صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
مقتدیوں کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور اس میں وارد سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
1074. (123) بَابُ إِجَازَةِ الصَّلَاةِ الْوَاحِدَةِ بِإِمَامَيْنِ
1074. ایک نماز کو دو اماموں کے ساتھ ادا کرنے کی رخصت و اجازت ہے
حدیث نمبر: Q1623
Save to word اعراب
احدهما بعد الآخر من غير حدث الاول، إذا ترك الاول الإمامة بعد ما قد دخل فيها، فيتقدم الثاني فيتم الصلاة من الموضع الذي كان انتهى إليه الاول، وإجازة صلاة المصلي يكون إماما في بعض الصلاة ماموما في بعضها، وإجازة ائتمام المرء بإمام قد تقدم افتتاح الماموم الصلاة قبل إمامه. أَحَدُهُمَا بَعْدَ الْآخَرِ مِنْ غَيْرِ حَدَثِ الْأَوَّلِ، إِذَا تَرَكَ الْأَوَّلُ الْإِمَامَةَ بَعْدَ مَا قَدْ دَخَلَ فِيهَا، فَيَتَقَدَّمُ الثَّانِي فَيُتِمُّ الصَّلَاةَ مِنَ الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَ انْتَهَى إِلَيْهِ الْأَوَّلُ، وَإِجَازَةِ صَلَاةِ الْمُصَلِّي يَكُونُ إِمَامًا فِي بَعْضِ الصَّلَاةِ مَأْمُومًا فِي بَعْضِهَا، وَإِجَازَةِ ائْتِمَامِ الْمَرْءِ بِإِمَامٍ قَدْ تَقَدَّمَ افْتِتَاحَ الْمَأْمُومِ الصَّلَاةَ قَبْلَ إِمَامِهِ.

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1623
Save to word اعراب
نا احمد بن عبدة ، نا حماد بن زيد ، اخبرنا ابو حازم ، وحدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، عن ابيه ، وحدثنا عبد الجبار بن العلاء ، حدثنا سفيان ، قال: سمعت ابا حازم ، عن سهل بن سعد ، وحدثنا يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، اخبرنا عبد الله بن وهب، ان مالكا حدثه، عن ابي حازم بن دينار ، عن سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى بني عمرو بن عوف ليصلح بينهم، فحانت الصلاة، وجاء المؤذن إلى ابي بكر، فقال: اتصلي بالناس فاقيم؟ فقال: نعم، فصلى ابو بكر، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس في الصلاة، فتخلص حتى وقف في الصف، فصفق الناس، وكان ابو بكر لا يلتفت في صلاته، فلما اكثر الناس التصفيق، التفت، فراى رسول الله صلى الله عليه وسلم، واشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ان امكث مكانك، فرفع ابو بكر يديه، فحمد الله على ما امره به رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك، ثم استاخر ابو بكر حتى استوى في الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فلما انصرف قال:" يا ابا بكر! ما منعك ان تثبت إذ امرتك؟" فقال ابو بكر: ما كان لابن ابي قحافة ان يصلي بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما لي رايتكم اكثرتم التصفيق؟ من نابه شيء في صلاته فليسبح ؛ فإنه إذا سبح التفت إليه، وإنما التصفيق للنساء" . هذا حديث يونس بن عبد الاعلى. قال ابو بكر: في هذا الخبر دلالة على ان المصلي إذا سبح به، فجائز له ان يلتفت إلى المسبح ليعلم المصلي الذي ناب المسبح، فيفعل ما يجب عليهنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، نا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَازِمٍ ، وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، وَحَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنَّ مَالِكًا حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتِ الصَّلاةُ، وَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي بِالنَّاسِ فَأُقِيمَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِي الصَّلاةِ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ، فَصَفَّقَ النَّاسُ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لا يَلْتَفِتُ فِي صَلاتِهِ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ، الْتَفَتَ، فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكِ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ! مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ؟" فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا كَانَ لابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمُ التَّصْفِيقَ؟ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلاتِهِ فَلْيُسَبِّحْ ؛ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ" . هَذَا حَدِيثُ يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمُصَلِّيَ إِذَا سُبِّحَ بِهِ، فَجَائِزٌ لَهُ أَنْ يَلْتَفِتَ إِلَى الْمُسَبِّحِ لِيَعْلَمَ الْمُصَلِّي الَّذِي نَابَ الْمُسَبِّحَ، فَيَفْعَلَ مَا يَجِبُ عَلَيْهِ
