جماع أَبْوَابِ صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ، الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، وَمَا يُحْتَاجُ فِيهِمَا مِنَ السُّنَنِ عیدالفطر، عیدالاضحٰی اور جو اُن میں جو ضروری سنّتوں کے ابواب کا مجموعہ 947. (714) بَابُ الرُّخْصَةِ لِلْإِمَامِ إِذَا اجْتَمَعَ الْعِيدَانِ وَالْجُمُعَةُ أَنْ يُعِيدَ بِهِمْ وَلَا يُجَمِّعَ بِهِمْ، جب عید اور جمعہ جمع ہوجائیں تو امام کو رخصت ہے کہ وہ لوگوں کو عید پڑھا دے اور جمعہ نہ پڑھائے،
پشرطیکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اپنے اس فرمان ”ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے سنّت کو پالیا ہے“ سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہو
تخریج الحدیث:
حضرت وہب بن کیسان بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکّہ مکرّمہ میں حاضر تھا جب وہ امیر تھے تو عید الفطر یا عید الاضحیٰ جمعہ کے دن آگئئ تو اُنہوں نے (عید کے لئے) نکلنے میں تاخیر کی حتّیٰ کہ دن چڑھ گیا، پھر وہ باہر نکلے اور منبر پر تشریف فرما ہوکر بڑاطویل خطبہ دیا۔ پھر اُنہوں نے دو رکعات پڑھائیں اور نماز جمعہ نہیں پڑھائی، پس بنی امیہ بن عبد شمس کے کچھ لوگوں نے اس بات پر اعتراض کیا اور اُن پر عیب لگایا، سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے سنّت کو پالیا ہے۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے کہ جب دو عیدیں (عید اور جمعہ) جمع ہو جاتیں تو وہ اسی طرح کرتے تھے۔ یہ جناب احمد بن عبدہ کی حدیث ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فر ماتے ہیں کہ ”سیدنا ابن عبا س رضی اللہ عنہما کا یہ فرمان کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے سنّت کو پالیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ اُنہوں نے سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پالیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اُن کی مردایہ ہو کہ سیدنا ابوبکر، عمر، عثمان یا علی رضی اللہ عنہم کے طریقے کو اُنہوں نے پالیا ہے۔ اور میرا خیال نہیں کہ نماز عید سے پہلے خطبہ دینے کو اُنہوں نے سنّت کو پا لیا، قرار دیا ہو کیونکہ یہ کام سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے طریقے کے خلاف ہے۔ بلکہ ان کی مراد صرف جمعہ نہ پڑھانا تھا۔ جبکہ اُنہوں نے لوگوں کو نماز عید پڑھا دی تھی۔ اُن کی مراد نماز عید سے پہلے خطبہ دینا نہ تھی۔
تخریج الحدیث: اسناده حسن
|