كتاب الوصايا کتاب: وصیت کے احکام و مسائل 5. بَابُ: الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ باب: تہائی مال تک وصیت کرنے کا بیان۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال ایسا بیمار ہوا کہ موت کے کنارے پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے، اور ایک بیٹی کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے، تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”نہیں“، میں نے کہا: پھر آدھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تو ایک تہائی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے“، تمہارا اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کر جانا، انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 36 (1295)، الوصایا 2 (2742)، 3 (2744)، مناقب الأنصار 49 (3936)، المغازي 77 (4395)، النفقات 1 (5354)، المرضی 13 (5659)، 16 (5668)، الدعوات 43 (6373)، الفرائض 6 (6733)، صحیح مسلم/الوصایا 2 (1628)، سنن ابی داود/الوصایا 2 (2864)، سنن الترمذی/الجنائز 6 (975)، الوصایا 1 (2117)، سنن النسائی/الوصایا 3 (3656)، (تحفة الأ شراف: 3890)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الوصایا 3 (4)، مسند احمد (1/168، 172، 176، 179)، سنن الدارمی/الوصایا 7 (3238) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ وصیت تہائی مال سے زیادہ میں نافذ نہ ہو گی، اور دو تہائی وارثوں کو ملے گا اگرچہ وصیت تہائی سے زیادہ یا کل مال کی ہو، جمہور علماء کا یہی قول ہے، لیکن اگر موصی کا کوئی وارث نہ ہو توثلث مال سے زیادہ کی وصیت درست ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے تمہاری وفات کے وقت تم پر تہائی مال کا صدقہ کیا ہے، (یعنی وصیت کی اجازت دی ہے) تاکہ تمہارے نیک اعمال میں اضافہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 14180، ومصباح الزجاجة: 961) (حسن)» (سند میں طلحہ بن عمرو ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے حسن ہے)
قال الشيخ الألباني: حسن
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم! میں نے دو ایسی چیزیں عنایت کیں جن میں سے ایک پر بھی تمہارا حق نہیں تھا، میں جس وقت تمہاری سانس روکوں اس وقت تمہیں مال کے ایک حصہ (یعنی تہائی مال کے صدقہ کرنے) کا اختیار دیا، تاکہ اس کے ذریعے سے میں تمہیں پاک کروں اور تمہارا تزکیہ کروں، دوسری چیز تمہارے مرنے کے بعد میرے بندوں کا تم پر نماز (جنازہ) پڑھنا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 8407، ومصباح الزجاجة: 962) (ضعیف)» (سند میں صالح بن محمد بن یحییٰ مجہول ہیں، اور مبار ک بن حسان ضعیف اور منکر الحدیث)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میری تمنا ہے کہ لوگ تہائی مال کے بجائے چوتھائی مال میں وصیت کریں، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تہائی حصہ بھی بڑا ہے یا زیادہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 3 (2743)، صحیح مسلم/الوصایا1 (1629)، سنن النسائی/الوصایا 3 (3664)، (تحفة الأ شراف: 8404)، وقد آخرجہ: مسند احمد (1/230، 233) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|