صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
حدیث نمبر: 423
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث. ح وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابي الزبير ، عن جابر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " عرض علي الانبياء، فإذا موسى ضرب من الرجال، كانه من رجال شنوءة، ورايت عيسى ابن مريم عليه السلام، فإذا اقرب من، رايت به شبها عروة بن مسعود، ورايت إبراهيم صلوات الله عليه، فإذا اقرب من، رايت به شبها صاحبكم يعني نفسه، ورايت جبريل عليه السلام، فإذا اقرب من، رايت به شبها دحية "، وفي رواية ابن رمح: دحية بن خليفة.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُرِضَ عَلَيَّ الأَنْبِيَاءُ، فَإِذَا مُوسَى ضَرْبٌ مِنَ الرِّجَالِ، كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ، رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ، رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا صَاحِبُكُمْ يَعْنِي نَفْسَهُ، وَرَأَيْتُ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ، رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا دَحْيَةُ "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ رُمْحٍ: دَحْيَةُ بْنُ خَلِيفَةَ.
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے لیث سے انہوں نے ابو زبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیائے کرام میرے سامنے لائے گئے۔ موسیٰ رضی اللہ عنہ پھر پتلے بدن کے آدمی تھے، جیسے قبیلہ شنوءہ کے مردوں میں سے ایک ہوں اور میں نے عیسیٰ ابن مریم رضی اللہ عنہ کو دیکھا، مجھے ان کے ساتھ سب سے قریبی مشابہت عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ میں نظر آتی ہے، میں نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دیکھا، مجھے ان کے ساتھ سب سے قریبی مشابہت تمہارے صاحب (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نظرآئی، یعنی خود آپ۔ اور میں نے جبریل رضی اللہ عنہ کو (انسانی شکل میں) دیکھا، میں نے ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت دحیہ رضی اللہ عنہ میں دیکھی۔ ابن رمح کی روایت میں دحیہ بن خلیفہ ہے۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر انبیاءؑ پیش کیے گئے۔ میں نے موسیٰؑ کو دیکھا، وہ ہلکے بدن کے آدمی تھے، گویا کہ وہ قبیلہ شنوءہ کے لوگوں سے ہیں۔ اور میں نےعیسیٰ بن مریم ؑ کو دیکھا، میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعودؓ کو دیکھتا ہوں۔ اور میں نے ابراہیم ؑ کو دیکھا، تو میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمھارے ساتھی (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں) کو دیکھتا ہوں۔ یعنی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مراد ہیں۔ اور میں نے جبریلؑ کو دیکھا، میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ دحیہؓ کو دیکھتا ہوں۔ ابنِ رمحؒ کی روایت میں ہے دحیہ بن خلیفہؓ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في المناقب، باب: في صفة النبي صلی اللہ علیہ وسلم برقم (3649) وقال: حديث حسن صحيح غريب انظر ((التحفة)) برقم (2920)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 424
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن رافع ، وعبد بن حميد وتقاربا في اللفظ، قال ابن رافع: حدثنا وقال عبد، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، قال: اخبرني سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " حين اسري بي، لقيت موسى عليه السلام، فنعته النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا رجل حسبته، قال: مضطرب رجل الراس، كانه من رجال شنوءة، قال: ولقيت عيسى، فنعته النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا ربعة احمر، كانما خرج من ديماس يعني حماما، قال: ورايت إبراهيم صلوات الله عليه، وانا اشبه ولده به، قال: فاتيت بإناءين في احدهما لبن، وفي الآخر خمر، فقيل لي: خذ ايهما شئت، فاخذت اللبن فشربته، فقال: هديت الفطرة او اصبت الفطرة، اما إنك لو اخذت الخمر غوت امتك ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد وتقاربا في اللفظ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا وَقَالَ عَبد، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حِينَ أُسْرِيَ بِي، لَقِيتُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَنَعَتَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُهُ، قَالَ: مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ، كَأَنَّهُ مِنَ رِجَالِ شَنُوءَةَ، قَالَ: وَلَقِيتُ عِيسَى، فَنَعَتَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا رَبْعَةٌ أَحْمَرُ، كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ يَعْنِي حَمَّامًا، قَالَ: وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ، وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ، قَالَ: فَأُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ، وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ، فَقِيلَ لِي: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقَالَ: هُدِيتَ الْفِطْرَةَ أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ، أَمَّا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مجھے اسراء کروایا گیا تو میں موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ملا (آپ نےان کا حلیہ بیان کیا: میرا خیال ہے آپ نے فرمایا:) وہ ایک مضطرب (کچھ لمبے اور پھر پتلے) مرد ہیں، لٹکتے بالوں والے، جیسے وہ قبیلہ شنوءہ کے مردوں میں سے ہوں (اور آپ نے فرمایا:) میری ملاقات عیسیٰ رضی اللہ عنہ سے ہوئی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حلیہ بیان فرمایا:) وہ میانہ قامت، سرخ رنگ کے تھے گویا ابھی دیماس (یعنی حمام) سے نکلے ہیں۔ اور فرمایا: میں ابراہیم رضی اللہ عنہ سے ملا، ان کی اولاد میں سے میں ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہوں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی، مجھ سے کہا گیا: ان میں سے جو چاہیں لے لیں۔ میں نے دودھ لیا اور اسے پی لیا، (جبریل رضی اللہ عنہ نے) کہا کہ آپ کو فطرت کی راہ پر چلایا گیا ہے (یا آپ نے فطرت کو پا لیا ہے) اگر آپ شراب پی لیتے تو آپ کی امت راستے سے ہٹ جاتی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس وقت مجھے اسراء کروایا گیا، میں موسیٰؑ سے ملا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کیفیت بیان کی۔ میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایک مرد ہیں، کم گوشت، بالوں میں کنگھی کی ہوئی، گویا کہ وہ شنوءہ کے لوگوں میں سے ہیں۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری ملاقات عیسیٰؑ سے ہوئی اور آپ نے ان کا حلیہ بیان فرمایا: کہ وہ درمیانہ قد، سرخ رنگ تھے، گویا ابھی حمام سے نکلے ہیں (یعنی: بالکل تروتازہ تھے) ہشاش بشاش تھے۔ اور فرمایا: میں ابراہیم ؑ کو ملا اور میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں دودھ اور دوسرے میں شراب تھی۔ مجھے کہا گیا: ان میں سے جو چاہو لے لو، تو میں نے دودھ لے کر اسے پی لیا۔ فرشتہ نے کہا: تمھاری رہنمائی فطرت کی طرف کی گئی یا تم فطرت تک پہنچ گئے ہو۔ اگر آپ شراب کو لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) فى احاديث الانبياء، باب: قول الله تعالى: ﴿ وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ ﴾، ﴿ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ﴾ برقم (3394) وفي باب قول الله: ﴿ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا ﴾ برقم (3437) وفي الاشربة، باب: قول الله تعالى: ﴿ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ مختصراً برقم (5576) والترمذى في ((جامعه)) في التفسير، باب: ومن سورة بنى اسرائيل برقم (3130) وقال: حديث حسن صحيح انظر ((التحفة)) برقم (13270)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
75. باب فِي ذِكْرِ الْمَسِيحِ ابْنِ مَرْيَمَ وَالْمَسِيحِ الدَّجَّالِ:
75. باب: مسیح ابن مریم اور مسیح دجال کا بیان۔
Chapter: Mentioning Al-Masih Son of Mariam and Al-Masih ad-Dajjal
حدیث نمبر: 425
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اراني ليلة عند الكعبة، فرايت رجلا آدم كاحسن ما انت راء من ادم الرجال، له لمة كاحسن ما انت راء من اللمم، قد رجلها، فهي تقطر ماء متكئا على رجلين، او على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسالت من هذا؟ فقيل: هذا المسيح ابن مريم، ثم إذا انا برجل جعد، قطط اعور العين اليمنى، كانها عنبة طافية، فسالت: من هذا؟ فقيل: هذا المسيح الدجال ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَرَانِي لَيْلَةً عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ، لَهُ لِمَّةٌ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ، قَدْ رَجَّلَهَا، فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً مُتَّكِئًا عَلَى رَجُلَيْنِ، أَوْ عَلَى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَسَأَلْتُ مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، ثُمَّ إِذَا أَنَا بِرَجُلٍ جَعْدٍ، قَطَطٍ أَعْوَرِ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ ".
