حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اراني ليلة عند الكعبة، فرايت رجلا آدم كاحسن ما انت راء من ادم الرجال، له لمة كاحسن ما انت راء من اللمم، قد رجلها، فهي تقطر ماء متكئا على رجلين، او على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسالت من هذا؟ فقيل: هذا المسيح ابن مريم، ثم إذا انا برجل جعد، قطط اعور العين اليمنى، كانها عنبة طافية، فسالت: من هذا؟ فقيل: هذا المسيح الدجال ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَرَانِي لَيْلَةً عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ، لَهُ لِمَّةٌ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ، قَدْ رَجَّلَهَا، فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً مُتَّكِئًا عَلَى رَجُلَيْنِ، أَوْ عَلَى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَسَأَلْتُ مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، ثُمَّ إِذَا أَنَا بِرَجُلٍ جَعْدٍ، قَطَطٍ أَعْوَرِ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ ".
مالک (بن انس) نے نافع سے اور ا نہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں نے ایک رات اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا تو میں نے ایک گندم گوں شخص دیکھا، گندم گوں لوگوں میں سے سب سے خوبصورت تھا جنہیں تم دیکھتے ہو، ان کی لمبی لمبی لٹیں تھیں جو ان لٹوں میں سے سب سے خوبصورت تھیں جنہیں تم دیکھتے ہو، ان کو کنگھی کی ہوئی تھی اور ان میں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، دوآدمیوں کا (یا دو آدمیوں کے کندھوں کا) سہارا لیا ہوا تھا۔ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ مسیح ابن مریم رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھراچانک میں نے ایک آدمی دیکھا، الجھے ہوئے گھنگریالے بالوں والا، دائیں آنکھ کانی تھی، جیسے انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہو، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو کہاگیا: یہ مسیح دجال (جھوٹا یا مصنوعی مسیح) ہے۔“
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ایک رات اپنے آپ کو (خواب میں) کعبہ کے پاس دیکھا، تو میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا، جو گندمی رنگ مرد تو نے دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوب صورت گندمی رنگ کا تھا۔ اس کے کنگھی کیے ہوئے کانوں کی لو سے نیچے تک آنے والے بہت خوبصورت بال تھے، جیسے تو نے کانوں کی لو سے نیچے آنے والے سب سے زیادہ خوبصورت بال دیکھے ہوں۔ ان بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ دو آدمیوں پر یا دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لے کر بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ جواب دیا گیا: یہ مسیح بن مریمؑ ہیں۔ پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے۔ دائیں آنکھ کانی تھی، گویا کہ وہ ابھرا ہوا انگور ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو کہا گیا یہ مسیح دجال ہے۔“
ترقیم فوادعبدالباقی: 169
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه)) في اللباس، باب: الجعد برقم (5902) وفي التعبير، باب: رويا الليل برقم (6999) انظر ((التحفة)) برقم (8373)»
أراني الليلة عند الكعبة فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم قد رجلها فهي تقطر ماء متكئا على رجلين أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا فقيل المسيح ابن مريم وإذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى كأنها عنب
أراني ليلة عند الكعبة فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم قد رجلها فهي تقطر ماء متكئا على رجلين أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا فقيل هذا المسيح ابن مريم ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى كأنها
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 425
