حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” میں نے اپنے آپ کو حجر (حطیم) میں دیکھا، قریش مجھ سے میرے رات کے سفر کے بارے میں سوال کر رہے تھے، انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کےبارے میں پوچھا جو میں نے غور سے نہ دیکھی تھیں، میں اس قدر پریشانی میں مبتلا ہواکہ کبھی اتنا پریشان نہ ہوا تھا، آپ نے فرمایا: ”اس پر اللہ تعالیٰ نے اس (بیت المقدس) اٹھا کر میرے سامنے کر دیا میں اس کی طرف دیکھ رہاتھا، وہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھتے، میں انہیں بتا دیتا۔ اور میں نے خود کو انبیاء کی ایک جماعت میں دیکھا تو وہاں موسیٰ رضی اللہ عنہ تھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، جیسے قبیلہ شنوءہ کے آدمیوں میں سے ایک ہوں۔ اور عیسیٰ ابن مریم (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور (وہاں) ابراہیم رضی اللہ عنہ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمہارے صاحب ہیں، آپ نے اپنی ذلت مراد لی، پھر نماز کا وقت ہو گیا تو میں نے ان سب کی امامت کی۔ جب میں نماز سے فارغ ہو ا تو ایک کہنے والے نے کہا: اے محمد! یہ مالک ہیں، جہنم کے داروغے، انہیں سلام کہیے: میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے پہل کر کے مجھےسلام کیا۔“
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”واقعی میں نے اپنے آپ کو حِجر میں دیکھا۔ قریش مجھ سے میرے اسراء کے بارے میں سوال کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزوں کے بارے میں پوچھا جو مجھے محفوظ نہ تھیں، تو میں اس قدر پریشان ہوا کہ کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا۔ میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھ سے جس چیز کے بارے میں پوچھتے، میں انھیں اس کے بارے میں بتا دیتا اور میں نے اپنے آپ کو انبیاءؑ کی ایک جماعت میں دیکھا۔ میں نے موسیٰؑ کو اس حال میں دیکھا کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ ایک آدمی تھے۔ ہلکے پھلکے، گٹھا ہوا بدن، جیسا کہ وہ شنوءہ (قبیلہ) کے مردوں میں سے ہیں۔ اور اچانک عیسیٰ بن مریم ؑ کو دیکھا کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ عروہ بن مسعود ثقفیؓ ہیں۔ اور ابراہیمؑ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں، لوگوں میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ تمھارے ساتھی ہیں (یعنی آپؐ)۔ نماز کا وقت ہو گیا، تو میں نے ان کی امامت کی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نےکہا: ”اے محمدؐ! یہ مالک آگ کا داروغہ ہے، اسے سلام کہیے۔ میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے مجھے پہلے سلام کہہ دیا۔“