وحدثنا وحدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني عاصم بن عبد الله، ان حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ، اخبره، انه سال عبد الله بن عمر عن تركه السبحة في السفر، فقال له عبد الله:" لو سبحت ما باليت ان اتم الصلاة" ، قال الزهري: فقلت لسالم: هل سالت انت عبد الله بن عمر عما ساله عنه حفص بن عاصم؟ قال سالم: لا، إنا كنا نهابه عن بعض المسالة". قال ابو بكر: فخبر سالم، وحفص يدلان على ان خبر عطية، عن ابن عمر وهم. وابن ابي ليلى واهم في جمعه بين نافع، وعطية في خبر ابن عمر في التطوع في السفر، إلا ان هذا من الجنس الذي نقول إنه لا يجوز ان يحتج بالإنكار على الإثبات. وابن عمر رحمه الله، وإن لم ير النبي صلى الله عليه وسلم متطوعا في السفر، فقد رآه غيره يصلي متطوعا في السفر، والحكم لمن يخبر برؤية النبي صلى الله عليه وسلم لا لمن لم يره، هذه مسالة قد بينتها في غير موضع من كتبناوَحَدَّثَنَا وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَاصِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ حَفْصَ بْنَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنْ تَرْكِهِ السُّبْحَةَ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ:" لَوْ سَبَّحْتُ مَا بَالَيْتُ أَنْ أُتِمَّ الصَّلاةَ" ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ لِسَالِمٍ: هَلْ سَأَلْتَ أَنْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَمَّا سَأَلَهُ عَنْهُ حَفْصُ بْنُ عَاصِمٍ؟ قَالَ سَالِمٌ: لا، إِنَّا كُنَّا نَهَابُهُ عَنْ بَعْضِ الْمَسْأَلَةِ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَخَبَرُ سَالِمٍ، وَحَفْصٍ يَدُلانِ عَلَى أَنَّ خَبَرَ عَطِيَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ وَهْمٌ. وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَاهِمٌ فِي جَمْعِهِ بَيْنَ نَافِعٍ، وَعَطِيَّةَ فِي خَبَرِ ابْنِ عُمَرَ فِي التَّطَوُّعِ فِي السَّفَرِ، إِلا أَنَّ هَذَا مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي نَقُولُ إِنَّهُ لا يَجُوزُ أَنْ يُحْتَجَّ بِالإِنْكَارِ عَلَى الإِثْبَاتِ. وَابْنُ عُمَرَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَطَوِّعًا فِي السَّفَرِ، فَقَدْ رَآهُ غَيْرُهُ يُصَلِّي مُتَطَوِّعًا فِي السَّفَرِ، وَالْحُكْمُ لِمَنْ يُخْبِرُ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لا لِمَنْ لَمْ يَرَهُ، هَذِهِ مَسْأَلَةٌ قَدْ بَيَّنْتُهَا فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا
جناب حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سفر میں ان کے نفل نماز نہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہما نے اسے جواب دیا، اگر میں نے نفل ہی پڑھنے تھے تو میں اپنی فرض نماز ہی مکمّل کر لیتا۔ امام زہری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے کہا، کیا آپ نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے وہی مسئلہ پوچھا تھا جو حضرت حفص بن عاصم نے اُن سے پوچھا تھا؟ تو حضرت سالم نے فرمایا کہ نہیں، بیشک ہم اُن سے بعض مسائل پوچھتے ہوئے ڈرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ حضرت سالم اور حفص کی روایات دلالت کرتی ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عطیہ بن سعد کی روایت وہم ہے۔ اور ابن ابی لیلیٰ سفر میں نفل نماز کے متعلق سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرنے میں نافع اور عطیہ کو جمع کر نے میں وہم ہوا ہے۔ مگر یہ مسئلہ اسی جنس سے تعلق رکھتا ہے جس کے متعلق ہم بیان کر چکے ہیں کہ (کسی راوی کے کسی چیز کے) انکار سے اس کے اثبات کے خلاف دلیل نہیں لی جا سکتی۔ اگر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا تو ان کے علاوہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر میں نفل نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا ترجیح اس صحابی کی حدیث ہو گی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (نفل نماز ادا کرتے) دیکھا ہے، نہ کہ اس صحابی کی روایت کو جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سفر میں نفل نماز پڑھتے) نہیں دیکھا۔ اس مسئلہ کو میں اپنی کتابوں میں کئی مقامات پر بیان کو چکا ہوں۔