مالک (بن انس) نے نافع سے اور ا نہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک رات اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا تو میں نے ایک گندم گوں شخص دیکھا، گندم گوں لوگوں میں سے سب سے خوبصورت تھا جنہیں تم دیکھتے ہو، ان کی لمبی لمبی لٹیں تھیں جو ان لٹوں میں سے سب سے خوبصورت تھیں جنہیں تم دیکھتے ہو، ان کو کنگھی کی ہوئی تھی اور ان میں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، دوآدمیوں کا (یا دو آدمیوں کے کندھوں کا) سہارا لیا ہوا تھا۔ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ مسیح ابن مریم رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھراچانک میں نے ایک آدمی دیکھا، الجھے ہوئے گھنگریالے بالوں والا، دائیں آنکھ کانی تھی، جیسے انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہو، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو کہاگیا: یہ مسیح دجال (جھوٹا یا مصنوعی مسیح) ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک رات اپنے آپ کو (خواب میں) کعبہ کے پاس دیکھا، تو میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا، جو گندمی رنگ مرد تو نے دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوب صورت گندمی رنگ کا تھا۔ اس کے کنگھی کیے ہوئے کانوں کی لو سے نیچے تک آنے والے بہت خوبصورت بال تھے، جیسے تو نے کانوں کی لو سے نیچے آنے والے سب سے زیادہ خوبصورت بال دیکھے ہوں۔ ان بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ دو آدمیوں پر یا دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لے کر بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ جواب دیا گیا: یہ مسیح بن مریمؑ ہیں۔ پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے۔ دائیں آنکھ کانی تھی، گویا کہ وہ ابھرا ہوا انگور ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو کہا گیا یہ مسیح دجال ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه)) في اللباس، باب: الجعد برقم (5902) وفي التعبير، باب: رويا الليل برقم (6999) انظر ((التحفة)) برقم (8373)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 426
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن إسحاق المسيبي ، حدثنا انس يعني ابن عياض ، عن موسى وهو ابن عقبة ، عن نافع ، قال: قال عبد الله بن عمر ، ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بين ظهراني الناس المسيح الدجال، فقال: إن الله تبارك وتعالى ليس باعور، الا إن المسيح الدجال اعور عين اليمنى، كان عينه عنبة طافية، قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اراني الليلة في المنام عند الكعبة، فإذا رجل آدم كاحسن ما ترى من ادم الرجال، تضرب لمته بين منكبيه، رجل الشعر يقطر راسه ماء، واضعا يديه على منكبي رجلين، وهو بينهما يطوف بالبيت، فقلت: من هذا؟ فقالوا: المسيح ابن مريم، ورايت وراءه رجلا جعدا قططا، اعور عين اليمنى، كاشبه من رايت من الناس بابن قطن، واضعا يديه على منكبي رجلين يطوف بالبيت، فقلت: من هذا؟ قالوا: هذا المسيح الدجال ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ ، عَنْ مُوسَى وَهُوَ ابْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَيْنَ ظَهْرَانَيِ النَّاسِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلَا إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَانِي اللَّيْلَةَ فِي الْمَنَامِ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَا تَرَى مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ، تَضْرِبُ لِمَّتُهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ، رَجِلُ الشَّعْرِ يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ، وَهُوَ بَيْنَهُمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَيْتُ وَرَاءَهُ رَجُلًا جَعْدًا قَطَطًا، أَعْوَرَ عَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَشْبَهِ مَنْ رَأَيْتُ مِنَ النَّاسِ بِابْنِ قَطَنٍ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَيْ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ ".
موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے مسیح دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا: ا للہ تبارک وتعالیٰ کانا نہیں ہے، خبردار رہنا! مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہے جیسے انگور کا بے نور دانہ ہو۔ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے رات اپنے آپ کو نیند کے عالم میں کعبہ کے پاس دیکھا تو میں ایک گندم گوں شخص دیکھا، گندم گوں لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھا جنہیں تم دیکھتے ہو۔ اس کے سر کی لٹیں کندھوں کے درمیان تک لٹک رہی ہیں، بال کنگھی کیے ہوئے، سر سے پانی لٹک رہا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے اور ان دونوں کے درمیان بیت اللہ شریف کاطواف کر رہا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو انہوں (جواب دینے والوں) نے کہا: یہ مسیح ابن مریم رضی اللہ عنہ ہیں۔ میں نے ان کے پیچھے ایک آدمی دیکھا، اس کے بال الجھے ہوئے گھنگریالے تھے، دائیں آنکھ سے کانا، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں وہ سب سے زیادہ (عبد العزیٰ) ابن قطن کے مشابہ تھا، وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ جعلی مسیح ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کے سامنے مسیح دجال کا تذکرہ کیا اور فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ کانا نہیں ہے۔ خبردار رہنا! مسیح دجال کی دائیں آنکھ کانی ہے، گویا کہ وہ پھولا ہوا انگور ہے۔ ابنِ عمر ؓ نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے آج رات اپنے آپ کو خواب میں کعبہ کے پاس دیکھا، تو اچانک میری نظر ایک آدمی پر پڑی جو گندمی رنگ، انتہائی خوبصورت گندمی رنگ مرد جو کبھی تم نے دیکھا ہے، اس کے سر کے بال کندھوں کے درمیان لٹکے ہوئے تھے، ان میں کنگھی کی ہوئی تھی (وہ بال کنگھی کیے ہوئے تھے)، وہ ان کے درمیان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا، تو میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو انھوں (فرشتوں) نے جواب دیا: مسیح ابنِ مریمؑ ہے، اور میں نے اس کے پیچھے ایک آدمی دیکھا جس کے بال انتہائی گھنگریالے تھے، دائیں آنکھ کانی تھی۔ جن لوگوں کو میں نے دیکھا ان میں سے سب سے زیادہ ابنِ قطن کے مشابہ تھا۔ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے وہ بیت اللہ کا طواف کررہا تھا، تو میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ انھوں نے کہا یہ مسیح دجال (بہت جھوٹا) ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في احاديث الانبياء، باب: قول الله ﴿ وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا ﴾ برقم (3439 و 3440) ومسلم في ((صحيحه)) في الفتن، باب: ذكر الدجال وصفته وما معه برقم (7289) انظر ((التحفة)) برقم ((8464)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 427
Save to word اعراب
حدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا حنظلة ، عن سالم ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " رايت عند الكعبة، رجلا آدم سبط الراس، واضعا يديه على رجلين، يسكب راسه او يقطر راسه، فسالت: من هذا؟ فقالوا: عيسى ابن مريم او المسيح ابن مريم، لا ندري اي ذلك، قال: ورايت وراءه رجلا احمر، جعد الراس، اعور العين اليمنى، اشبه من رايت به ابن قطن، فسالت: من هذا؟ فقالوا: المسيح الدجال ".حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا حَنْظَلَةُ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رَأَيْتُ عِنْدَ الْكَعْبَةِ، رَجُلًا آدَمَ سَبِطَ الرَّأْسِ، وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى رَجُلَيْنِ، يَسْكُبُ رَأْسُهُ أَوْ يَقْطُرُ رَأْسُهُ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ أَوْ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، لَا نَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَ: وَرَأَيْتُ وَرَاءَهُ رَجُلًا أَحْمَرَ، جَعْدَ الرَّأْسِ، أَعْوَرَ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، أَشْبَهُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ ابْنُ قَطَنٍ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ ".
