ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالدار کے لیے زکاۃ حلال نہیں ہے مگر پانچ آدمیوں کے لیے: زکاۃ وصول کرنے والے کے لیے، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے، یا ایسے مالدار کے لیے جس نے اپنے پیسے سے اسے خرید لیا ہو، یا کوئی فقیر ہو جس پر صدقہ کیا گیا ہو، پھر وہ کسی مالدار کو اسے ہدیہ کر دے، (تو اس مالدار کے لیے وہ زکاۃ حلال ہے) یا وہ جو مقروض ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة 24 (1635)، (تحفة الأشراف: 4177)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 17 (29)، مسند احمد (3/4، 31، 40، 56، 97) (صحیح)»
Abu Sa'eed Al-Khudri narrated that:
the Messenger of Allah said: “Charity is not permissible for a rich man except in five cases: One who is appointed to collect it, a warrior fighting in the cause of Allah, a rich man who buys it with his own money, a poor man who receives the charity and gives it as a gift to a rich man, and a debtor.”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1841
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جو مال زکاۃ یا صدقے کے طور پر دیا جائے ادا کرنے والے کے قبضے سے نکل کر اس کی حیثیت تبدیل ہو جاتی ہے۔
(2) اسلامی حکومت کی طرف سے جن افراد کو زکاۃ وصول اور تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے، ان کی محنت کا حق ادا کیا جانا چاہیے۔
(3) دینی کام کرنے والے کو مناسب تنخواہ یا وظیفہ دیا جانا چاہیے، یہ اسلامی معاشرے کا فرض ہے جو اسلامی حکومت قائم ہونے کی صورت میں بیت المال کے ذریعے سے ادا کیا جاتا ہے ورنہ عام مسلمانوں کو خود یہ فرض ادا کرنا چاہیے۔
(4) اسلامی سلطنت کا دفاع بھی زکاۃ و صدقات کا ایک اہم مصرف ہے۔ اس میں فوجیوں کی تنخواہیں، ان کے لیے ضروری اسلحہ کی فراہمی اور ان کی ٹریننگ کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
(5) جس مستحق کو زکاۃ کے طور پر کوئی جانور (اونٹ، بکری وغیرہ) یا سونے، چاندی کا کوئی زیور دیا جائے وہ اسے فروخت کر سکتا ہے۔ خریدنے والے کے لیے وہ زکاۃ کا مال شمار نہیں ہوگا، البتہ صدقہ دینے والا صدقہ لینے والے سے وہ چیز نہیں خرید سکتا جو اس نے اسے صدقے کے طور پر دی ہے۔ (صحیح البخاري، الزکاۃ، باب ھل یشتری صدقته؟ ولا باس ان یشتری صدقة غیرہ .....، حدیث: 1489) ۔
(6) ایک غریب آدمی کسی خوشحال آدمی کو کوئی تحفہ دے تو یہ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں کہ اسے یہ چیز صدقہ کے طور پر ملی ہے یا دوسرے طریقے سے۔ تحفہ وصول کرنے والے کے لیے اس کی حیثیت صدقے کی نہیں، اس لیے اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(7) دیوالیہ (غارم) سے مراد وہ شخص بھی ہو سکتا ہے جس پر اتنا زیادہ قرض ہو جائے کہ وہ اسے ادا کرنے کے قابل نہ رہے اور اس کی ملکیت بھی اتنی نہ ہو کہ فروخت کر کے قرضہ ادا کیا جا سکے۔ اور وہ شخص بھی مراد ہو سکتا ہے جس نے قرض کے سلسلے میں کسی کی ضمانت دی اور مقروض نے مقررہ وقت پر ادائیگی سے انکار کر دیا یا فرار ہو گیا، اس طرح ضامن کو وہ رقم ادا کرنی پڑ گئی۔ اسی طرح حادثاتی طور پر کوئی شخص مفلس ہوجائے، مثلاً: کسی نے باغ کا پھل خریدا تھا، طوفان سے پھل ضائع ہو گیا اور رقم اس کے ذمے رہ گئی، ایسے شخص کا نقصان بھی زکاۃ و صدقات سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح اور بھی صورتیں ہو سکتی ہیں، وہ سب ”غارم“ میں شامل ہوں گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1841
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 520
