صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
سفر میں نفل نماز پڑھنے کے متعلق ابواب کا مجموعہ
794. (561) بَابُ التَّطَوُّعِ بِالنَّهَارِ لِلْمُسَافِرِ خِلَافَ مَذْهَبِ مَنْ كَرِهَ التَّطَوُّعَ لِلْمُسَافِرِ بِالنَّهَارِ
794. مسافر کے لئے دن کے وقت نفل نماز پڑھنے کا بیان، ان علماء کے مذہب کے برخلاف جو مسافر کے لئے دن کے وقت نفل نماز کو مکروہ قرار دیتے ہیں
حدیث نمبر: 1251
Save to word اعراب
قال ابو بكر: خبر ام هانئ ان النبي صلى الله عليه وسلم " صلى يوم فتح مكة الضحى ثمان ركعات" . قد خرجته قبلقَالَ أَبُو بَكْرٍ: خَبَرُ أُمِّ هَانِئٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ الضُّحَى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ" . قَدْ خَرَّجْتُهُ قَبْلُ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدہ اُم ہانی کی یہ حدیث میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکّہ والے دن چاشت کی آٹھ رکعات ادا کی تھیں۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
795. (562) بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ
795. سفر میں فرض نماز سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1252
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، نا يحيى ، حدثنا يزيد بن كيسان ، حدثني ابو حازم ، عن ابي هريرة ، قال: اعرسنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم نستيقظ حتى طلعت الشمس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لياخذ كل إنسان براس راحلته، فإن هذا منزل حضرنا فيه الشيطان"، فغفلنا، فدعا بالماء فتوضا ثم صلى سجدتين، ثم اقيمت الصلاة فصلى الغداة. قد خرجت هذه القصة في غير هذا الموضع في نوم النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الصبح حتى طلعت الشمس حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: أَعْرَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نَسْتَيْقِظْ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِيَأْخُذْ كُلُّ إِنْسَانٍ بِرَأْسِ رَاحِلَتِهِ، فَإِنَّ هَذَا مَنْزِلٌ حَضَرَنَا فِيهِ الشَّيْطَانُ"، فَغَفَلْنَا، فَدَعَا بِالْمَاءِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلاةُ فَصَلَّى الْغَدَاةَ. قَدْ خَرَّجْتُ هَذِهِ الْقِصَّةَ فِي غَيْرِ هَذَا الْمَوْضِعِ فِي نَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاةِ الصُّبْحِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک سفر میں) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے آخری پہر آرام کے لئے پڑاؤ ڈالا تو ہم بیدار نہ ہو سکے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُکم دیا کہ ہر شخص اپنی سواری کے سر کو پکڑ لے (اور یہاں سے چل پڑے) کیونکہ اس جگہ شیطان ہمارے پاس آگیا ہے اور اُس نے ہمیں (نماز سے) غافل کر دیا ہے (چنانچہ کچھ آگے جاکر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا - (فجر کی) دو سنّتیں ادا کیں، پھر اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھائی۔ میں یہ واقعہ اس جگہ کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی بیان کر چکا ہوں، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صبح کی نماز سے سوئے رہ جانے کا تذکرہ ہے حتیٰ کہ سورج طلوع ہو گیا تھا۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1253
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم ، اخبرنا ابي ، وشعيب ، قالا: اخبرنا الليث ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن صفوان بن سليم، عن ابي بسرة الغفاري ، عن البراء بن عازب ، انه قال: سافرت مع النبي صلى الله عليه وسلم ثمانية عشر سفرا، فلم ار رسول الله صلى الله عليه وسلم" يترك ركعتين حين تزيغ الشمس، فلم اره يترك ركعتين قبل الظهر" . حدثنا يونس بن عبد الاعلى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرنا الليث ، وابو يحيى بن سليمان هو فليح ، عن صفوان بن سليم بهذا الإسناد نحوه، غير انه قال: فلم اره يترك ركعتين قبل الظهرحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ ، أَخْبَرَنَا أَبِي ، وَشُعَيْبٌ ، قَالا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُسْرَةَ الْغِفَارِيِّ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، أَنَّهُ قَالَ: سَافَرْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَفَرًا، فَلَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَتْرُكُ رَكْعَتَيْنِ حِينَ تَزِيغُ الشَّمْسُ، فَلَمْ أَرَهُ يَتْرُكُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ" . حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، وَأَبُو يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ هُوَ فُلَيْحٌ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَلَمْ أَرَهُ يَتْرُكُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھارہ سفر کیے ہیں - میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (ان سفروں میں) سورج کے زوال کے وقت دو رکعات چھوڑتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ جناب یونس بن عبداللہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر سے پہلے دو رکعات چھوڑتے کبھی نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف
حدیث نمبر: 1254
Save to word اعراب
وقد روى الكوفيون اعجوبة، عن ابن عمر: إني خائف ان لا تجوز روايتها إلا تبين علتها، لا انها اعجوبة في المتن، إلا انها اعجوبة في الإسناد في هذه القصة، رووا عن نافع، وعطية بن سعد العوفي، عن ابن عمر، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم في الحضر والسفر، فصليت معه في الحضر الظهر اربع ركعات، وبعدها ركعتين، والعصر اربع ركعات ليس بعدها شيء، والمغرب ثلاثا، وبعدها ركعتين، والعشاء اربعا، وبعدها ركعتين، والغداة ركعتين، وقبلها ركعتين، وصليت معه في السفر، الظهر ركعتين، وبعدها ركعتين، والعصر ركعتين، وليس بعدها شيء، والمغرب ثلاثا، وبعدها ركعتين"، وقال:" هي وتر النهار لا ينقص في حضر ولا سفر، والعشاء ركعتين، وبعدها ركعتين، والغداة ركعتين، وقبلها ركعتين" . ناه ابو الخطاب ، نا مالك بن سعير ، نا ابن ابي ليلى ، عن نافع ، وعطية بن سعد العوفي ، عن ابن عمر . وروى هذا الخبر جماعة من الكوفيين، عن عطية، عن ابن عمر، منهم اشعث بن سوار، وفراس، وحجاج بن ارطاة، منهم من اختصر الحديث، ومنهم من ذكره بطوله. وهذا خبر لا يخفى على عالم بالحديث ان هذا غلط وسهو عن ابن عمر، قد كان ابن عمر رحمه الله" ينكر التطوع في السفر، ويقول: لو كنت متطوعا ما باليت ان اتم الصلاة، وقال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يصلي قبلها ولا بعدها في السفروَقَدْ رَوَى الْكُوفِيُّونَ أُعْجُوبَةً، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: إِنِّي خَائِفٌ أَنْ لا تَجُوزَ رِوَايَتُهَا إِلا تَبِينُ عِلَّتُهَا، لا أَنَّهَا أُعْجُوبَةٌ فِي الْمَتْنِ، إِلا أَنَّهَا أُعْجُوبَةٌ فِي الإِسْنَادِ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ، رَوَوْا عَنْ نَافِعٍ، وَعَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ الْعَوْفِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي الْحَضَرِ الظُّهْرَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ لَيْسَ بَعْدَهَا شَيْءٌ، وَالْمَغْرِبَ ثَلاثًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَالْعِشَاءَ أَرْبَعًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَالْغَدَاةَ رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَهُ فِي السَّفَرِ، الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَلَيْسَ بَعْدَهَا شَيْءٌ، وَالْمَغْرِبَ ثَلاثًا، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ"، وَقَالَ:" هِيَ وِتْرُ النَّهَارِ لا يَنْقُصُ فِي حَضَرٍ وَلا سَفَرٍ، وَالْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ، وَالْغَدَاةَ رَكْعَتَيْنِ، وَقَبْلَهَا رَكْعَتَيْنِ" . ناهُ أَبُو الْخَطَّابِ ، نَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ ، نَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ نَافِعٍ ، وَعَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ الْعَوْفِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . وَرَوَى هَذَا الْخَبَرَ جَمَاعَةٌ مِنَ الْكُوفِيِّينَ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، مِنْهُمْ أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ، وَفِرَاسٌ، وَحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، مِنْهُمْ مَنِ اخْتَصَرَ الْحَدِيثَ، وَمِنْهُمْ مَنْ ذَكَرَهُ بِطُولِهِ. وَهَذَا خَبَرٌ لا يَخْفَى عَلَى عَالِمٍ بِالْحَدِيثِ أَنَّ هَذَا غَلَطٌ وَسَهْوٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَدْ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَحِمَهُ اللَّهُ" يُنْكِرُ التَّطَوُّعَ فِي السَّفَرِ، وَيَقُولُ: لَوْ كُنْتُ مُتَطَوِّعًا مَا بَالَيْتُ أَنْ أُتِمَّ الصَّلاةَ، وَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يُصَلِّي قَبْلَهَا وَلا بَعْدَهَا فِي السَّفَرِ
امام صاحب رحمه الله فرماتے ہیں کہ کوفیوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک عجوبہ (حیرت انگیز، طرفہ تماشا) بیان کیا ہے مجھے ڈر ہے کہ اسے بیان کرنا جائز نہیں ہو گا الّا یہ کہ اس کی علت بیان کی جائے یہ عجوبہ متن میں نہیں ہے بلکہ اس قصّے کی سند میں ہے ـ کو فیوں نے حضرت نافع اور عطیہ بن سعد العوفی کے واسطے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضر اور سفر میں نمازیں پڑھی ہیں۔ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضر میں نماز ظہر چار رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا کیں۔ عصر کی چار رکعات ادا کیں اور اس کے بعد کچھ نہیں پڑھا اور مغرب کی تین رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا کیں اور عشاء کی چار رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا کیں۔ اور نماز فجر دو رکعات اور اس سے پہلے بھی دو رکعات ادا کیں اور میں نے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ظہر دو رکعات اور اس کے بعد بھی دو رکعات پڑھیں۔ نماز عصر دو رکعات ادا کی اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں پڑھی، مغرب کی نماز تین رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا کیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دن کے وتر ہیں۔ یہ حضر اور سفر میں کم نہیں ہوتی۔ اور نماز عشاء دو رکعات اور اس کے بعد بھی دو رکعات ادا کیں، صبح کی نماز دو رکعات اور اس سے پہلے بھی دو رکعات (سنّتیں) ادا کیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ روایت ابوالخطاب نے مالک بن سعید کے واسطے سے ابن ابی لیلیٰ سے بیان کی ہے اور وہ نافع اور عطیہ بن سعد عوفی کے واسطے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں۔ یہ روایت اہل کوفہ کی ایک جماعت نے عطیہ کے واسطے سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی ہے۔ ان میں اشعت بن سوار، فراس اور حجاج بن ارطاۃ شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ راوی اسے مختصر اور کچھ تفصیل کے ساتھ مکمّل حدیث بیان کرتے ہیں - یہ حدیث کسی محدث پر پوشیدہ نہیں رہ سکتی کہ یہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف غلط طور پر منسوب کی گئی ہے - کیونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، تو سفر میں نفل نماز پڑھنے سے انکار کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر میں نے نفل ہی پڑھنے ہوتے تو پھر مجھے فرض نماز ہی مکمّل اور پوری پڑھ لینی چاہیے تھی۔ نیز انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں فرض نماز سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں پڑتھے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1255
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، نا يحيى ، نا ابن ابي ذئب ، حدثني عثمان بن عبد الله بن سراقة ، قال: سمعت ابن عمر يقول: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " لا يصلي قبلها ولا بعدها في السفر" حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى ، نَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لا يُصَلِّي قَبْلَهَا وَلا بَعْدَهَا فِي السَّفَرِ"
