الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3676
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
اگر کوئی انسان اپنی بیوی کو کہتا ہے تو مجھ پر حرام ہے،
اس میں فقہاء کا بہت اختلاف ہے۔
(1)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر اس نے طلاق یا ظہار کی نیت کی تو اس کو نیت پر محمول کیا جائے گا۔
اور اگر طلاق یا ظہار کی نیت کے بغیراس عورت کو حرام قرار دیا تو یہ اگرچہ قسم نہیں ہے لیکن اس لفظ پر قسم کا کفارہ ادا کرنا ہو گا،
اگر کوئی نیت ہی نہیں کی اوریہ لفظ کہا تو امام شافعی کے صحیح قول کے مطابق اسے قسم کا کفارہ دیناہوگا۔
(2)
دوسراقول یہ ہے کہ یہ لفظ لغو ہے اور اس پر کوئی شرعی حکم مرتب نہیں ہو گا۔
2۔
امام مالک کا مشہور قول یہ ہے کہ اس لفظ سے تین طلاقیں واقع ہو جائیں گیں۔
عورت مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ،
لیکن اگر اس نے تین سے کم کی نیت کی ہے تو صرف غیر مدخولہ کے بارے میں اس کی نیت کا اعتبار ہو گا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہی قول ہے۔
3۔
حنابلہ کے نزدیک ایک قول کے مطابق ظہار ہے دوسرے قول کے مطابق یہ تین طلاقیں ہیں۔
تیسرے قول کے مطابق اگر بغیر کسی نیت کے کہا تو قسم ہے،
اگر طلاق یا ظہار کی نیت کے مطابق عمل ہو گا۔
4۔
احناف کے نزدیک اس سے نیت کے بارے میں پوچھا جائے گا،
اگر نیت ایلاء یا ظہار یا ایک بائنہ طلاق یا تین طلاقوں کی تو نیت کا اعتبار ہو گا۔
اگر کوئی نیت نہ کی تو متقدمین احناف کے نزدیک ایلاء ہو گا اور متأخّرین کے نزدیک طلاق بائنہ ہو گی اور اس پر فتوی ہے اگر اس نے کہا میں نے یہ لفظ جھوٹ موٹ کہا تھا تو اس کی بات کا اعتبار نہیں ہو گا۔
متقدمین احناف کے نزدیک یہ ایلاء تھا اور متاخرین اس کو طلاق بائنہ قراردیتے ہیں اور اگر اس نے دو طلاقوں کی نیت کی۔
تو یہ ایک بائنہ طلاق ہو گی لیکن امام زفر کے نزدیک دونوں واقع ہو جائیں گی۔
5۔
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسروق کے نزدیک یہ کلام اس طرح لغو ہے جس طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بلکہ جمہور کے نزدیک یہ کہنا لغو ہے کہ یہ کھانا مجھ پر حرام ہے یا یہ پانی یا کپڑا حرام ہے،
اس کا کوئی اثر نہیں ہے۔
اس طرح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے چودہ مذاہب بیان کیے ہیں چونکہ سورۃ تحریم کی آیت حرمت شہد کے بارے میں نازل ہوئی اور اس میں سے ﴿قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ﴾ (بے شک اللہ نے تمھارے لیے تمھاری قسموں کا کفارہ مقرر کردیا ہے)
اس سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3676