امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ اُم ہانی کی یہ حدیث میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ والے دن چاشت کی آٹھ رکعات ادا کی تھیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک سفر میں) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے آخری پہر آرام کے لئے پڑاؤ ڈالا تو ہم بیدار نہ ہو سکے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا کہ ہر شخص اپنی سواری کے سر کو پکڑ لے (اور یہاں سے چل پڑے) کیونکہ اس جگہ شیطان ہمارے پاس آگیا ہے اور اُس نے ہمیں (نماز سے) غافل کر دیا ہے (چنانچہ کچھ آگے جاکر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا - (فجر کی) دو سنّتیں ادا کیں، پھر اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی۔ میں یہ واقعہ اس جگہ کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی بیان کر چکا ہوں، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صبح کی نماز سے سوئے رہ جانے کا تذکرہ ہے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو گیا تھا۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ سفر کیے ہیں - میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (ان سفروں میں) سورج کے زوال کے وقت دو رکعات چھوڑتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ جناب یونس بن عبداللہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر سے پہلے دو رکعات چھوڑتے کبھی نہیں دیکھا۔
امام صاحب رحمه الله فرماتے ہیں کہ کوفیوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک عجوبہ (حیرت انگیز، طرفہ تماشا) بیان کیا ہے مجھے ڈر ہے کہ اسے بیان کرنا جائز نہیں ہو گا الّا یہ کہ اس کی علت بیان کی جائے یہ عجوبہ متن میں نہیں ہے بلکہ اس قصّے کی سند میں ہے ـ کو فیوں نے حضرت نافع اور عطیہ بن سعد العوفی کے واسطے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضر اور سفر میں نمازیں پڑھی ہیں۔ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضر میں نماز ظہر چار رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا کیں۔ عصر کی چار رکعات ادا کیں اور اس کے بعد کچھ نہیں پڑھا اور مغرب کی تین رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا کیں اور عشاء کی چار رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا کیں۔ اور نماز فجر دو رکعات اور اس سے پہلے بھی دو رکعات ادا کیں اور میں نے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر دو رکعات اور اس کے بعد بھی دو رکعات پڑھیں۔ نماز عصر دو رکعات ادا کی اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی، مغرب کی نماز تین رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا کیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دن کے وتر ہیں۔ یہ حضر اور سفر میں کم نہیں ہوتی۔“ اور نماز عشاء دو رکعات اور اس کے بعد بھی دو رکعات ادا کیں، صبح کی نماز دو رکعات اور اس سے پہلے بھی دو رکعات (سنّتیں) ادا کیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ روایت ابوالخطاب نے مالک بن سعید کے واسطے سے ابن ابی لیلیٰ سے بیان کی ہے اور وہ نافع اور عطیہ بن سعد عوفی کے واسطے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں۔ یہ روایت اہل کوفہ کی ایک جماعت نے عطیہ کے واسطے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی ہے۔ ان میں اشعت بن سوار، فراس اور حجاج بن ارطاۃ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ راوی اسے مختصر اور کچھ تفصیل کے ساتھ مکمّل حدیث بیان کرتے ہیں - یہ حدیث کسی محدث پر پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ یہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف غلط طور پر منسوب کی گئی ہے - کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، تو سفر میں نفل نماز پڑھنے سے انکار کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر میں نے نفل ہی پڑھنے ہوتے تو پھر مجھے فرض نماز ہی مکمّل اور پوری پڑھ لینی چاہیے تھی۔ نیز انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں پڑتھے تھے۔
جناب عبداللہ بن سراقہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز سے پہلے اور اس کے بعد (نفل) نماز نہیں پڑھتے تھے۔
عثمان بن عبداللہ بن سراقہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے جناب حفص بن عاصم کو سفر میں نفل نماز پڑھتے دیکھا اور اس سفر میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اُن کے ساتھ تھے تو اُن سے کہا گیا کہ آپ کے ماموں (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) اس سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز سے پہلے اور بعد میں (نفل) نماز نہیں پڑھتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ میں رات کو (نفل) نماز پڑھ سکتا ہوں؟ توانہوں نے فرمایا کہ رات کو جتنی چاہو (نفل) نماز پڑھ لو۔
