ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کا حکم دیا، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا میری زکاۃ ادا ہو جائے گی اگر میں اپنے شوہر پہ جو محتاج ہیں، اور اپنے بھتیجوں پہ جو یتیم ہیں صدقہ کروں، اور میں ہر حال میں ان پر ایسے اور ایسے خرچ کرتی ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ دست کاری کرتی تھیں (اور پیسے کماتی تھیں)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18268)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 48 (1467)، صحیح مسلم/الزکاة 4 (1001) (صحیح)» (ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، جس میں یہ صراحت ہے کہ یہی سائلہ تھیں)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1835
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) بیوی بچوں کا خرچ مرد کے ذمے ہے، عورت کے ذمے مرد یا بچوں کا خرچ نہیں، اس لیے مرد کا بیوی بچوں پر خرچ کرنا زکاۃ شمار نہیں ہو سکتا، البتہ بیوی کا خاوند پر خرچ کرنا اور بچوں کا خرچ برداشت کرنا صدقہ ہو گا۔ زکاۃ بھی ایک صدقہ ہی ہے جو فرض ہے اس لیے بیوی خاوند کو زکاۃ دے سکتی ہے جب کہ خاوند نادار ہو اور بیوی صاحب نصاب ہو۔ عورت بھی مرد کی طرح ملکیت کا مستقل حق رکھتی ہے۔ وہ تجارت، دستکاری یا ملازمت سے بھی رقم حاصل کر سکتی ہے اور والدین خاوند یا دیگر رشتہ داروں کے ترکے میں حصے کی بھی حق دار ہے تاہم اسے چاہیے کہ ایسی ملازمت یا کاروبار اختیار کرے جسے مردوں سے الگ تھلگ رہ کر جاری رکھنا ممکن ہو، او رمرد کی ہوس زدہ نگاہوں سے بھی محفوظ رہے۔ اقارب اگر امداد کے مستحق ہوں تو ان کی مالی امداد کا ثواب دوسروں کو صدقہ دینے سے زیادہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1835