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے پاس ان کی صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے - (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں دیر ہو گئی) اور نماز کا وقت ہوگیا۔ مؤذن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تو میں اقامت کہہ دوں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ لہٰذا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھانا شروع کردی۔ اسی دوران میں کہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ آپ صفوں کو چیرتے ہوئے (آگے بڑھے) حتّیٰ کہ پہلی صف میں کھڑے ہو گئے۔ اس پر لوگوں نے (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو متوجہ کرنے کے لئے) تالیاں بجائیں مگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ پھر جب لوگوں نے اور زیادہ تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے اور اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا، اپنی جگہ کھڑے رہو (اور نماز جاری رکھو) مگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حُکم پر (کہ آپ کی موجودگی میں لوگوں کی امامت کراتے ہیں) اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا اور اس کی حمد بیان کی۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ کر صف میں برابر ہوکر کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جب میں نے تمہیں حُکم دے دیا تھا تو تم اپنی جگہ کھڑے کیوں نہ رہے؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ ابن ابی قحافہ (ابوبکر) کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے امامت کرائے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں بکثرت تالیاں بجاتے دیکھا ہے۔ جس شخص کو نماز میں کوئی چیز محسوس ہو (کہ امام سے غلطی ہوگئی ہے) تو اُسے «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَٰه» ‏‏‏‏ کہنا چاہیے۔ کیونکہ جب وہ «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَٰه» ‏‏‏‏ کہے گا تو امام اُس کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور بلاشبہ تالی بجانا (اور امام کو غلطی پر متنبہ کرنا) عورتوں کے لئے خاص ہے۔ یہ حدیث یونس بن عبد الاعلی کی روایت ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس مسئلے کی دلیل ہے کہ جب امام کو «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَٰه» ‏‏‏‏ کہہ کر متوجہ کیا جائے تو امام کے لئے «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَٰه» ‏‏‏‏ کہنے والے کی طرف متوجہ ہونا جائز ہے تاکہ وہ جان سکے کہ «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَٰه» ‏‏‏‏ کہنے والے نے کیا غلطی پائی ہے، چنانچہ اس کے مطابق اپنا فریضٰہ ادا کر سکے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1075. (124) بَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ فِي الْمَرَضِ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ لِيَتَوَلَّى الْإِمَامَةَ بِالنَّاسِ.
1075. امام اعظم کا بیماری کی وجہ سے انپی رعایا میں سے کسی کو خلیفہ اور نائب مقرر کرنا تاکہ وہ لوگوں کی امامت کا فریضہ سنبھال سکے
حدیث نمبر: 1624
Save to word اعراب
نا القاسم بن محمد بن عباد ابن عباد المهلبي ، وابو طالب زيد بن اخزم الطائي ، ومحمد بن يحيى الازدي ، قالوا: حدثنا عبد الله بن داود ، نا سلمة بن نبيط ، عن نعيم بن ابي هند ، عن نبيط بن شريط ، عن سالم بن عبيد ، قال: مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاغمي عليه، ثم افاق، فقال: " احضرت الصلاة؟" قلنا: نعم. قال:" مروا بلالا فليؤذن، ومروا ابا بكر فليصل بالناس"، ثم اغمي عليه، ثم افاق، فقال:" احضرت الصلاة؟ قلنا: نعم. قال:" مروا بلالا فليؤذن، ومروا ابا بكر فليصل بالناس"، ثم اغمي عليه، ثم افاق، فقالت عائشة: إن ابي رجل اسيف، فلو امرت غيره. ثم افاق، فقال:" احضرت الصلاة"؟ قلنا: نعم، فقال:" مروا بلالا فليؤذن، ومروا ابا بكر فليصل بالناس". قالت عائشة: إن ابي رجل اسيف، فلو امرت غيره، فقال:" إنكن صواحبات يوسف، مروا بلالا فليؤذن، ومروا ابا بكر فليصل بالناس"، ثم اغمي عليه، فامروا بلالا، فاذن، واقام، وامروا ابا بكر ان يصلي بالناس، ثم افاق، فقال:" اقيمت الصلاة؟" قلت: نعم. قال:" جيئوني بإنسان اعتمد عليه"، فجاءوا ببريرة، ورجل آخر، فاعتمد عليهما، ثم خرج إلى الصلاة، فاجلس إلى جنب ابي بكر، فذهب ابو بكر يتنحى، فامسكه حتى فرغ من الصلاة . هذا حديث القاسم بن محمدنا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ ابْنِ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ ، وَأَبُو طَالِبٍ زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الأَزْدِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ ، نا سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ ، قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ؟" قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ:" مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ؟ قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ:" مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ. ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ"؟ قُلْنَا: نَعَمْ، فَقَالَ:" مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ". قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ، فَقَالَ:" إِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ، مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَمَرُوا بِلالا، فَأَذَّنَ، وَأَقَامَ، وَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" أُقِيمَتِ الصَّلاةُ؟" قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ:" جِيئُونِي بِإِنْسَانٍ أَعْتَمِدُ عَلَيْهِ"، فَجَاءُوا بِبَرِيرَةَ، وَرَجُلٍ آخَرَ، فَاعْتَمَدَ عَلَيْهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاةِ، فَأُجْلِسَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَنَحَّى، فَأَمْسَكَهُ حَتَّى فَرَغَ مِنَ الصَّلاةِ . هَذَا حَدِيثُ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ
سیدنا سالم بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیہوش ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو پوچھا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ اذان کہیں اور ابوبکر(رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ بیہوش ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو دریافت کیا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال (رضی اللہ عنہ) کو حُکم دو کہ وہ اذان کہے اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بیہوش ہو گئے جب آپ کو ہوش آیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ بیشک میرے ابا جان بڑے نرم دل انسان ہیں (وہ آپ کی عدم موجودگی برداشت نہیں کر سکیں گے) اس لئے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے علاوہ کسی کو حُکم دے دیں تو بہتر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو آپ نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ ہم نے بتایا کہ جی ہاں وقت ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ اذان دے اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں - سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ بلاشبہ میرے والد گرامی نرم دل ہیں (وہ آپ کی جدائی میں رونے لگیں گے) اس لئے اگر آپ ان کے علاوہ کسی آدمی کو حُکم دیں تو بہتر ہوگا - تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک تم یوسف علیہ السلام کے قصّہ والی عورتوں جیسی ہو۔ بلال (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ اذان دے اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ لوگوں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے اذان کہنے کی التجا کی تو اُنہوں نے اذان کہی اور اقامت پڑھی اور اُنہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو نماز پڑھانے کی درخواست کی (تو اُنہوں نے نماز شروع کردی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو پوچھا: کیا نماز کھڑی ہوگئی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس ایک آدمی لاؤ جس کا میں سہارا لے سکوں۔ تو سیدنا بریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک اور آدمی کو بلا لائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن دونوں کا سہارا لیکر نماز کے ئے تشریف لائے تو آپ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں روک لیا، حتّیٰ کہ نماز سے فارغ ہو گئے۔ یہ قاسم بن محمد کی حدیث ہے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1076. (125) بَابُ ذِكْرِ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ عِنْدَ الْغَيْبَةِ عَنْ حَضْرَةِ الْمَسْجِدِ الَّذِي هُوَ إِمَامُهُ عِنْدَ الْحَاجَةِ تَبْدُو لَهُ
1076. بوقت ضرورت امام کا اپنی مسجد میں حاضر نہ ہونے کی بنا پر اپنا نائب مقرر کرنا
حدیث نمبر: 1625
Save to word اعراب
قال ابو بكر: في خبر سهل بن سعد وخروجه إلى بني عمرو ليصلح بينهم قال لبلال: «إذا حضرت الصلاة ولم آت فمر ابا بكر فليصل بالناس»  .قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ وَخُرُوجِهِ إِلَى بَنِي عَمْرٍو لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ قَالَ لِبِلَالٍ: «إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَمْ آتِ فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ»  .
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنی عمرو بن عوف کے درمیان صلح کرانے کے لئے تشریف لے جانے کا ذکر ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جب نماز کا وقت ہو جائے اور میں واپس نہ آ سکوں تو ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہنا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
1077. (126) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الِاقْتِدَاءِ بِالْمُصَلِّي الَّذِي يَنْوِي الصَّلَاةَ مُنْفَرِدًا، وَلَا يَنْوِي إِمَامَةَ الْمُقْتَدِي بِهِ.