عیسٰی بن حفص بن عاصم کہتے ہیں مجھے میرے والد گرامی جناب حفص بن عاصم رحمه الله نے بیان کیا کہ میں ایک سفر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو اُنہوں نے نماز ظہر اور عصر کی دو رکعات پڑھیں۔ پھر وہ اپنے قالین یا گدے کی طرف تشریف لے گئے تو اُنہوں نے کچھ لوگوں کو نفل پڑھتے ہوئے دیکھا، اُنہوں نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کی نفل پڑھ رہے ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے اس (فرض نماز) سے پہلے یا بعد میں (نفل) نماز پڑھنی ہوتی تو میں اسے (فرض نماز کو) ہی مکمّل پڑھ لیتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سفر میں) دو رکعات سے زیادہ ادا نہیں کرتے تھے۔ اور سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی صحبت بھی میں نے اختیار کی ہے وہ بھی اس طرح (صرف فرض نماز دوگانہ) ادا کرتے تھے۔ یہ جناب یحییٰ بن حکیم کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، تو سفر میں فرض نماز کے بعد نفل نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر میں نے نفل ہی پڑھنے ہوتے تو فرض نماز مکمّل ادا کر لیتا - لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نماز ظہرکے فرضوں کے بعد دو رکعت سنّت پڑھتے ہوئے دیکھیں اور پھر اس شخص کو منع کریں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کے مطابق عمل کرے؟ حضرت سالم اور حفص بن عاصم رحمه الله سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو عطیہ بن سعد کی نسبت زیادہ جاننے والے اور یاد رکھنے والے ہیں (ان کی روایات درج ذیل ہیں جو عطیہ کی روایات کے مخالف ہیں۔)
حضرت سالم بن عبداللہ رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں فرض نماز سے پہلے اور اس کے بعد کوئی نفل نماز نہیں پڑھتے تھے حتیٰ کہ آدھی رات ہو جاتی تو اُٹھ کر نفل ادا کرتے۔ اور وہ رات کو نماز تہجّد کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔
وحدثنا وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني عاصم بن عبد الله، ان حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ، اخبره، انه سال عبد الله بن عمر عن تركه السبحة في السفر، فقال له عبد الله:" لو سبحت ما باليت ان اتم الصلاة" ، قال الزهري: فقلت لسالم: هل سالت انت عبد الله بن عمر عما ساله عنه حفص بن عاصم؟ قال سالم: لا، إنا كنا نهابه عن بعض المسالة". قال ابو بكر: فخبر سالم، وحفص يدلان على ان خبر عطية، عن ابن عمر وهم. وابن ابي ليلى واهم في جمعه بين نافع، وعطية في خبر ابن عمر في التطوع في السفر، إلا ان هذا من الجنس الذي نقول إنه لا يجوز ان يحتج بالإنكار على الإثبات. وابن عمر رحمه الله، وإن لم ير النبي صلى الله عليه وسلم متطوعا في السفر، فقد رآه غيره يصلي متطوعا في السفر، والحكم لمن يخبر برؤية النبي صلى الله عليه وسلم لا لمن لم يره، هذه مسالة قد بينتها في غير موضع من كتبناوَحَدَّثَنَا وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ حَفْصَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ تَرْكِهِ السُّبْحَةَ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ:" لَوْ سَبَّحْتُ مَا بَالَيْتُ أَنْ أُتِمَّ الصَّلاةَ" ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: هَلْ سَأَلْتَ أَنْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَمَّا سَأَلَهُ عَنْهُ حَفْصُ بْنُ عَاصِمٍ؟ قَالَ سَالِمٌ: لا، إِنَّا كُنَّا نَهَابُهُ عَنْ بَعْضِ الْمَسْأَلَةِ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَخَبَرُ سَالِمٍ، وَحَفْصٍ يَدُلانِ عَلَى أَنَّ خَبَرَ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَهْمٌ. وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَاهِمٌ فِي جَمْعِهِ بَيْنَ نَافِعٍ، وَعَطِيَّةَ فِي خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ، إِلا أَنَّ هَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ إِنَّهُ لا يَجُوزُ أَنْ يُحْتَجَّ بِالإِنْكَارِ عَلَى الإِثْبَاتِ. وَابْنُ عُمَرَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَطَوِّعًا فِي السَّفَرِ، فَقَدْ رَآهُ غَيْرُهُ يُصَلِّي مُتَطَوِّعًا فِي السَّفَرِ، وَالْحُكْمُ لِمَنْ يُخْبِرُ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا لِمَنْ لَمْ يَرَهُ، هَذِهِ مَسْأَلَةٌ قَدْ بَيَّنْتُهَا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا
جناب حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سفر میں ان کے نفل نماز نہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اسے جواب دیا، اگر میں نے نفل ہی پڑھنے تھے تو میں اپنی فرض نماز ہی مکمّل کر لیتا۔ امام زہری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے کہا، کیا آپ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے وہی مسئلہ پوچھا تھا جو حضرت حفص بن عاصم نے اُن سے پوچھا تھا؟ تو حضرت سالم نے فرمایا کہ نہیں، بیشک ہم اُن سے بعض مسائل پوچھتے ہوئے ڈرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت سالم اور حفص کی روایات دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عطیہ بن سعد کی روایت وہم ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ سفر میں نفل نماز کے متعلق سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرنے میں نافع اور عطیہ کو جمع کر نے میں وہم ہوا ہے۔ مگر یہ مسئلہ اسی جنس سے تعلق رکھتا ہے جس کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ (کسی راوی کے کسی چیز کے) انکار سے اس کے اثبات کے خلاف دلیل نہیں لی جا سکتی۔ اگر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا تو ان کے علاوہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نفل نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا ترجیح اس صحابی کی حدیث ہو گی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (نفل نماز ادا کرتے) دیکھا ہے، نہ کہ اس صحابی کی روایت کو جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سفر میں نفل نماز پڑھتے) نہیں دیکھا۔ اس مسئلہ کو میں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر بیان کو چکا ہوں۔