عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میں اپنے شوہر اور زیر کفالت یتیم بچوں پر خرچ کروں تو کیا زکاۃ ہو جائے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو دہرا اجر ملے گا، ایک صدقے کا اجر، دوسرے رشتہ جوڑنے کا اجر“۱؎۔
It was narrated that:
Zainab, the wife of Abdullah said: “I asked the Messenger of Allah: 'Will it be accepted as charity on my part if I spend on my husband and the orphans in my care?' The Messenger of Allah said: 'She will have two rewards, the reward for charity and the reward for upholding ties of kinship.'”
It was narrated that:
Umm Salamah said: “The Messenger of Allah enjoined charity upon us. Zainab, the wife of Abdullah said: 'Will it be accepted as charity on my part if I give charity to my husband who is poor, and to the children of a brother of mine who are orphans, spending such and such on them, and in all circumstances?' He said: 'Yes.'”
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کا حکم دیا، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا میری زکاۃ ادا ہو جائے گی اگر میں اپنے شوہر پہ جو محتاج ہیں، اور اپنے بھتیجوں پہ جو یتیم ہیں صدقہ کروں، اور میں ہر حال میں ان پر ایسے اور ایسے خرچ کرتی ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ دست کاری کرتی تھیں (اور پیسے کماتی تھیں)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18268)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 48 (1467)، صحیح مسلم/الزکاة 4 (1001) (صحیح)» (ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ یہی سائلہ تھیں)
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی اپنی رسی لے اور پہاڑ پر جا کر ایک گٹھا لکڑیوں کا اپنی پیٹھ پر لادے، اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت پر قناعت کرے، تو یہ اس کے لیے لوگوں کے سامنے مانگنے سے بہتر ہے کہ لوگ دیں یا نہ دیں“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اگر مانگنے پر دیں تو مانگنے کی ایک ذلت ہوئی، اور نہ دیں تو دوہری ذلت مانگنے کی، اور مانگنے پر نہ ملنے کی، برخلاف اس کے اپنی محنت سے کمانے میں کوئی ذلت نہیں اگرچہ مٹی ڈھو کر یا لکڑیاں چن کر اپنی روزی حاصل کرے، یہ جو مسلمان خیال کرتے ہیں کہ پیشہ یا محنت کرنے میں ذلت اور ننگ و عار ہے، یہ سب شیطانی وسوسہ ہے، اس سے زیادہ ننگ و عار اور ذلت و رسوائی سوال کرنے اور ہاتھ پھیلانے میں ہے، بلکہ پیشے اور محنت میں گو وہ کتنا ہی حقیر ہو بشرطیکہ شرع کی رو سے منع نہ ہو کوئی ذلت نہیں ہے۔
It was narrated from Hisham bin Urwah, from his father, that:
his grandfather said: “The Messenger of Allah said: 'If one of you were to take his rope (or ropes) and go to the mountains, and bring a bundle of firewood on his back to sell, and thus become independent of means, that would be better for him than begging from people who may either give him something or not give him anything.'”
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن ابن ابي ذئب ، عن محمد بن قيس ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن ثوبان ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من يتقبل لي بواحدة، واتقبل له بالجنة"، قلت: انا، قال:" لا تسال الناس شيئا"، قال: فكان ثوبان يقع سوطه وهو راكب، فلا يقول لاحد ناولنيه، حتى ينزل فياخذه. (مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يَتَقَبَّلُ لِي بِوَاحِدَةٍ، وَأَتَقَبَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ"، قُلْتُ: أَنَا، قَالَ:" لَا تَسْأَلِ النَّاسَ شَيْئًا"، قَالَ: فَكَانَ ثَوْبَانُ يَقَعُ سَوْطُهُ وَهُوَ رَاكِبٌ، فَلَا يَقُولُ لِأَحَدٍ نَاوِلْنِيهِ، حَتَّى يَنْزِلَ فَيَأْخُذَهُ.
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون میری ایک بات قبول کرتا ہے؟ اور میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں“، میں نے عرض کیا: میں قبول کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں سے کوئی چیز مت مانگو“، چنانچہ ثوبان رضی اللہ عنہ جب سواری پر ہوتے اور ان کا کوڑا نیچے گر جاتا تو کسی سے یوں نہ کہتے کہ میرا کوڑا اٹھا دو، بلکہ خود اتر کر اٹھاتے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہ ایمان و توکل علی اللہ کا بڑا اعلیٰ درجہ ہے حالانکہ اس قسم کا سوال مباح اور جائز ہے، مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان بڑی تھی انہوں نے مخلوق سے مطلقاً سوال ہی چھوڑ دیا، صرف خالق سے سوال کرنے ہی کو بہتر سمجھا۔
Abdur-Rahman bin Yazid narrated that:
Thawban said: “The Messenger of Allah said: 'Who will commit himself to one thing, I will guarantee him paradise?' I said: 'I will.' He said: 'Do not ask people for anything.' So Thawban would drop his whip while he was on his mount, and he would not say to anyone: 'Get that for me' rather he would dismount and grab it.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے لوگوں سے مال بڑھانے کے لیے مانگا، تو وہ جہنم کے انگارے مانگتا ہے، چاہے اب وہ زیادہ مانگے یا کم مانگے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 35 (1041)، (تحفة الأشراف: 14910)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/331) (صحیح)»
Abu Hurairah narrated that:
the Messenger of Allah(ﷺ) said: “Whoever begs from people so as to accumulate more riches, he is asking for alive coal from hell, so let him ask for a lot or a little.”