حنظلہ نے سالم کے واسطے سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے کعبہ کے پاس ایک گندم گوں، سر کے سیدھے کھلے بالوں والے آدمی کو دیکھا جو اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں پر رکھے ہوئے تھا، اس کے سر سے پانی بہہ رہا تھا (یا اس کے سر سے پانی کے قطرے گر رہے تھے) میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو انہوں (جواب دینے والوں) نے کہا: عیسیٰ ابن مریم یا مسیح ابن مریم (راوی کو یاد نہ تھا کہ (دونوں میں سے) کو ن سالفظ کہا تھا) او ران کے پیچھے میں نے ایک آدمی دیکھا: سرخ رنگ کا، سر کےبال گھنگریالے اور دائیں آنکھ سے کانا، میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے، ان میں سب سے زیادہ ابن قطن اس کے مشابہ ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: مسیح دجال ہے۔
ابنِ عمر ؓ کہتے ہیں آپ نے فرمایا: میں نے ایک رات اپنے آپ کو کعبہ کے پاس خواب میں دیکھا، ایک شخص گندمی رنگ، انتہائی خوبصورت گندمی رنگ کا مرد جو کبھی تم نے دیکھا ہے۔ اس کےسر کے بال کندھوں کے درمیان تک لٹکے ہوئے تھے، اور ان میں کنگھی کی ہوئی تھی، سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے تھا، اور وہ دونوں کے درمیان بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: مسیح بن مریمؑ ہیں۔ اور اس کے پیچھے میں نے ایک آدمی دیکھا، جس کے بال سخت گھنگریالے تھے، دائیں آنکھ کانی تھی، جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ابنِ قطن ان کے مشابہ تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ مسیح دجال ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (6755)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 428
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن عقيل ، عن الزهري ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن جابر بن عبد الله ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لما كذبتني قريش قمت في الحجر، فجلا الله لي بيت المقدس، فطفقت اخبرهم عن آياته وانا انظر إليه ".حَدَّثَنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ، فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ ".
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قریش نے مجھے جھٹلایا، میں نے حجر (حطیم) میں کھڑا ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے اچھی طرح نمایاں کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر اس کی نشانیاں ان کو بتانی شروع کر دیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قریش نے مجھے جھٹلایا، میں حِجر (حطیم) میں کھڑا ہوا، اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میرے سامنے کر دیا اور میں اسے دیکھ کر انھیں اس کی نشانیاں بتلانے لگا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام برقم (4710) وفى المناقب، باب: حديث الاسراء، وقول الله تعالى: ﴿ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى ﴾ برقم (3886) والترمذى في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة بنى اسرائيل وقال: هذا حديث حسن صحیح برقم (3133) انظر ((التحفة)) برقم (3151)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 429
Save to word اعراب
حدثني حرملة بن يحيى ، حدثنا ابن وهب ، قال: اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله بن عمر بن الخطاب ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " بينما انا نائم، رايتني اطوف بالكعبة، فإذا رجل آدم سبط الشعر بين رجلين، ينطف راسه ماء، او يهراق راسه ماء، قلت من هذا؟ قالوا: هذا ابن مريم، ثم ذهبت التفت، فإذا رجل احمر، جسيم جعد الراس، اعور العين، كان عينه عنبة طافية، قلت: من هذا؟ قالوا: الدجال اقرب الناس به شبها ابن قطن ".حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ، رَأَيْتُنِي أَطُوفُ بِالْكَعْبَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبِطُ الشَّعْرِ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً، أَوْ يُهَرَاقُ رَأْسُهُ مَاءً، قُلْتُ مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا ابْنُ مَرْيَمَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ أَلْتَفِتُ، فَإِذَا رَجُلٌ أَحْمَرُ، جَسِيمٌ جَعْدُ الرَّأْسِ، أَعْوَرُ الْعَيْنِ، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: الدَّجَّالُ أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا ابْنُ قَطَنٍ ".
