كِتَاب التَّوْحِيدِ کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں 32. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلاَ تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ عِنْدَهُ إِلاَّ لِمَنْ أَذِنَ لَهُ حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ}: باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور اس کے ہاں کسی کی شفاعت بغیر اللہ کی اجازت کے فائدہ نہیں دے سکتی، (وہاں فرشتوں کا بھی یہ حال ہے) کہ جب اللہ پاک کوئی حکم اتارتا ہے تو فرشتے اسے سن کر اللہ کے خوف سے گھبرا جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان کی گھبراہٹ دور ہوتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کا کیا ارشاد ہوا ہے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے فرمایا وہ حق ہے اور وہ بلند ہے بڑا ہے“۔
یہاں فرشتے اللہ کے امر کے لیے لفظ «ماذا خلق ربكم» نہیں استعمال کرتے ہیں (پس اللہ کے کلام کو مخلوق کہنا غلط ہے جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں) اور اللہ جل ذکرہ نے فرمایا «من ذا الذي يشفع عنده إلا بإذنه» کہ ”کون ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کی شفاعت کسی کے کام آ سکے مگر جس کو وہ حکم دے۔“
مسروق بن اجدع تابعی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نقل کیا کہ جب اللہ تعالیٰ وحی کے لیے کلام کرتا ہے تو آسمان والے بھی کچھ سنتے ہیں۔ پھر جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے اور آواز چپ ہو جاتی ہے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے اور آواز دیتے ہیں ایک دوسرے کو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں کہ بجا ارشاد فرمایا۔
اور جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی جاتی ہے، ان سے عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ اپنے بندوں کو جمع کرے گا اور ایسی آواز کے ذریعہ ان کو پکارے گا جسے دور والے اسی طرح سنیں گے جس طرح نزدیک والے سنیں گے، میں بادشاہ ہوں ہر ایک کے اعمال کا بدلہ دینے والا ہوں۔“
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اس کے فرمان کے آگے عاجزی کا اظہار کرنے کے لیے اپنے بازو مارتے ہیں (اور ان سے ایسی آواز نکلتی ہے) جیسے پتھر پر زنجیر ماری گئی ہو۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا سفیان کے سوا دوسرے راویوں نے اس حدیث میں بجائے «صفوان» کے بہ فتحہ «فاصفوان» روایت کیا ہے اور ابوسفیان نے «صفوان» پر سکون فاء روایت کیا ہے دونوں کے معنی ایک ہی ہیں یعنی چکنا صاف پتھر۔ اور ابن عامر نے «فزع» بہ صیغہ معروف پڑھا ہے۔ بعضوں نے «فزع» رائے مہملہ سے پڑھا ہے یعنی جب ان کے دلوں کو فراغت حاصل ہو جاتی ہے۔ مطلب وہی ہے کہ ڈر جاتا رہا ہے پھر وہ حکم فرشتوں میں آتا ہے اور جب ان کے دلوں سے خوف دور ہو جاتا ہے تو وہ پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب کے کیا کہا؟ جواب دیتے ہیں کہ حق، اللہ وہ بلند و عظیم ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
اور علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث بیان کی اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ان سے عمرو نے بیان کیا، انہوں نے عکرمہ سے سنا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عکرمہ سے سنا، انہوں نے کہا میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تو سفیان بن عیینہ نے اس کی تصدیق کی۔ علی نے کہا میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا کہ ایک شخص نے عمر سے روایت کی، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ نے «فزع» پڑھا۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح پڑھا تھا، مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے اسی طرح ان سے سنا تھا یا نہیں، سفیان نے کہا کہ یہی ہماری قرآت ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی بات کو اتنا متوجہ ہو کر نہیں سنتا جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن پڑھنا متوجہ ہو کر سنتا ہے جو خوش آوازی سے اس کو پڑھتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ساتھی نے کہا اس حدیث میں «يتغنى بالقرآن» کا یہ معنی ہے کہ اس کو پکار کر پڑھتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے آدم! وہ کہیں گے «لبيك وسعديك.» پھر بلند آواز سے ندا دے گا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اپنی نسل میں سے دوزخ کا لشکر نکال۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس قدر مجھے خدیجہ رضی اللہ عنہا پر غیرت آتی تھی اور کسی عورت پر نہیں آتی تھی اور ان کے رب نے حکم دیا تھا کہ انہیں جنت میں ایک گھر کی بشارت دے دیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
|