كتاب الوصايا کتاب: وصیت کے احکام و مسائل 2. بَابُ: الْحَثِّ عَلَى الْوَصِيَّةِ باب: وصیت کی ترغیب۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 1 (1628)، سنن الترمذی/الجنائز 5 (974)، (تحفة الأ شراف: 7944)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوصایا 1 (2738)، سنن ابی داود/الوصایا 1 (2862)، سنن الترمذی/الوصایا 3 (2119)، سنن النسائی/الوصایا 1 (3645) موطا امام مالک/الوصایا 1 (1)، مسند احمد (2/4، 10، 34، 50، 57، 80، 113)، سنن الدارمی/الوصایا 1 (3219) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے پاس مال ہو جس کے لئے وصیت کی ضرورت ہو یا کسی کی امانت ہو تو ضروری ہے کہ ہمیشہ وصیت لکھ کر یا لکھوا کر اپنے پاس رکھا کرے ایسا نہ ہو کہ موت آ جائے اور وصیت کی مہلت نہ ملے، اور لوگوں کے حقوق اپنے ذمہ رہ جائیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محروم وہ ہے جو وصیت کرنے سے محروم رہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 1685، ومصباح الزجاجة: 955) (ضعیف)» (یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وصیت کر کے مرا، وہ راہ (راہ راست) پر اور سنت کے مطابق مرا، نیز پرہیزگاری اور شہادت پر اس کا خاتمہ ہوا، اس کی مغفرت ہو گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 3000، ومصباح الزجاجة: 956) (ضعیف)» (بقیہ مدلس ہیں، اور حدیث عنعنہ سے روایت کی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس نہ ہو، جب کہ اس کے پاس وصیت کرنے کے لائق کوئی چیز ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 7663 ألف) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|