ابن شہاب نےسالم بن عبد اللہ بن عمر سے، انہوں نے اپنے والد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا: میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب میں نیند میں تھا، میں نے اپنے آپ کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور دیکھا کہ ایک آدمی ہے جس کا رنگ گندمی ہے، بال سیدھے ہیں، اور دو آدمیٔن کے درمیان ہے، اس کا سر پانی ٹپکا رہا ہے (یا اس کا سر پانی گرا رہا ہے) میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ (جواب دینے والوں نے) کہا: یہ ابن مریم ہیں۔ پہر میں دیکھتا گیا تو اچانک ایک سرخ رنگ کا آدمی (سامنے) تھا، جسم کا بھاری، سر کے بال گھنگریالے، آنکھ کانی، جیسے ابھرا ہوا انگور کا دانہ ہو، میں نے پوچھا: یہ کو ن ہے؟ انہوں نے کہا: دجال ہے، لوگوں میں اس کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ابن قطن ہے۔
سالم بن عبداللہ بن عمرؒ اپنے باپ عبد اللہ بن عمرؓ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں سو رہا تھا کہ اس اثنا میں، میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں۔ اچانک میری ایک آدمی پر نظر پڑی، جس کے بال سیدھے، رنگ گندمی ہے، دو آدمیوں کے درمیان ہے، اس کے سر سے پانی بہہ رہا ہے یا اس کے سر سے پانی گر رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ ابنِ مریمؑ ہے۔ پھر میں دیکھنے لگا، تو میری نظر ایک سرخ آدمی پر پڑی جس کا جسم بھاری تھا، سر کے بال گھنگریالے تھے، آنکھ کانی تھی، گویا کہ اس کی آنکھ ابھرا ہوا انگور تھی۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: دجال ہے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ اس کے مشابہ ابنِ قطن ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (7007)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 430
Save to word اعراب
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا حجين بن المثنى ، حدثنا عبد العزيز وهو ابن ابي سلمة ، عن عبد الله بن الفضل ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقد رايتني في الحجر، وقريش تسالني عن مسراي، فسالتني عن اشياء من بيت المقدس لم اثبتها، فكربت كربة ما كربت مثله قط، قال: فرفعه الله لي انظر إليه ما يسالوني عن شيء، إلا انباتهم به، وقد رايتني في جماعة من الانبياء، فإذا موسى قائم يصلي، فإذا رجل ضرب جعد، كانه من رجال شنوءة، وإذا عيسى ابن مريم عليه السلام، قائم يصلي اقرب الناس به شبها عروة بن مسعود الثقفي "، وإذا إبراهيم عليه السلام، قائم يصلي اشبه الناس به صاحبكم يعني نفسه، فحانت الصلاة فاممتهم، فلما فرغت من الصلاة، قال قائل: يا محمد هذا مالك صاحب النار فسلم عليه، فالتفت إليه، فبداني بالسلام.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَكُرِبْتُ كُرْبَةً مَا كُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ، قَالَ: فَرَفَعَهُ اللَّهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ مَا يَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ، إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ، وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوسَى قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ، كَأَنَّهُ مِنَ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَإِذَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، قَائِمٌ يُصَلِّي أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ الثَّقَفِيُّ "، وَإِذَا إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام، قَائِمٌ يُصَلِّي أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُكُمْ يَعْنِي نَفْسَهُ، فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنً الصَّلَاةِ، قَالَ قَائِلٌ: يَا مُحَمَّدُ هَذَا مَالِكٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ، فَبَدَأَنِي بِالسَّلَامِ.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے آپ کو حجر (حطیم) میں دیکھا، قریش مجھ سے میرے رات کے سفر کے بارے میں سوال کر رہے تھے، انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کےبارے میں پوچھا جو میں نے غور سے نہ دیکھی تھیں، میں اس قدر پریشانی میں مبتلا ہواکہ کبھی اتنا پریشان نہ ہوا تھا، آپ نے فرمایا: اس پر اللہ تعالیٰ نے اس (بیت المقدس) اٹھا کر میرے سامنے کر دیا میں اس کی طرف دیکھ رہاتھا، وہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھتے، میں انہیں بتا دیتا۔ اور میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ رضی اللہ عنہ تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں۔ اور عیسیٰ ابن مریم (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور (وہاں) ابراہیم رضی اللہ عنہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں، آپ نے اپنی ذلت مراد لی، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی۔ جب میں نماز سے فارغ ہو ا تو ایک کہنے والے نے کہا: اے محمد! یہ مالک ہیں، جہنم کے داروغے، انہیں سلام کہیے: میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہل کر کے مجھےسلام کیا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واقعی میں نے اپنے آپ کو حِجر میں دیکھا۔ قریش مجھ سے میرے اسراء کے بارے میں سوال کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھا جو مجھے محفوظ نہ تھیں، تو میں اس قدر پریشان ہوا کہ کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا۔ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں پوچھتے، میں انھیں اس کے بارے میں بتا دیتا اور میں نے اپنے آپ کو انبیاءؑ کی ایک جماعت میں دیکھا۔ میں نے موسیٰؑ کو اس حال میں دیکھا کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ ایک آدمی تھے۔ ہلکے پھلکے، گٹھا ہوا بدن، جیسا کہ وہ شنوءہ (قبیلہ) کے مردوں میں سے ہیں۔ اور اچانک عیسیٰ بن مریم ؑ کو دیکھا کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفیؓ ہیں۔ اور ابراہیمؑ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمھارے ساتھی ہیں (یعنی آپؐ)۔ نماز کا وقت ہو گیا، تو میں نے ان کی امامت کی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نےکہا: اے محمدؐ! یہ مالک آگ کا داروغہ ہے، اسے سلام کہیے۔ میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے مجھے پہلے سلام کہہ دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14965)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
76. باب فِي ذِكْرِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى:
76. باب: سدرۃ المنتہیٰ کا بیان۔
Chapter: About (The Lote-Tree of the Utmost Boundary)
حدیث نمبر: 431
Save to word اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا مالك بن مغول . ح وحدثنا ابن نمير ، وزهير بن حرب جميعا، عن عبد الله بن نمير ، والفاظهم متقاربة، قال ابن نمير : حدثنا ابي ، حدثنا مالك بن مغول ، عن الزبير بن عدي ، عن طلحة ، عن مرة ، عن عبد الله ، قال: " لما اسري برسول الله صلى الله عليه وسلم، انتهي به إلى سدرة المنتهى، وهي في السماء السادسة إليها، ينتهي ما يعرج به من الارض، فيقبض منها وإليها ينتهي ما يهبط به من فوقها، فيقبض منها، قال: إذ يغشى السدرة ما يغشى سورة النجم آية 16، قال فراش من ذهب؟ قال: فاعطي رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا، اعطي الصلوات الخمس، واعطي خواتيم سورة البقرة، وغفر لمن لم يشرك بالله من امته شيئا المقحمات ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَال ابْنُ نُمَيْرٍ : حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ ، عَنْ طَلْحَةَ ، عَنْ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، انْتُهِيَ بِهِ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَهِيَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ إِلَيْهَا، يَنْتَهِي مَا يُعْرَجُ بِهِ مِنَ الأَرْضِ، فَيُقْبَضُ مِنْهَا وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُهْبَطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا، فَيُقْبَضُ مِنْهَا، قَالَ: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، قَالَ فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ؟ قَالَ: فَأُعْطِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا، أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ ".
