابي سلمه عن ابي نضرة عنه وسنده صحيح]
➌ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ تستر کی فتح کے بعد ایک صندوق میں ایک نبی کا جسم مبارک ملا تھا جو کہ بالکل محفوظ تھا۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبه13 /27، 28/13 ح 33808 وسنده صحیح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 341
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2079
´مومنوں کی روحوں کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی آدم (کے جسم کا ہر حصہ)، (مغیرہ والی حدیث میں ہے) ابن آدم (کے جسم کے ہر حصہ کو) مٹی کھا جاتی ہے، سوائے اس کی ریڑھ کی ہڈی کے، اسی سے وہ پیدا کیا گیا ہے، اور اسی سے (دوبارہ) جوڑا جائے گا۔“ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2079]
اردو حاشہ:
(1) ”مٹی کھا لیتی ہے“ یعنی سب اعضا ء مٹی بن جاتے ہیں لیکن یہ ہر شخص میں ضروری نہیں کیونکہ انبیاء ؑ کے بارے میں صراحت ہے کہ ان کے اجسام مقدسہ جوں کے توں رہتےہیں، حدیث میں ہے: ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ پیغمبرو ں کے جسموں کو کھائے۔“ (سنن أبي داود الصلاة باب فضل یوم الجمعة، حدیث: 1047، وسنن ماجه، اقامة الصلوات، باب فی فضل الجمعة، حدیث 1085) ان کے علاوہ بھی کسی کا جسم، اگر اللہ تعالی ٰ چاہے، یعنی باقی رہ سکتا ہے۔
(2) ”بن دم“ یہ بہت ہی چھوٹا اور لطیف حصہ ہے جو ضروری نہیں کہ الگ نظر آئے۔ ایک اور روایت میں آپ نے اسے رائی کر دانے سے تشبیہ دی ہے۔ دیکھیے: (المو سو عة الحدیث مسند الإمام أحمد: 17/332، حدیث:111230) یعنی بہت چھوٹا۔ کہا گیا ہے کہ انسانی جسم میں سب سے پہلے یہ حصہ بنتا ہے اور اخروی جسم بھی اسی سے بنے گا۔ اور یہ قیامت تک۔ ان کے نزدیک اس حدٰیث کا مطلب یہ ہے کہ جب نیا جسم بنے گا تو اس کی ابتدا بھی بن دم سے ہوگی اگر چہ وہ نیا بنایا جائے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2079
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4743
´جنت اور جہنم کی تخلیق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمین ابن آدم (انسان) کے تمام اعضاء (جسم) کو بجز ریڑھ کی نچلی ہڈی کے کھا جاتی ہے اس لیے کہ وہ اسی سے پیدا ہوا ہے ۱؎، اور اسی سے اسے دوبارہ جوڑ کر اٹھایا جائے گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4743]
فوائد ومسائل:
صحیح احادیث کے مطابق انبیا ء ورسل ؑکے جسم مٹی کے کھائے جانے سے محفوظ رہتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4743
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7416
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمام بن منبہ کو سنائی ہوئی حدیثوں میں سے ایک یہ حدیث ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"انسان میں ایک ہڈی ہے،اس کو زمین کبھی بھی کھانہیں سکے گی،اس سے قیامت کے دن جوڑا جائے گا،"لوگوں نےپوچھا، وہ کون سی ہڈی ہے؟اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ نے فرمایا:"دمچی۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7416]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عَجَبُ الذَنَب:
جانور کے دم پر ایک انتہائی چھوٹی سی ہڈی ہے،
جس سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوتا ہے اور اس سے اس کا اعادہ ہوگا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7416
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4814
4814. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”دونوں نفخوں میں چالیس کا فاصلہ ہو گا۔“ لوگوں نے پوچھا: ابوہریرہ! کیا چالیس دن کا؟ انہوں نے فرمایا: میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ پھر لوگوں نے پوچھا: چالیس سال کا؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ لوگوں نے عرض کی: چالیس ماہ کا؟ فرمایا: میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا، البتہ اتنا کہوں گا کہ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی، سوائے ریڑھ کی ہڈی کے سرے کے، اسی سے ترکیب خلق ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4814]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں یوں ہی ہے لیکن ابن مردویہ کی روایت میں چالیس برس مذکور ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔
حلیمی نے کہا اکثر روایتیں اس پر متفق ہیں کہ دونوں نفخوں میں چالیس برس کا فاصلہ ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4814
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4935
4935. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دونوں صور پھونکنے کے درمیان چالیس کا وقفہ ہو گا۔“ (حضرت ابوہریرہ ؓ کے شاگردوں میں سے) کسی نے کہا: کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ اس نے پوچھا: پھر چالیس سال مراد ہیں؟ انہوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالٰی آسمان سے پانی برسائے گا جس سے لوگ اس طرح اُگیں گے جس طرح سبزہ اُگتا ہے۔ انسان کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، سب گل سڑ جائے گا، سوائے ریڈھ کی ہڈی کے اور اسی سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4935]
حدیث حاشیہ:
ابن مردویہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ دونوں نفخوں میں چالیس برس کا فاصلہ ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4935
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4814
4814. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”دونوں نفخوں میں چالیس کا فاصلہ ہو گا۔“ لوگوں نے پوچھا: ابوہریرہ! کیا چالیس دن کا؟ انہوں نے فرمایا: میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ پھر لوگوں نے پوچھا: چالیس سال کا؟ انہوں نے فرمایا: نہیں، میں یہ نہیں کہہ سکتا۔ لوگوں نے عرض کی: چالیس ماہ کا؟ فرمایا: میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا، البتہ اتنا کہوں گا کہ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہو جائے گی، سوائے ریڑھ کی ہڈی کے سرے کے، اسی سے ترکیب خلق ہو گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4814]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ لوگوں نے (عَجبُ الذَّنَب)
کے متعلق سوال کیا کہ وہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا:
”وہ رائی کے دانے کے برابر ہوتا ہے۔
“ (مسند أحمد: 28/3)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ بھی اللہ کا ایک راز ہے جسے اس کے سوا کوئی اور نہیں جانتا کیونکہ قادر مطلق نے محض عدم سے انسان کو پیدا کیا ہے، دوبارہ پیدا کرنے کی صورت میں اس ہڈی کو باقی رکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ اس سے ترکیب خلق کی جائے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ فرشتوں کی پہچان کے لیے اسے بطور علامت باقی رکھا جائے تا کہ وہ انسان کو اس کے جوہر سے معلوم کرکے روح کو دوبارہ میں لوٹا سکیں۔
2۔
حضرات انبیاء علیہم السلام کے پاکیزہ جسم اس سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کے جسموں کو زمین نہیں کھائے گی۔
(فتح الباري: 702/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4814
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4935
4935. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دونوں صور پھونکنے کے درمیان چالیس کا وقفہ ہو گا۔“ (حضرت ابوہریرہ ؓ کے شاگردوں میں سے) کسی نے کہا: کیا چالیس دن مراد ہیں؟ انہوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ اس نے پوچھا: پھر چالیس سال مراد ہیں؟ انہوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالٰی آسمان سے پانی برسائے گا جس سے لوگ اس طرح اُگیں گے جس طرح سبزہ اُگتا ہے۔ انسان کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی، سب گل سڑ جائے گا، سوائے ریڈھ کی ہڈی کے اور اسی سے قیامت کے دن تمام مخلوق دوبارہ بنائی جائے گی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4935]
حدیث حاشیہ:
1۔
بعض اہل علم نے صحیح مسلم کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہوگا لیکن صحیح مسلم میں اس طرح کی کوئی صراحت نہیں ہے، البتہ ابن مردودیہ نے ایک روایت بیان کی ہے کہ ان کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہوگا لیکن وہ روایت شاذ ہے۔
2۔
علماء نے کہا کہ حدیث کے عموم سے حضرات انبیاء علیہم السلام کے جسم مستثنیٰ ہیں کیونکہ ان کے جسموں کو زمین نہیں کھائے گی جیساکہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 1047 و إرواء الغلیل للألبانی، رقم الحدیث: 4)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4935