سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الوصايا
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
The Chapters on Wills
4. بَابُ: النَّهْيِ عَنِ الإِمْسَاكِ فِي الْحَيَاةِ وَالتَّبْذِيرِ عِنْدَ الْمَوْتِ
باب: زندگی میں بخیلی اور موت کے وقت فضول خرچی سے ممانعت۔
Chapter: The Prohibition Of Withholding While Alive, Only To Squander Upon One's Death
حدیث نمبر: 2706
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا شريك ، عن عمارة بن القعقاع ، وابن شبرمة ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله نبئني ما حق الناس مني بحسن الصحبة، فقال:" نعم، وابيك لتنبان: امك"، قال: ثم من؟ قال:" ثم امك"، قال: ثم من؟ قال:" ثم امك"، قال: ثم من؟ قال:" ثم ابوك"، قال: نبئني يا رسول الله عن مالي كيف اتصدق فيه؟ قال:" نعم، والله لتنبان ان تصدق وانت صحيح شحيح تامل العيش وتخاف الفقر ولا تمهل حتى إذا بلغت نفسك ها هنا قلت: مالي لفلان ومالي لفلان وهو لهم وإن كرهت".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، وابْنِ شُبْرُمَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَبِّئْنِي مَا حَقُّ النَّاسِ مِنِّي بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ، فَقَالَ:" نَعَمْ، وَأَبِيكَ لَتُنَبَّأَنَّ: أُمُّكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ أُمُّكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ أُمُّكَ"، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ أَبُوكَ"، قَالَ: نَبِّئْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ عَنْ مَالِي كَيْفَ أَتَصَدَّقُ فِيهِ؟ قَالَ:" نَعَمْ، وَاللَّهِ لَتُنَبَّأَنَّ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَأْمُلُ الْعَيْشَ وَتَخَافُ الْفَقْرَ وَلَا تُمْهِلْ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هَا هُنَا قُلْتَ: مَالِي لِفُلَانٍ وَمَالِي لِفُلَانٍ وَهُوَ لَهُمْ وَإِنْ كَرِهْتَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے کہ لوگوں میں کس کے ساتھ حسن سلوک کا حق مجھ پر زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تمہارے والد کی قسم، تمہیں بتایا جائے گا، (سب سے زیادہ حقدار) تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہارا باپ کہا: مجھے بتائیے کہ میں اپنا مال کس طرح صدقہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اللہ کی قسم! یہ بھی تمہیں بتایا جائے گا، صدقہ اس حال میں کرو کہ تم تندرست ہو، مال کی حرص ہو، زندہ رہنے کی امید ہو، فقر و فاقہ کا اندیشہ ہو، ایسا نہ کرو کہ تمہاری سانس یہاں آ جائے (تم مرنے لگو) تو اس وقت کہو: میرا یہ مال فلاں کے لیے اور یہ مال فلاں کے لیے ہے، اب تو یہ مال ورثاء کا ہے گرچہ تم نہ چاہو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 2 (5971)، صحیح مسلم/البر والصلة 1 (2548)، (تحفة الأشراف: 14905)، وقد أخرجہ: مسند احمد2/391) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی مرتے وقت وہ تمہارا مال ہی کہاں رہا جو تم کہتے ہو کہ میرا یہ مال فلاں اور فلاں کو دینا۔ جب آدمی بیمار ہوا اور موت قریب آ پہنچی تو دو تہائی مال پر وارثوں کا حق ہو گیا، اب ایک تہائی پر اختیار رہ گیا اس میں جو چاہے وہ کر لے، لیکن ایک تہائی سے زیادہ اگر صدقہ دے گا تو وہ صحیح نہ ہو گا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عادت کے طور پر غیر اللہ کی قسم کھانا منع نہیں ہے، کیونکہ نبی کریم نے اس کے باپ کی قسم کھائی، اور بعضوں نے کہا یہ حدیث ممانعت سے پہلے کی ہے، پھر آپ ﷺ نے باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع فرمایا، نیز حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ماں کے ساتھ باپ سے تین حصے زیادہ سلوک کرنا چاہئے کیونکہ ماں کا حق سب پر مقدم ہے، ماں نے بچہ کے پالنے میں جتنی تکلیف اٹھائی ہے اتنی باپ نے نہیں اٹھائی گو باپ کا حق بھی بہت بڑا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ق وليس عند خ زيادة نعم وأبيك لتنبأن وهي شهادة
حدیث نمبر: 2707
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا حريز بن عثمان ، حدثني عبد الرحمن بن ميسرة ، عن جبير بن نفير ، عن بسر بن جحاش القرشي ، قال: بزق النبي صلى الله عليه وسلم في كفه ثم وضع اصبعه السبابة وقال: يقول الله عز وجل:" انى تعجزني ابن آدم وقد خلقتك من مثل هذه فإذا بلغت نفسك هذه واشار إلى حلقه، قلت: اتصدق وانى اوان الصدقة".
(قدسي) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ جَحَّاشٍ الْقُرَشِيِّ ، قَالَ: بَزَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَفِّهِ ثُمَّ وَضَعَ أُصْبُعَهُ السَّبَّابَةَ وَقَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" أَنَّى تُعْجِزُنِي ابْنَ آدَمَ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هَذِهِ فَإِذَا بَلَغَتْ نَفْسُكَ هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ، قُلْتَ: أَتَصَدَّقُ وَأَنَّى أَوَانُ الصَّدَقَةِ".
بسر بن جحاش قرشی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر لعاب مبارک ڈالا، اور اس پر شہادت کی انگلی رکھ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! تم مجھے کس طرح عاجز کرتے ہو، حالانکہ میں نے تمہیں اسی جیسی چیز (منی) سے پیدا کیا ہے پھر جب تمہاری سانس یہاں پہنچ جاتی ہے، آپ نے اپنے حلق کی جانب اشارہ فرمایا تو کہتا ہے کہ میں صدقہ کرتا ہوں، اب صدقہ کرنے کا وقت کہاں رہا؟ ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 2018، ومصباح الزجاجة: 960)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/210) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: بلکہ صدقہ کا عمدہ وقت وہ ہے جب آدمی صحیح اور تندرست ہو، اور وہ مال کا محتاج ہو بہت دنوں تک جینے کی توقع ہو، لیکن ان سب باتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے اور اپنا عمدہ مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کرے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.