جناب عبداللہ بن سراقہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز سے پہلے اور اس کے بعد (نفل) نماز نہیں پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح علي شرط البخاري
حدیث نمبر: 1256
Save to word اعراب
وحدثناه بندار ، نا عثمان يعني ابن عمر ، نا ابن ابي ذئب ، عن عثمان ابن عبد الله بن سراقة ، انه راى حفص بن عاصم يسبح في السفر ومعهم في ذلك السفر عبد الله بن عمر، فقيل: إن خالك ينهى عن هذا، فسالت ابن عمر عن ذلك، فقال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يصنع ذلك" لا يصلي قبل الصلاة ولا بعدها" ، قلت: اصلي بالليل؟ فقال:" صل بالليل ما بدا لك"وَحَدَّثَنَاهُ بُنْدَارٌ ، نَا عُثْمَانُ يَعْنِي ابْنَ عُمَرَ ، نَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ عُثْمَانَ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ ، أَنَّهُ رَأَى حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ وَمَعَهُمْ فِي ذَلِكَ السَّفَرِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، فَقِيلَ: إِنَّ خَالَكَ يَنْهَى عَنْ هَذَا، فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا يَصْنَعُ ذَلِكَ" لا يُصَلِّي قَبْلَ الصَّلاةِ وَلا بَعْدَهَا" ، قُلْتُ: أُصَلِّي بِاللَّيْلِ؟ فَقَالَ:" صَلِّ بِاللَّيْلِ مَا بَدَا لَكَ"
عثمان بن عبداللہ بن سراقہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے جناب حفص بن عاصم کو سفر میں نفل نماز پڑھتے دیکھا اور اس سفر میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اُن کے ساتھ تھے تو اُن سے کہا گیا کہ آپ کے ماموں (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) اس سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز سے پہلے اور بعد میں (نفل) نماز نہیں پڑھتے تھے۔ میں نے عرض کی کہ میں رات کو (نفل) نماز پڑھ سکتا ہوں؟ توانہوں نے فرمایا کہ رات کو جتنی چاہو (نفل) نماز پڑھ لو۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1257
Save to word اعراب
حدثنا بندار ، نا يحيى بن سعيد ، نا عيسى بن حفص ، ح نا يحيى بن حكيم ، نا يحيى بن سعيد ، عن عيسى بن حفص يعني ابن عاصم بن عمر بن الخطاب ، قال بندار: قال: نا ابي ، وقال يحيى، حدثني ابي، قال: كنت مع ابن عمر في سفر فصلى الظهر والعصر ركعتين، ثم انصرف إلى طنفسة له، فراى قوما يسبحون يعني يصلون، قال:" ما يصنع هؤلاء؟" قال: قلت: يسبحون، قال:" لو كنت مصليا قبلها او بعدها لاتممتها، صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قبض، فكان لا يزيد على ركعتين، وابا بكر، وعمر، وعثمان كذلك" . هذا لفظ حديث يحيى بن حكيم. قال ابو بكر: فابن عمر رحمه الله ينكر التطوع في السفر بعد المكتوبة، ويقول: لو كنت مسبحا لاتممت الصلاة، فكيف يرى النبي صلى الله عليه وسلم يتطوع بركعتين في السفر بعد المكتوبة من صلاة الظهر، ثم ينكر على من يفعل ما فعل النبي صلى الله عليه وسلم، وسالم، وحفص بن عاصم اعلم بابن عمر واحفظ لحديثه من عطية بن سعدحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، نَا عِيسَى بْنُ حَفْصٍ ، ح نَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، نَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ حَفْصٍ يَعْنِي ابْنَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ بُنْدَارٌ: قَالَ: نَا أَبِي ، وَقَالَ يَحْيَى، حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ فِي سَفَرٍ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى طِنْفِسَةٍ لَهُ، فَرَأَى قَوْمًا يُسَبِّحُونَ يَعْنِي يُصَلُّونَ، قَالَ:" مَا يَصْنَعُ هَؤُلاءِ؟" قَالَ: قُلْتُ: يُسَبِّحُونَ، قَالَ:" لَوْ كُنْتُ مُصَلِّيًا قَبْلَهَا أَوْ بَعْدَهَا لأَتْمَمْتُهَا، صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قُبِضَ، فَكَانَ لا يَزِيدُ عَلَى رَكْعَتَيْنِ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ كَذَلِكَ" . هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ حَكِيمٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَابْنُ عُمَرَ رَحِمَهُ اللَّهُ يُنْكَرُ التَّطَوُّعَ فِي السَّفَرِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ، وَيَقُولُ: لَوْ كُنْتُ مُسَبِّحًا لأَتْمَمْتُ الصَّلاةَ، فَكَيْفَ يَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَطَوَّعُ بِرَكْعَتَيْنِ فِي السَّفَرِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ مِنْ صَلاةِ الظُّهْرِ، ثُمَّ يُنْكِرُ عَلَى مَنْ يَفْعَلُ مَا فَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَالِمٌ، وَحَفْصُ بْنُ عَاصِمٍ أَعْلَمُ بِابْنِ عُمَرَ وَأَحْفَظُ لِحَدِيثِهِ مِنْ عَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ
عیسٰی بن حفص بن عاصم کہتے ہیں مجھے میرے والد گرامی جناب حفص بن عاصم رحمه الله نے بیان کیا کہ میں ایک سفر میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو اُنہوں نے نماز ظہر اور عصر کی دو رکعات پڑھیں۔ پھر وہ اپنے قالین یا گدے کی طرف تشریف لے گئے تو اُنہوں نے کچھ لوگوں کو نفل پڑھتے ہوئے دیکھا، اُنہوں نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے عرض کی نفل پڑھ رہے ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے اس (فرض نماز) سے پہلے یا بعد میں (نفل) نماز پڑھنی ہوتی تو میں اسے (فرض نماز کو) ہی مکمّل پڑھ لیتا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سفر میں) دو رکعات سے زیادہ ادا نہیں کرتے تھے۔ اور سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی صحبت بھی میں نے اختیار کی ہے وہ بھی اس طرح (صرف فرض نماز دوگانہ) ادا کرتے تھے۔ یہ جناب یحییٰ بن حکیم کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، تو سفر میں فرض نماز کے بعد نفل نماز پڑھنے سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اگر میں نے نفل ہی پڑھنے ہوتے تو فرض نماز مکمّل ادا کر لیتا - لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نماز ظہرکے فرضوں کے بعد دو رکعت سنّت پڑھتے ہوئے دیکھیں اور پھر اس شخص کو منع کریں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کے مطابق عمل کرے؟ حضرت سالم اور حفص بن عاصم رحمه الله سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو عطیہ بن سعد کی نسبت زیادہ جاننے والے اور یاد رکھنے والے ہیں (ان کی روایات درج ذیل ہیں جو عطیہ کی روایات کے مخالف ہیں۔)

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1258
Save to word اعراب
حضرت سالم بن عبداللہ رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں فرض نماز سے پہلے اور اس کے بعد کوئی نفل نماز نہیں پڑھتے تھے حتیٰ کہ آدھی رات ہو جاتی تو اُٹھ کر نفل ادا کرتے۔ اور وہ رات کو نماز تہجّد کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔

تخریج الحدیث: صحيح
حدیث نمبر: 1259
Save to word اعراب
وحدثنا وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني عاصم بن عبد الله، ان حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ، اخبره، انه سال عبد الله بن عمر عن تركه السبحة في السفر، فقال له عبد الله:" لو سبحت ما باليت ان اتم الصلاة" ، قال الزهري: فقلت لسالم: هل سالت انت عبد الله بن عمر عما ساله عنه حفص بن عاصم؟ قال سالم: لا، إنا كنا نهابه عن بعض المسالة". قال ابو بكر: فخبر سالم، وحفص يدلان على ان خبر عطية، عن ابن عمر وهم. وابن ابي ليلى واهم في جمعه بين نافع، وعطية في خبر ابن عمر في التطوع في السفر، إلا ان هذا من الجنس الذي نقول إنه لا يجوز ان يحتج بالإنكار على الإثبات. وابن عمر رحمه الله، وإن لم ير النبي صلى الله عليه وسلم متطوعا في السفر، فقد رآه غيره يصلي متطوعا في السفر، والحكم لمن يخبر برؤية النبي صلى الله عليه وسلم لا لمن لم يره، هذه مسالة قد بينتها في غير موضع من كتبناوَحَدَّثَنَا وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ حَفْصَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ تَرْكِهِ السُّبْحَةَ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ:" لَوْ سَبَّحْتُ مَا بَالَيْتُ أَنْ أُتِمَّ الصَّلاةَ" ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: هَلْ سَأَلْتَ أَنْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَمَّا سَأَلَهُ عَنْهُ حَفْصُ بْنُ عَاصِمٍ؟ قَالَ سَالِمٌ: لا، إِنَّا كُنَّا نَهَابُهُ عَنْ بَعْضِ الْمَسْأَلَةِ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَخَبَرُ سَالِمٍ، وَحَفْصٍ يَدُلانِ عَلَى أَنَّ خَبَرَ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَهْمٌ. وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَاهِمٌ فِي جَمْعِهِ بَيْنَ نَافِعٍ، وَعَطِيَّةَ فِي خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ، إِلا أَنَّ هَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ إِنَّهُ لا يَجُوزُ أَنْ يُحْتَجَّ بِالإِنْكَارِ عَلَى الإِثْبَاتِ. وَابْنُ عُمَرَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَطَوِّعًا فِي السَّفَرِ، فَقَدْ رَآهُ غَيْرُهُ يُصَلِّي مُتَطَوِّعًا فِي السَّفَرِ، وَالْحُكْمُ لِمَنْ يُخْبِرُ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا لِمَنْ لَمْ يَرَهُ، هَذِهِ مَسْأَلَةٌ قَدْ بَيَّنْتُهَا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا
جناب حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سفر میں ان کے نفل نماز نہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اسے جواب دیا، اگر میں نے نفل ہی پڑھنے تھے تو میں اپنی فرض نماز ہی مکمّل کر لیتا۔ امام زہری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے کہا، کیا آپ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے وہی مسئلہ پوچھا تھا جو حضرت حفص بن عاصم نے اُن سے پوچھا تھا؟ تو حضرت سالم نے فرمایا کہ نہیں، بیشک ہم اُن سے بعض مسائل پوچھتے ہوئے ڈرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت سالم اور حفص کی روایات دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عطیہ بن سعد کی روایت وہم ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ سفر میں نفل نماز کے متعلق سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرنے میں نافع اور عطیہ کو جمع کر نے میں وہم ہوا ہے۔ مگر یہ مسئلہ اسی جنس سے تعلق رکھتا ہے جس کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ (کسی راوی کے کسی چیز کے) انکار سے اس کے اثبات کے خلاف دلیل نہیں لی جا سکتی۔ اگر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا تو ان کے علاوہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نفل نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا ترجیح اس صحابی کی حدیث ہو گی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (نفل نماز ادا کرتے) دیکھا ہے، نہ کہ اس صحابی کی روایت کو جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سفر میں نفل نماز پڑھتے) نہیں دیکھا۔ اس مسئلہ کو میں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر بیان کو چکا ہوں۔

تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔
796. (563) بَابُ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ عِنْدَ تَوْدِيعِ الْمَنَازِلِ
796. منازل (پڑاوَ کی جگہ) سے رخصتی کے وقت سفر میں نفل نماز پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1260
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن ابي صفوان الثقفي ، نا عبد السلام بن هاشم ، نا عثمان بن سعد الكاتب ، وكان له مروءة وعقل، عن انس بن مالك ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم" لا ينزل منزلا إلا ودعه بركعتين" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ ، نَا عَبْدُ السَّلامِ بْنُ هَاشِمٍ ، نَا عُثْمَانُ بْنُ سَعْدٍ الْكَاتِبُ ، وَكَانَ لَهُ مَرُوءَةٌ وَعَقْلٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لا يَنْزِلُ مَنْزِلا إِلا وَدَّعَهُ بِرَكْعَتَيْنِ"
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس منزل پر بھی پڑاؤ ڈالتے تو اس سے رخصت ہوتے وقت دو رکعات ادا فرماتے۔

تخریج الحدیث: اسناده ضعيف

1    2    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.