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) كَعْبَة: مربع (چوکور) گھر کو کہتے ہیں۔ یا گول اور بلند چیز کو کہتے ہیں۔ (2) لِمَّةٌ: جمع لِمَم، وہ بال جو کانوں کی لو سے نیچے تک لٹکتے ہوں۔ (3) قَدْ رَجَّلَهَا: ان میں کنگھی کی ہوئی تھی۔ (4) تَقْطُرُ مَاءً: ان سے حقیقتاً پانی ٹپک رہا تھا، یا تروتازگی میں ایسے تھے جو ان بالوں میں ہوتی ہے، جو پانی سے تر ہوتے ہیں۔ (5) عَوَاتِقٌ: عَاتِقٌ کی جمع ہے، شانہ، کندھا۔ (6) جَعْدٌ: گھنگھریالے، خمیدہ۔ (7) قَطَطٌ: بہت زیادہ گھنگھریالے بال۔ (رَجُل قَطّ وَ قَطَط) ۔ (8) عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ: ابھرا یا پھولا ہوا انگور، جو دوسرے انگوروں سے ابھرا ہوا ہو۔ فوائد ومسائل: (1) حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کو اس لیے مسیح کہتے ہیں، کہ جب وہ کسی بیمارپر ہاتھ پھیرتے تھے تو وہ تندرست ہو جاتا تھا، اور دجال کو مسیح اس لیے کہتے ہیں، کہ اس کی آنکھیں ممسوحۃ (مٹی) ہوئی ہیں، یا اس لیے کہ وہ کانا ہے۔ یا اس لیے کہ خیر سے وہ محروم ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو مختلف انبیاءؑ کو زندگی کے مختلف مراحل میں، مختلف کام کرتے دکھایا ہے، اسی طرح مختلف مقامات پر دکھایا ہے، اور آج کے سائنسی دور میں اس کو سمجھنا بالکل آسان ہوگیا ہے۔ ایک انسان ایک جگہ تقریر کر رہا ہوتا ہے، یا ایک ملک میں کوئی خاص غمی یا خوشی کی تقریب منعقد ہوتی ہے تو وہ تمام دنیا میں دکھائی دیتی ہے، اور ہر جگہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ تقریر یا تقریب یہیں ہو رہی ہے۔ اگر ایک انسان جس کی اس پوری کائنات میں ایک ذرے کی حیثیت ہے، اس کی عقل یہ کام کر رہی تو پوری کائنات کے خالق ومالک کی قدرت اور علم جس کا کوئی کنارہ اور حد نہیں ہے، وہ اگر انبیاءؑ کو زندگی کے مختلف کام کرتے، زندگی کے مختلف مراحل میں جہاں چاہے دکھا دے، تو اس میں کیا استبعاد ہو سکتا ہے؟ چونکہ انبیاءؑ زندگی کے مختلف مراحل میں، مختلف کام کرتے دکھائے گئے ہیں، اس لیے بعض دفعہ، ایک دفعہ دیکھنے کے بعد دوبارہ دیکھتے وقت آپ کو پہچان نہیں آسکی، اور بعض جگہ حلیہ بیا ن کرنے میں بھی اختلاف ہو گیا ہے، تو یہ درحقیقت اختلاف نہیں ہے۔ زندگی کے مختلف مراحل یا عمر کے اختلاف سے شکل وصورت میں فرق پڑجاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 425
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 26
´عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا بیان` «. . . 253- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”أراني الليلة عند الكعبة، فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال، له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم، قد رجلها فهي تقطر ماء، متكئا على رجلين، أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسألت: من هذا؟، فقيل لي: المسيح ابن مريم، ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى، كأنها عنبة طافية، فسألت: من هذا؟، فقيل: هذا المسيح الدجال“ . . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات (اللہ نے) مجھے خواب دکھایا کہ میں کعبہ کے پاس ہوں، پھر میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا، تم نے جو گندمی لوگ دیکھے ہیں وہ ان میں سب سے خوبصورت تھا، تم نے کندھوں تک سر کے جو لمبے بال دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوبصورت اس کے بال تھے جنہیں اس نے کنگھی کیا تھا، پانی کے قطرے اس کے بالوں سے گر رہے تھے، اس شخص نے دو آدمیوں یا ان کے کندھوں پر سہارا لیا ہوا تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں، پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جو دائیں آنکھ سے کانا تھا اور اس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے، اس کی (کانی) آنکھ اس طرح تھی جیسے پھولے ہوئے انگور کا دانہ ہے میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا گیا: یہ مسیح دجال ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 26]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5902، ومسلم 273/169، من حديث مالك به] تفقه: ➊ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات میں عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، آپ «جَعْدٌ مَرْبُوْعٌ» گھنگریالے بال والے میانہ قد کے تھے۔ [صحيح بخاري: 3396] معلوم ہوا کہ آسمان پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بال گھنگھریالے تھے اور زمین پر نزول کے بعد کنگھی کرنے کی وجہ سے بال برابر اور خوبصورت ہوں گے۔ اس طرح دونوں روایتوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ بعض منکرین ختم نبوت ان دو روایتوں کی وجہ سے دو عیسیٰ علیہ السلام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ مردود ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام «رَجُلاً آدَمَ طِوَالاً جَعْدًا» گندمی رنگ والے لمبے قد اور گھنگریالے بالوں والے تھے۔ [صحيح بخاري: 3396] ◈ دوسری میں آیا ہے: «رَجُلٌ ضَرْبٌ رَجِلٌ» دُبلے سیدھے بال والے تھے۔ [صحيح بخاري: 3394] کیا حلیے کے اس ظاہری اختلاف کی وجہ سے یہ عقیدہ رکھا جائے گا کہ موسیٰ علیہ السلام بھی دو ہیں؟ نیز دیکھئے محمدیہ پاکٹ بک [ص593، 594] وہاں دوسری لغوی بحث بھی ہے۔ ➋ عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد موقع ملنے پر بیت اللہ کا حج کریں گے۔ ➌ دجال اکبر کوشش کرے گا کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کو چاروں طرف سے گھیر لے۔ یاد رہے کہ دجال کا مکے اور مدینے میں داخلہ حرام ہے۔ ➍ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ عیسٰی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ دیکھئے [كشف الاستار عن زوائد البزار 142/4ح 3396، وسنده صحيح] ➎ کانا دجال ایک آدمی ہے جو قیامت سے پہلے ظاہر ہو گا۔ اس سے کوئی خاص قوم یا قبیلہ وغیرہ مراد لینا غلط ہے۔ ➏ نبی کا خواب حجت ہوتا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 253
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5902
5902. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آج رات میں نے خواب میں اپنے آپ کو کعبے کے پاس دیکھا۔ میں نے وہاں ایک خوبصورت گندمی رنگ والا آدمی دیکھا۔ تم نے ایسا خوبصورت آدمی کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اس کے بال شانوں تک لمبے لمبے تھے وہ اس قدر خوبصورت تھا کہ تم نے ایسا خوبصورت بالوں والا کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ وہ اپنے بالوں میں کنگھی کیے ہوئے تھا اور اس کے سر سے پانی ٹپک رہاتھا۔ وہ دو آدمیوں یا دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لیے ہوئے بیت اللہ کا طواف کررہاتھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون بزرگ ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ بزرگ مسیح ابن مریم ہیں۔ اس دوران میں اچانک میں نے ایک آدمی دیکھا جو الجھے ہوئے پیچ دار بالوں والا تھا۔ وہ دائیں آنکھ سے کانا تھا گویا وہ آنکھ انگور کا دانہ ہے جو ابھر ہوا ہو۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ مسیح دجال ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5902]
حدیث حاشیہ: یہ سارے مناظر آپ نے خواب میں دیکھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گھونگھریالے بالوں والا دیکھا اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5902
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5902
5902. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آج رات میں نے خواب میں اپنے آپ کو کعبے کے پاس دیکھا۔ میں نے وہاں ایک خوبصورت گندمی رنگ والا آدمی دیکھا۔ تم نے ایسا خوبصورت آدمی کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اس کے بال شانوں تک لمبے لمبے تھے وہ اس قدر خوبصورت تھا کہ تم نے ایسا خوبصورت بالوں والا کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ وہ اپنے بالوں میں کنگھی کیے ہوئے تھا اور اس کے سر سے پانی ٹپک رہاتھا۔ وہ دو آدمیوں یا دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لیے ہوئے بیت اللہ کا طواف کررہاتھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون بزرگ ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ بزرگ مسیح ابن مریم ہیں۔ اس دوران میں اچانک میں نے ایک آدمی دیکھا جو الجھے ہوئے پیچ دار بالوں والا تھا۔ وہ دائیں آنکھ سے کانا تھا گویا وہ آنکھ انگور کا دانہ ہے جو ابھر ہوا ہو۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ مسیح دجال ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:5902]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بالوں کی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ کندھوں کے برابر لمبے لمبے تھے اور مسیح دجال کے بالوں کا ذکر ہے کہ وہ الجھے ہوئے سخت گھنگریالے بالوں والا تھا۔ عنوان سے یہی مطابقت ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ استدلال غلط ہے کہ مسیح دجال حرم مکہ میں داخل ہو سکے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے خواب میں دیکھنا کہ وہ مکے میں تھا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حقیقت کے طور پر مکے میں داخل ہو گا۔ بہرحال دجال اپنے ظہور ہونے کے وقت مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ (فتح الباری: 10/439) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5902