´صدقات کی تقسیم کا بیان` سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کسی مالدار کے لیے صدقہ حلال نہیں سوائے پانچ قسم کے مالداروں کے۔ زکوٰۃ کا مال اکٹھا کرنے والا، وہ شخص جو اپنے مال سے صدقے کی کوئی چیز خریدے، مقروض، فی سبیل اللہ جہاد کرنے والا اور، مسکین کو جو صدقے میں ملے وہ اس میں سے کچھ مالدار کو تحفے کے طور پر دیدے۔“ اسے احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اسے مرسل ہونے سے معلول قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 520]
لغوی تشریح 520: لِغَنِیٍّ غنی اسے کہتے ہیں جس کی ملکیت میں ایک اوقیہ ہو یا اتنی مقدار میں کھانا ہو کہ صبح شام اس کے لیے کافی ہو جائے۔ لِعَامِلٍ عَلَیھَا عامل سے مراد وہ کارندہ اور تحصیلدار ہے جو صدقے کی وصولی کے لیے کام کرتا ہے، مثلًا: اسے اکٹھا کرنے والا، حساب رکھنے والا، تحریر کرنے والا۔ اس کے لیے کارکردگی کا معاوضہ لینا جائز ہے، خواہ وہ خود مالدار ہی کیوں نہ ہو۔ غَارِم مقروض، قرض دار۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد یہ ہے کہ باہمی رقابت و دشمنی کی اصلاح کے لیے قرض لینا یا کسی پر کوئی بوجھ آن پڑا ہے تو اسے اتارنے کے لیے قرض لینا۔ رہا اپنی ذات کے لیے قرض کا حصول تو اگر وہ اس کے ادا کرنے کی قدرت و استطاعت ہی نہ رکھتا ہو تو پھر وہ فقراء کے زمرے میں شامل ہو گا اور اگر طاقت رکھتا ہے تو اسے غنی شمار کیا جائے گا جس کی وجہ سے اس کے لیے صدقہ لینا حلال نہیں۔
فوائد و مسائل 520: ➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غنی کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں۔ 2۔ غنی کون ہے؟ اس کی تعریف میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: گیا کہ غنی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس اتنی چیز ہو کہ صبح شام اس کی گزر بسر ہو سکے۔“[سنن ابي داؤد، الزكاة، باب من يعطي من الصدقة وحد الغني، حديث: 1629] اور سنن نسائی میں حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ”جس کی ملکیت میں ایک اوقیہ ہو، اس کے باوجود اگر وہ سوال کرے تو اسنے لپٹ چمٹ کر، یعنی اصرار سے سوال کیا۔“
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 520
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1635
´جس مالدار کو صدقہ لینا جائز ہے اس کا بیان۔` عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مالدار کے لیے صدقہ لینا حلال نہیں سوائے پانچ لوگوں کے: اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے لیے، یا زکاۃ کی وصولی کا کام کرنے والے کے لیے، یا مقروض کے لیے، یا ایسے شخص کے لیے جس نے اسے اپنے مال سے خرید لیا ہو، یا ایسے شخص کے لیے جس کا کوئی مسکین پڑوسی ہو اور اس مسکین پر صدقہ کیا گیا ہو پھر مسکین نے مالدار کو ہدیہ کر دیا ہو۔“[سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1635]
1635. اردو حاشیہ: (غارم) کے معنی عام طور پرمقروض کے کئے جاتے ہیں۔لیکن مطلقاً اس کا ترجمہ مقروض کرنا صحیح نہیں ہے۔بعض جگہ یہ مقروض کے معنی میں بھی آتا ہے۔لیکن یہاں اس کے معنی چٹی بھرنے والے کے ہیں۔یعنی کوئی مالدار شخص فتنہ وشر کے خاتمے اور دوشخصوں کے درمیان جھگڑا ختم کرانے کےلئے ایک فریق کی طرف سے رقم کی ادایئگی کی زمے داری اُٹھالے۔اور پھر وہ رقم اسی کو اداکرنی پڑ جائے۔تو ایسے صاحب حیثیت شخص کو یہ چٹی (تاوان) والی رقم زکواۃ کے مال سے ادا کرنی جائز ہے۔ باقی رہا مسئلہ مقروض کا کہ وہ مستحق زکواۃ ہے یا نہیں۔؟تو اس کی توضیح یہ ہے کہ صلح کرانے والے نے اگر قرض لے کر دوسرے فریق کو رقم دی ہے۔ تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے۔تو یہ مقروض(صاحب حیثیت ہونے کے باوجود) اس غارم کی تعریف میں آتا ہے۔جس کا زکر اس حدیث میں ہے۔اس کے علاوہ ایک وہ مقروض ہے۔جو اپنی ذاتی ضروریات کےلئے قرض لیتا ہے۔ لیکن تنگدستی کی وجہ سے وہ قرض ادا نہیں کرسکتا۔ تو اس حدیث میں اس کا زکر نہیں ہے۔تاہم ایسا شخص فقراء میں شمار ہوگا اور مستحق زکواۃ ہوگا۔زکواۃ کی رقم سے اس کا قرض ادا کرنا صحیح ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1635