1077. ایسے نمازی کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان جو اکیلے نماز پڑھنے کی نیت سے نماز پڑھ رہا ہو اور اس کی نیت مقتدی امامت کرانا نہ ہو
حدیث نمبر: 1626
Save to word اعراب
نا عبد الجبار بن العلاء ، وسعيد بن عبد الرحمن ، قالا: حدثنا سفيان ، عن ابن عجلان ، عن سعيد وهو المقبري ، عن ابي سلمة ، عن عائشة ، قالت: كان لنا حصير نبسطه بالنهار، ويتحجره رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل، فيصلي فيه، فتتبع له ناس من المسلمين يصلون بصلاته، فعلم بهم، فقال: " اكلفوا من العمل ما تطيقون ؛ فإن الله لا يمل حتى تملوا"، وكان احب الاعمال إليه ما ديم عليه وإن قل، وكان إذا صلى صلاة اثبتها . هذا حديث عبد الجبار، وقال سعيد بن عبد الرحمن: فسمع به ناس، فصلوا بصلاته، وزاد: وقال رسول الله:" إني خشيت ان اؤمر فيكم بامر لا تطيقونه"نا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ ، عَنْ سَعِيدٍ وَهُوَ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ لَنَا حَصِيرٌ نَبْسُطُهُ بِالنَّهَارِ، وَيَتَحَجَّرُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، فَيُصَلِّي فِيهِ، فَتَتَبَّعَ لَهُ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُصَلُّونَ بِصَلاتِهِ، فَعَلِمَ بِهِمْ، فَقَالَ: " اكْلَفُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ ؛ فَإِنَّ اللَّهَ لا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا"، وَكَانَ أَحَبُّ الأَعْمَالِ إِلَيْهِ مَا دِيمَ عَلَيْهِ وَإِنْ قَلَّ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلاةً أَثْبَتَهَا . هَذَا حَدِيثُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: فَسَمِعَ بِهِ نَاسٌ، فَصَلَّوْا بِصَلاتِهِ، وَزَادَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ:" إِنِّي خَشِيتُ أَنْ أُؤْمَرَ فِيكُمْ بِأَمْرٍ لا تُطِيقُونَهُ"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہماری ایک بڑی چٹائی تھی جسے ہم دن کے وقت بچھا لیتے تھے اور رات کے وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُسے سمیٹ کر اُس پر نماز ادا فرماتے۔ پھر کچھ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کا پتہ لگالیا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اتنے عمل کی ذمہ داری اُٹھاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ (ثواب دیتے ہوئے) نہیں تھکے گا حتّیٰ کہ تم ہی (عمل کرتے کرتے) تھک جاؤ گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک پسندیدہ عمل وہ تھا جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (نفل) نماز ادا فرماتے تو اس پر ہمیشگی اختیار کرتے۔ یہ جناب عبد الجبار کی روایت ہے اور جناب سعید بن عبدالرحمان کی روایت میں ہے کہ کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز کی خبر سنی تو وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ اور یہ الفاظ زیادہ بیان کیے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک میں ڈرتا ہوں کہ مجھے تمہارے بارے میں کوئی ایسا حُکم نہ دے دیا جائے جس کی تم طاقت نہ رکھو۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1627
Save to word اعراب
نا محمد بن عبد الاعلى الصنعاني ، نا المعتمر ، قال: سمعت حميدا ، ثنا انس. ح وحدثنا الصنعاني ايضا، حدثنا بشر يعني ابن المفضل ، حدثنا حميد ، قال: قال انس. ح وحدثنا ابو موسى ، نا خالد بن الحارث ، نا حميد ، عن انس ، وهذا حديث بشر بن المفضل، قال: صلى النبي صلى الله عليه وسلم في بعض حجره، فجاء ناس من المسلمين يصلون بصلاته، فلما احس بمكانهم تجوز في صلاته، ثم دخل البيت فصلى ما شاء الله، ثم خرج، فعل ذلك مرارا، فلما اصبحوا، قالوا: يا رسول الله، صلينا بصلاتك الليلة ونحن نحب ان نبسط، قال:" عمدا فعلت ذلك" نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ ، نا الْمُعْتَمِرُ ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمَيْدًا ، ثنا أَنَسٌ. ح وَحَدَّثَنَا الصَّنْعَانِيُّ أَيْضًا، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، قَالَ: قَالَ أَنَسٌ. ح وَحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى ، نا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، نا حُمَيْدٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ بِشْرِ بْنِ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ حُجَرِهِ، فَجَاءَ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يُصَلُّونَ بِصَلاتِهِ، فَلَمَّا أَحَسَّ بِمَكَانِهِمْ تَجَوَّزَ فِي صَلاتِهِ، ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ فَصَلَّى مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ خَرَجَ، فَعَلَ ذَلِكَ مِرَارًا، فَلَمَّا أَصْبَحُوا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَلَّيْنَا بِصَلاتِكَ اللَّيْلَةَ وَنَحْنُ نُحِبُّ أَنْ نَبْسُطَ، قَالَ:" عَمْدًا فَعَلْتُ ذَلِكَ"
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی حجرے میں (نفل) نماز ادا فرمائی تو کچھ مسلمانوں کو (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا علم ہو گیا) تو وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی موجودگی کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز مختصر کردی، پھر آپ گھر تشریف لے گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے (تو لوگ ابھی موجود تھے) لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمل کئی بار کیا۔ جب صبح ہوئی تو اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، گزشتہ رات ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی ہے، اور ہم اسے وسیع پیمانے پر ادا کرنا چاہتے ہیں - آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہ کام عمداََ کیا ہے (تا کہ تم پر یہ نماز فرض نہ کر دی جائے)۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
1078. (127) بَابُ افْتِتَاحِ غَيْرِ الطَّاهِرِ الصَّلَاةَ نَاوِيًا الْإِمَامَةَ وَذِكْرُهُ أَنَّهُ غَيْرُ طَاهِرٍ بَعْدَ الِافْتِتَاحِ،
1078. غیر طاہر شخص کا امامت کی نیت سے نماز شروع کرنا اور نماز شروع کرنے کے بعد اسے یاد آنا کہ وہ غیر طاہر ہے
حدیث نمبر: Q1628
Save to word اعراب
وتركه الاستخلاف عند ذلك لينتظر المامومون رجوعه بعد الطهارة فيؤمهم.وَتَرْكُهُ الِاسْتِخْلَافَ عِنْدَ ذَلِكَ لِيَنْتَظِرَ الْمَأْمُومُونَ رُجُوعَهُ بَعْدَ الطَّهَارَةِ فَيَؤُمُّهُمْ.
