الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3886
3886. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جب قریش نے (اسراء کی بابت) میری تکذیب کی تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا۔ اللہ تعالٰی نے بیت المقدس میرے سامنے کر دیا تو میں ان لوگوں کو اس کی نشانیاں بتانے لگا جبکہ اس وقت میں اسے دیکھ رہا تھا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3886]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ نے اسراء اور معراج کے لیے الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اسراء اور معراج الگ الگ راتوں میں ہوئے ہیں مگر یہ موقف محل نظر ہے کیونکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الصلاۃ میں ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب كيف فرضت الصلاة في الإسراء)
”اسراء کی رات نماز کس طرح فرض ہوئی؟“ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسراء اور معراج ایک ہی رات میں ہوئی ہیں کیونکہ نمازوں کی فرضیت معراج کے موقع پر ہوئی تھی۔
(فتح الباري: 247/7)
2۔
اکثر علمائے سلف اور محدثین کا موقف ہے کہ اسراء اور معراج جسم اور روح دونوں کے ساتھ بیداری کی حالت میں ہوئے۔
3۔
جب رسول اللہ ﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کیا تو کفار قریش نے انکار کیا اور سیدنا ابو بکر ؓ نے اس کی تصدیق کی۔
اس دن سے حضرت ابو بکر ؓ کا لقب "صدیق"ہوگیا۔
4۔
مسجد حرام سے مسجد اقصی کی طرف جانے میں یہ حکمت ہے کہ آپ دونوں قبلوں کی زیادت کر لیں اور وہاں جا کر انبیائے کرام ؑ کی امامت کرائیں۔
یا اس لیے وہاں تشریف لے گئے کہ بیت المقدس مقام محشر ہے، آپ وہاں گئے تاکہ مختلف فضائل سے شرف یاب ہوں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3886
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4710
4710. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جب قریش نے مجھے جھوٹا قرار دیا تو میں حطیم میں کھڑا ہوا۔ میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔“ ابن شہاب زہری ہی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: ”جب قریش نے واقعہ معراج کے متعلق میری تکذیب کی۔“ پھر پہلی حدیث کی طرح اسے بیان کیا۔ قَاصِفًا سے مراد وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4710]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ قریش کے کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا:
تمھارے رسول اللہ ﷺ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور وہاں سے اس رات واپس آئے حالانکہ وہاں قافلہ ایک مہینے میں جاتا اور ایک مہینے میں واپس آتا ہے یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا واقعی انھوں نے یہ فرمایا ہے؟ انھوں نے کہا:
ہاں آپ نے فرمایا:
اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔
(فتح الباری: 498/9)
اس روزے سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنه کو صدیق کا خطاب ملا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4710