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سےروایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء کروایا گیا تو آپ کوسدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، وہ چھٹے آسمان پر ہے، (جبکہ اس کی شاخیں ساتویں آسمان کے اوپر ہیں) وہ سب چیزیں جنہیں زمین سے اوپر لے جایا جاتا ہے، اس تک پہنچتی ہیں اوروہاں سے انہیں لے لیا جاتا ہے اور وہ چیزیں جنہیں اوپر سے نیچے لایا جاتا ہے، وہاں پہنچتی ہیں اور وہیں سے انہیں وصول کر لیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب ڈھانپ لیا، سدرہ (بیری کے درخت) کو جس چیز نے ڈھانپا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سونے کےپتنگوں نے۔ اور کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں عطا کی گئیں: پانچ نمازیں عطا کی گئیں، سورۃ بقرہ کی آخری آیات عطا کی گئیں اور آپ کی امت کے (ایسے) لوگوں کے (جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا) جہنم میں پہنچانے والے (بڑے بڑے) گناہ معاف کر دیے گئے۔
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسراء کروایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا، وہ چھٹے آسمان پر ہے، اس کے پاس جا کر وہ چیزیں جنھیں زمین سے اوپر لے جایا جاتا ہے، رک جاتی ہیں اور وہاں سے انھیں لے لیا جاتا ہے۔ اور اس کے پاس آ کر رک جاتی ہیں وہ چیزیں جنھیں اس کے اوپر سے نیچے لایا جاتا ہے، اور وہاں سے انھیں وصول کر لیا جاتا ہے۔ (اس کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب ڈھانپ لیا، سدرہ کو جس نے ڈھانپ لیا۔ عبداللہ ؓ نے کہا: سونے کے پروانے تھے اور کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چیزیں عطا کی گئیں: پانچ نمازیں، سورۂ بقرہ کی آخری آیات اور آپ کی امت کے ان تمام لوگوں کے بڑے بڑے گناہ معاف کر دیے گئے جنھوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة النجم، وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3276) والنسائي في ((المجتبي)) 226/1 في الصلاة، باب: فرض الصلاة وذكر اختلاف الناقلين في اسناد حديث انس بن مالك رضي الله عنه...... انظر ((التحفة)) برقم (9548)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
77. باب مَعْنَى قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى} وَهَلْ رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ لَيْلَةَ الإِسْرَاءِ:
77. باب: اس باب میں یہ بیان ہے کہ «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» سے کیا مراد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ جل جلالہ کو معراج کی رات میں دیکھا تھا یا نہیں۔
Chapter: The Meaning of the Saying of Allah, The Mighty and Sublime: And indeed he saw him at a second descent (another time)"; And did the prophet (saws) see his lord on the night of the Isra?
حدیث نمبر: 432
Save to word اعراب
وحدثني ابو الربيع الزهراني ، حدثنا عباد وهو ابن العوام ، حدثنا الشيباني ، قال: سالت زر بن حبيش ، عن قول الله عز وجل: فكان قاب قوسين او ادنى سورة النجم آية 9، قال: اخبرني ابن مسعود ، ان النبي صلى الله عليه وسلم " راى جبريل له ست مائة جناح ".وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ وَهُوَ ابْنُ الْعَوَّامِ ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ ، قَالَ: سَأَلْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ ، عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى سورة النجم آية 9، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ مَسْعُودٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَأَى جِبْرِيلَ لَهُ سِتُّ مِائَةِ جَنَاحٍ ".
عباد بن عوام نے کہا: ہمیں شیبانی نے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے زربن حبیش سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں سوال کیا: وہ دو کمان کے برابر فاصلے پر تھے یا اس سے بھی زیادہ قریب تھے۔ زر نے کہا: مجھے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےخبر دی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےجبریل رضی اللہ عنہ کو دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے۔
شیبانیؒ کہتے ہیں: میں نے زر بن حبیشؒ سے اللہ عز و جل کے قول: ﴿فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ﴾ وہ دو کمانوں کے فاصلے پر ہو آیا، بلکہ اس کے قریب تر۔ اس نے جواب دیا، مجھے ابنِ مسعودؓ نے بتایا: بلا شبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریلؑ کو دیکھا اس کے چھ سو پر تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴾ برقم (4856) وفي، باب: ﴿ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴾ برقم (4857) وفى بدء الخلق، باب: اذا قال احدكم آمين والملائكة فى السماء فوافقت احداهما الاخرى غفر له ما تقدم من ذنبه برقم (3232) والترمذي في ((جـامـعـه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة النجم وقال: هذا حديث حسن غریب صحيح - برقم (3277) انظر ((التحفة)) برقم (9205)»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

Previous    30    31    32    33    34    35    36    37    38    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.