كتاب الوصايا کتاب: وصیت کے احکام و مسائل 6. بَابُ: لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ باب: وارث کے لیے وصیت ناجائز ہے۔
عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس حال میں خطبہ دیا کہ آپ اپنی سواری (اونٹنی) پر تھے، وہ جگالی کر رہی تھی، اور اس کا لعاب میرے مونڈھوں کے درمیان بہہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کے لیے میراث کا حصہ متعین کر دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی، اور زنا کرنے والے کے لیے پتھر ہے، جو شخص اپنے باپ دادا کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کا دعویٰ کرے یا (غلام) اپنے مالک کے علاوہ دوسرے شخص کو مالک بنائے، تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا نفل قبول ہو گا، نہ فرض یا یوں کہا کہ نہ فرض قبول ہو گا نہ نفل“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الوصایا 5 (2121مطولاً)، سنن النسائی/الوصایا 4 (3671)، (تحفة الأ شراف: 10731)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/186، 187، 238، 239)، سنن الدارمی/الوصایا 28 (3303) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: شروع اسلام میں یہ حکم تھا کہ جب کوئی مرنے لگے اور اس کے پاس مال ہو تو وہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے اور وصیت کے مطابق اس کا مال تقسیم کیا جائے، پھر اللہ تعالی نے ترکہ کی آیتیں اتاریں اور ہر ایک وارث کا حصہ مقرر کر دیا۔ اب وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں رہا کیونکہ اس میں دوسرے وارثوں کا نقصان ہو گا، البتہ اجنبی شخص کے لئے یا جس کو ترکہ میں سے کچھ حصہ نہ ملتا ہو موجودہ وارثوں کے سبب سے وصیت کرنا درست ہے، وہ بھی تہائی مال میں سے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں فرما رہے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 90 (3565)، سنن الترمذی/الوصایا 5 (2120)، (تحفة الأ شراف: 4882)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/267) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے نیچے کھڑا تھا، اس کا لعاب میرے اوپر بہہ رہا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے (میت کے ترکہ میں) ہر ایک حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے، تو سنو! کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 863، ومصباح الزجاجة: 963) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|