اس وقت اس کا کسی کو اپنا نائب نہ بنانا تاکہ مقتدی اس کی واپسی کا انتظار کریں اور وہ طہارت کے بعد انہیں امامت کرائے

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1628
Save to word اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز کھڑی ہوگئی اور صفیں برابر ہوگئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، پھر جب آپ اپنی جائے نماز میں کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آیا کہ آپ جنبی ہیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ کیا کہ تم اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہو۔ پھر آپ گھر تشریف لے گئے، غسل کیا، پھر تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حماد بن سلمہ اپنی سند سے سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کر دی تھی، پھر (یاد آنے پر) اُنہیں اشارہ کیا کہ اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہو، پھر آپ گھر چلے گئے۔ پھر آپ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1629
Save to word اعراب
قال ابو بكر: في خبر حماد بن سلمة ، عن زياد الاعلم ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افتتح الصلاة، ثم اوما إليهم ان مكانكم، ثم دخل، ثم خرج وراسه يقطر، فصلى بهم . نا الحسن بن محمد الزعفراني ، نا يحيى بن عباد . ح وحدثنا الحسن بن محمد ايضا، حدثنا عفان . ح وحدثنا يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، نا يزيد بن هارون ، قالوا: حدثنا حماد بن سلمة ، زاد الدورقي: فلما سلم، او قال: فلما قضى صلاته، قال:" إنما انا بشر، وإني كنت جنبا"قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ زِيَادٍ الأَعْلَمِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَ الصَّلاةَ، ثُمَّ أَوْمَأَ إِلَيْهِمْ أَنْ مَكَانَكُمْ، ثُمَّ دَخَلَ، ثُمَّ خَرَجَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَصَلَّى بِهِمْ . نا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ ، نا يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ . ح وَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَيْضًا، حَدَّثَنَا عَفَّانُ . ح وَحَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، نا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، زَادَ الدَّوْرَقِيُّ: فَلَمَّا سَلَّمَ، أَوْ قَالَ: فَلَمَّا قَضَى صَلاتَهُ، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنِّي كُنْتُ جُنُبًا"
جناب الدورقی نے سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ بیان کیا ہے کہ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا یا فرمایا، پھر جب آپ نے اپنی نماز مکمّل کی تو فرمایا: یقیناً میں بھی ایک انسان ہی ہوں (اس لئے بھول گیا) اور میں جنابت کی حالت میں تھا (اس لئے یاد آنے پر غسل کیا اور پھر نماز پڑھائی)۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
1079. (128) بَابُ الرُّخْصَةِ فِي خُصُوصِيَّةِ الْإِمَامِ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ دُونَ الْمَأْمُومِينَ
1079. مقتدیوں کے علاوہ امام کا صرف اپنے لئے دعا کرنا درست ہے
حدیث نمبر: Q1630
Save to word اعراب
خلاف الخبر غير الثابت المروي عن النبي صلى الله عليه وسلم: انه قد خانهم إذا خص نفسه بالدعاء دونهم. خِلَافَ الْخَبَرِ غَيْرِ الثَّابِتِ الْمَرْوِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ قَدْ خَانَهُمْ إِذَا خَصَّ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ دُونَهُمْ.
اس ضعیف حدیث کے برخلاف جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام مقتدیوں کو چھوڑ کر صرف اپنے لئے دعا کرے تو اس نے ان کی خیانت کی ہے۔

تخریج الحدیث:

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.