احدهما بعد الآخر من غير حدث الاول، إذا ترك الاول الإمامة بعد ما قد دخل فيها، فيتقدم الثاني فيتم الصلاة من الموضع الذي كان انتهى إليه الاول، وإجازة صلاة المصلي يكون إماما في بعض الصلاة ماموما في بعضها، وإجازة ائتمام المرء بإمام قد تقدم افتتاح الماموم الصلاة قبل إمامه. أَحَدُهُمَا بَعْدَ الْآخَرِ مِنْ غَيْرِ حَدَثِ الْأَوَّلِ، إِذَا تَرَكَ الْأَوَّلُ الْإِمَامَةَ بَعْدَ مَا قَدْ دَخَلَ فِيهَا، فَيَتَقَدَّمُ الثَّانِي فَيُتِمُّ الصَّلَاةَ مِنَ الْمَوْضِعِ الَّذِي كَانَ انْتَهَى إِلَيْهِ الْأَوَّلُ، وَإِجَازَةِ صَلَاةِ الْمُصَلِّي يَكُونُ إِمَامًا فِي بَعْضِ الصَّلَاةِ مَأْمُومًا فِي بَعْضِهَا، وَإِجَازَةِ ائْتِمَامِ الْمَرْءِ بِإِمَامٍ قَدْ تَقَدَّمَ افْتِتَاحَ الْمَأْمُومِ الصَّلَاةَ قَبْلَ إِمَامِهِ.
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف کے پاس ان کی صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے - (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں دیر ہو گئی) اور نماز کا وقت ہوگیا۔ مؤذن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے تو میں اقامت کہہ دوں؟ اُنہوں نے فرمایا کہ ہاں۔ لہٰذا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھانا شروع کردی۔ اسی دوران میں کہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے۔ آپ صفوں کو چیرتے ہوئے (آگے بڑھے) حتّیٰ کہ پہلی صف میں کھڑے ہو گئے۔ اس پر لوگوں نے (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو متوجہ کرنے کے لئے) تالیاں بجائیں مگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی نماز میں ادھر ادھر متوجہ نہیں ہوتے تھے۔ پھر جب لوگوں نے اور زیادہ تالیاں بجائیں تو وہ متوجہ ہوئے اور اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا، اپنی جگہ کھڑے رہو (اور نماز جاری رکھو) مگر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حُکم پر (کہ آپ کی موجودگی میں لوگوں کی امامت کراتے ہیں) اپنے دونوں ہاتھ اُٹھا کر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا اور اس کی حمد بیان کی۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ کر صف میں برابر ہوکر کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”جب میں نے تمہیں حُکم دے دیا تھا تو تم اپنی جگہ کھڑے کیوں نہ رہے؟ تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ ابن ابی قحافہ (ابوبکر) کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے امامت کرائے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں بکثرت تالیاں بجاتے دیکھا ہے۔ جس شخص کو نماز میں کوئی چیز محسوس ہو (کہ امام سے غلطی ہوگئی ہے) تو اُسے «سُبْحَانَ اللَٰه» کہنا چاہیے۔ کیونکہ جب وہ «سُبْحَانَ اللَٰه» کہے گا تو امام اُس کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور بلاشبہ تالی بجانا (اور امام کو غلطی پر متنبہ کرنا) عورتوں کے لئے خاص ہے۔“ یہ حدیث یونس بن عبد الاعلی کی روایت ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس مسئلے کی دلیل ہے کہ جب امام کو «سُبْحَانَ اللَٰه» کہہ کر متوجہ کیا جائے تو امام کے لئے «سُبْحَانَ اللَٰه» کہنے والے کی طرف متوجہ ہونا جائز ہے تاکہ وہ جان سکے کہ «سُبْحَانَ اللَٰه» کہنے والے نے کیا غلطی پائی ہے، چنانچہ اس کے مطابق اپنا فریضٰہ ادا کر سکے۔