صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر

صحيح ابن خزيمه
مقتدیوں کا امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور اس میں وارد سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ
1075. (124) بَابُ اسْتِخْلَافِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ فِي الْمَرَضِ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ لِيَتَوَلَّى الْإِمَامَةَ بِالنَّاسِ.
1075. امام اعظم کا بیماری کی وجہ سے انپی رعایا میں سے کسی کو خلیفہ اور نائب مقرر کرنا تاکہ وہ لوگوں کی امامت کا فریضہ سنبھال سکے
حدیث نمبر: 1624
Save to word اعراب
نا القاسم بن محمد بن عباد ابن عباد المهلبي ، وابو طالب زيد بن اخزم الطائي ، ومحمد بن يحيى الازدي ، قالوا: حدثنا عبد الله بن داود ، نا سلمة بن نبيط ، عن نعيم بن ابي هند ، عن نبيط بن شريط ، عن سالم بن عبيد ، قال: مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاغمي عليه، ثم افاق، فقال: " احضرت الصلاة؟" قلنا: نعم. قال:" مروا بلالا فليؤذن، ومروا ابا بكر فليصل بالناس"، ثم اغمي عليه، ثم افاق، فقال:" احضرت الصلاة؟ قلنا: نعم. قال:" مروا بلالا فليؤذن، ومروا ابا بكر فليصل بالناس"، ثم اغمي عليه، ثم افاق، فقالت عائشة: إن ابي رجل اسيف، فلو امرت غيره. ثم افاق، فقال:" احضرت الصلاة"؟ قلنا: نعم، فقال:" مروا بلالا فليؤذن، ومروا ابا بكر فليصل بالناس". قالت عائشة: إن ابي رجل اسيف، فلو امرت غيره، فقال:" إنكن صواحبات يوسف، مروا بلالا فليؤذن، ومروا ابا بكر فليصل بالناس"، ثم اغمي عليه، فامروا بلالا، فاذن، واقام، وامروا ابا بكر ان يصلي بالناس، ثم افاق، فقال:" اقيمت الصلاة؟" قلت: نعم. قال:" جيئوني بإنسان اعتمد عليه"، فجاءوا ببريرة، ورجل آخر، فاعتمد عليهما، ثم خرج إلى الصلاة، فاجلس إلى جنب ابي بكر، فذهب ابو بكر يتنحى، فامسكه حتى فرغ من الصلاة . هذا حديث القاسم بن محمدنا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ ابْنِ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ ، وَأَبُو طَالِبٍ زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الأَزْدِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ ، نا سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدَ ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ ، قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: " أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ؟" قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ:" مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ؟ قُلْنَا: نَعَمْ. قَالَ:" مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ. ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلاةُ"؟ قُلْنَا: نَعَمْ، فَقَالَ:" مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ". قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ، فَقَالَ:" إِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ، مُرُوا بِلالا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَمَرُوا بِلالا، فَأَذَّنَ، وَأَقَامَ، وَأَمَرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" أُقِيمَتِ الصَّلاةُ؟" قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ:" جِيئُونِي بِإِنْسَانٍ أَعْتَمِدُ عَلَيْهِ"، فَجَاءُوا بِبَرِيرَةَ، وَرَجُلٍ آخَرَ، فَاعْتَمَدَ عَلَيْهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاةِ، فَأُجْلِسَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَنَحَّى، فَأَمْسَكَهُ حَتَّى فَرَغَ مِنَ الصَّلاةِ . هَذَا حَدِيثُ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ
سیدنا سالم بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیہوش ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو پوچھا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ اذان کہیں اور ابوبکر(رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ بیہوش ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو دریافت کیا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ ہم نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال (رضی اللہ عنہ) کو حُکم دو کہ وہ اذان کہے اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بیہوش ہو گئے جب آپ کو ہوش آیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ بیشک میرے ابا جان بڑے نرم دل انسان ہیں (وہ آپ کی عدم موجودگی برداشت نہیں کر سکیں گے) اس لئے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے علاوہ کسی کو حُکم دے دیں تو بہتر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو آپ نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہوگیا ہے؟ ہم نے بتایا کہ جی ہاں وقت ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ اذان دے اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں - سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ بلاشبہ میرے والد گرامی نرم دل ہیں (وہ آپ کی جدائی میں رونے لگیں گے) اس لئے اگر آپ ان کے علاوہ کسی آدمی کو حُکم دیں تو بہتر ہوگا - تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک تم یوسف علیہ السلام کے قصّہ والی عورتوں جیسی ہو۔ بلال (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ اذان دے اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ لوگوں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے اذان کہنے کی التجا کی تو اُنہوں نے اذان کہی اور اقامت پڑھی اور اُنہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے لوگوں کو نماز پڑھانے کی درخواست کی (تو اُنہوں نے نماز شروع کردی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا تو پوچھا: کیا نماز کھڑی ہوگئی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس ایک آدمی لاؤ جس کا میں سہارا لے سکوں۔ تو سیدنا بریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک اور آدمی کو بلا لائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن دونوں کا سہارا لیکر نماز کے ئے تشریف لائے تو آپ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ اس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں روک لیا، حتّیٰ کہ نماز سے فارغ ہو گئے۔ یہ قاسم بن محمد کی حدیث ہے۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.