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال ، حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن حكيم بن جبير ، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد ، عن ابيه ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من سال وله ما يغنيه، جاءت مسالته يوم القيامة خدوشا، او خموشا، او كدوحا في وجهه"، قيل: يا رسول الله وما يغنيه؟، قال:" خمسون درهما، او قيمتها من الذهب"، فقال رجل لسفيان: إن شعبة لا يحدث، عن حكيم بن جبير، فقال سفيان: قد حدثناه زبيد، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد. (مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ، جَاءَتْ مَسْأَلَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُدُوشًا، أَوْ خُمُوشًا، أَوْ كُدُوحًا فِي وَجْهِهِ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا يُغْنِيهِ؟، قَالَ:" خَمْسُونَ دِرْهَمًا، أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ"، فَقَالَ رَجُلٌ لِسُفْيَانَ: إِنَّ شُعْبَةَ لَا يُحَدِّثُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، فَقَالَ سُفْيَانُ: قَدْ حَدَّثَنَاهُ زُبَيْدٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سوال کرے اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو اسے بے نیاز کرتا ہو، تو یہ سوال قیامت کے دن اس کے چہرے پہ زخم کا نشان بن کر آئے گا“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کتنا مال آدمی کو بے نیاز کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچاس درہم یا اس کی مالیت کا سونا“۱؎۔ ایک شخص نے سفیان ثوری سے کہا: شعبہ تو حکیم بن جبیر سے روایت نہیں کرتے؟ سفیان ثوری نے کہا کہ یہ حدیث ہم سے زبید نے بھی محمد بن عبدالرحمٰن کے واسطے سے روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: ابوداود کی روایت میں ہے: «غنا» کی حد یہ ہے کہ آدمی کے پاس صبح و شام کا کھانا ہو، اور ایک روایت میں ہے کہ ایک اوقیہ کا مالک ہو، اور اس روایت میں پچاس درہم مذکور ہے، شافعی نے دوسرے قول کو لیا ہے اور احمد اور اسحاق اور ابن مبارک نے پہلے قول کو، بعض لوگوں نے تیسرے قول کو اور ابوحنیفہ نے کہا جو دو سو درہم کا مالک ہے یا اس قدر مالیت کا اسباب اس کے پاس ہے اس کے لیے سوال صحیح نہیں۔
Abdullah bin Mas'ud narrated that:
the Messenger of Allah said: “Whoever begs when he has enough to suffice him, his begging will come on the Day of Resurrection like lacerations on his face. ” It was said: “O Messenger of Allah, what is sufficient for him?” He said: “Fifty Dirham or their value in gold.”
USC-MSA web (English) Reference: 0
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف سنن أبي داود (1626) ترمذي (650،651) نسائي (2593) قزعة بن سويد: ضعيف (تقدم: 1455) والحديث السابق (الأصل: 1454) يغني عنه انوار الصحيفه، صفحه نمبر 445
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالدار کے لیے زکاۃ حلال نہیں ہے مگر پانچ آدمیوں کے لیے: زکاۃ وصول کرنے والے کے لیے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے، یا ایسے مالدار کے لیے جس نے اپنے پیسے سے اسے خرید لیا ہو، یا کوئی فقیر ہو جس پر صدقہ کیا گیا ہو، پھر وہ کسی مالدار کو اسے ہدیہ کر دے، (تو اس مالدار کے لیے وہ زکاۃ حلال ہے) یا وہ جو مقروض ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة 24 (1635)، (تحفة الأشراف: 4177)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 17 (29)، مسند احمد (3/4، 31، 40، 56، 97) (صحیح)»
Abu Sa'eed Al-Khudri narrated that:
the Messenger of Allah said: “Charity is not permissible for a rich man except in five cases: One who is appointed to collect it, a warrior fighting in the cause of Allah, a rich man who buys it with his own money, a poor man who receives the charity and gives it as a gift to a rich man, and a debtor.”