سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رٗکوع سے اپنی کمر اُٹھاتے تو «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا کرتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے کھڑے «رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ» پڑھتے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو «اللهُ أَكْبَرُ» کہتے۔ (امام صاحب کے) دونوں اساتذہ کرام نے حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا اور کہا کہ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رُکوع سے اپنا سر بلند کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، مِلْءَ السَّمواتِ والأرضِ، ومِلْءَ ما شِئتَ مِن شيءٍ بعدُ» ”اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی (دعا) سن لی جس نے اس کی حمد و ثنا بیان کی، اے ہمارے رب، تیرے ہی لئے تمام تعریفیں ہیں، اور آسمان بھر کر، اور زمین بھر کر اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے وہ بھر کر (تیری تعریف ہے)۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے: «اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ، أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالمَجْدِ، أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ، وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ» ”اے اللہ، اے ہمارے رب تیرے ہی لئے تمام تعریف و توصیف ہے، آسمان بھر کر اور زمین بھر کر اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے وہ بھر کر (تیری تعریف ہے) تو تعریف اور بزرگی والا ہے۔ بندے نے جو نہایت سچی بات کہی ہے، اور ہم سب تیرے ہی بندے ہیں، (وہ یہ ہے کہ) جو چیز تو عطا فرما دے اُسے کوئی روکنے والا نہیں ہے، اور تجھ سے مال و دولت والے کو مال و دولت کچھ نفع نہیں دے گی۔“(امام صاحب کے) دونوں اساتذہ کرام نے ایک ہی طرح کی روایت بیان کی ہے، مگر جناب احمد نے کہا: «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» یعنی (انہوں نے «اللَّهُمَّ» اور واؤ کے بغیر روایت بیان کی ہے) امام صاحب نے اپنے استاد جناب محمد بن یحییٰ کی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کی ہے۔ اس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے۔ «وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ» ”جو چیز تو روک دے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا۔“
مع الدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم لم يرد بقوله: إذا قال الإمام سمع الله لمن حمده، فقولوا: ربنا لك الحمد ان الإمام لا يجوز له ان يزيد بعد رفع الراس من الركوع على قوله: ربنا لك الحمد.مَعَ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُرِدْ بِقَوْلِهِ: إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ أَنَّ الْإِمَامَ لَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَزِيدَ بَعْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنَ الرُّكُوعِ عَلَى قَوْلِهِ: رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ.
اس دلیل کے ساتھ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: ”جب امام سَمِعَ اللهُ لِمَن حمِده کہے تو تم ربَّنا لك الحمدُ کہو“ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ نہیں ہے کہ امام رکوع سے سر اٹھانے کے بعد:ربَّنا لك الحمدُ سے زائد کچھ نہیں پڑھ سکتا۔
سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُکوع سے سر اُٹھایا تو کہا: «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ایک شخص نے یہ دعا پڑھی: «رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ» ”اے ہمارے رب تیرے ہی لئے تمام تعریف ہے، بہت زیادہ، پاکیزہ اور بابرکت تعریفیں (تیرے لئے ہیں)“ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو پوچھا: ”ابھی ابھی کس شخص نے گفتگو کی ہے؟“اُس شخص نے عرض کی کہ میں نے کی ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو جلدی کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ کون ان کلمات کو پہلے لکھے۔“
397. رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے دعائے قنوت پڑھنے کا بیان، لہٰذا امام فرض نماز کی آخری رکعت میں رکوع سے سراٹھانے کے بعد قیام کی حالت میں دعا مانگے گا
فيدعو الإمام في القنوت بعد رفع الراس من الركوع في الركعة الاخيرة من صلاة الفريضة.فَيَدْعُو الْإِمَامُ فِي الْقُنُوتِ بَعْدَ رَفْعِ الرَّأْسِ مِنَ الرُّكُوعِ فِي الرَّكْعَةِ الْأَخِيرَةِ مِنْ صَلَاةِ الْفَرِيضَةِ.
لہٰذا امام فرض نماز کی آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد قیام کی حالت میں دعا مانگے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری (رکعت کے) رُکوع سے سر اُٹھایا تو یہ دعا مانگی: «اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، وَالْمُسْتَضْعَفِينَ بِمَكَّةَ» ”اے اللہ ابولید بن الولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکّہ مکرمہ (میں موجود) بے بس و کمزوروں کو نجات عطا فرما۔“ جناب احمد نے اپنی روایت میں یہ اضافہ بیان کیا ہے، «اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ» ”مسلمانوں میں سے (کمزور مضر کے لوگوں پر اپنا سخت عذاب نازل فرما اور ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام (کے عہد) کی قحط سالی کی طرح قحط سالی مسلط کر دے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ پورا باب کتاب الکبیر کی کتاب الصلاۃ میں بیان کیا ہے۔
سیدنا ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور صبح کی نماز میں قنوت کیا کرتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عشاء کی نماز پڑھتے تو رُکوع سے سر اُٹھاتے اور «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے، پھر قُنوت کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا مانگتے «اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ أَھْلِ مَكَّةَ، اللَّهُمَّ أشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ» ”اے اللہ، عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات نصیب فرما۔ اے اللہ، سلمہ بن ہشام کو آزادی نصیب فرما، اے اللہ، ولید بن الولید کو رہائی عطا فرما، اے اللہ، اہل مکہ میں سے کمزور مومنوں کو نجات عطا فرما۔ اے اللہ، مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اے اللہ، ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانے کی قحط سالی جیسی قحط سالی مسلط کر دے۔“
400. تمام نمازوں میں قنوت کرنے اور قنوت میں دعا پڑھتے وقت امام کے ساتھ مقتدیوں کے آمین کہنے کا بیان قنوت وتر میں امام کی دعا کے ساتھ مقتدیوں کا دعا پڑھ کر شوروغل مچانا درست نہیں ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ماہ تک مسلسل ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح میں ہر نماز کے بعد، آخری رکعت میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے تو قنوت کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی سلیم کے ایک قبیلے رعل، ذکوان اور عصیہ پر بد دعا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مقتدی صحابہ آمین کہتے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف اسلام کی دعوت دینے کے لئے (کچھ قراء کرام) بھیجے تھے تو اُنہوں نے انہیں قتل کر دیا۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث دعائے قنوت (کی مشروعیت کی) کنجی ہے۔