صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ
ان اوقات کے ابواب کا مجموعہ جن میں نفل نماز پڑھنا منع ہے
812. (579) بَابُ إِبَاحَةِ الصَّلَاةِ عِنْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ
غروب آفتاب کے وقت اور نماز مغرب سے پہلے نفل نماز پڑھنا جائز ہے
حدیث نمبر: 1287
Save to word اعراب
نا محمد بن العلاء بن كريب ، نا ابن مبارك ، عن كهمس بن الحسن ، ح وحدثنا بندار ، حدثنا يزيد بن هارون ، نا الجريري ، وكهمس، ح وحدثنا بندار ، نا سالم بن نوح العطار ، حدثنا سعيد الجريري ، ح وحدثنا احمد بن عبدة ، حدثنا سليم يعني ابن اخضر ، حدثنا كهمس جميعا، عن عبد الله بن بريدة ، عن عبد الله بن مغفل ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بين كل اذانين صلاة، بين كل اذانين صلاة"، ثم قال في الثالثة:" لمن شاء" هذا حديث ابي كريب، واحمد بن عبدة، زاد ابو كريب: فكان ابن بريدة يصلي قبل المغرب ركعتيننَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ بْنِ كُرَيْبٍ ، نَا ابْنُ مُبَارَكٍ ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، نَا الْجُرَيْرِيُّ ، وَكَهْمَسٌ، ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، نَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ الْعَطَّارُ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمٌ يَعْنِي ابْنَ أَخْضَرَ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاةٌ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاةٌ"، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ:" لِمَنْ شَاءَ" هَذَا حَدِيثُ أَبِي كُرَيْبٍ، وَأَحْمَدَ بْنِ عَبْدَةَ، زَادَ أَبُو كُرَيْبٍ: فَكَانَ ابْنُ بُرَيْدَةَ يُصَلِّي قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ ہر دو اذانوں (اذان اور اقامت) کے درمیان (نفل) نماز ہے۔ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: جو پڑھنا چاہے، (وہ پڑھ لے) یہ ابوکریب اور احمد بن عبدہ کی حدیث ہے۔ ابوکریب نے یہ الفاظ زیادہ بیان کئے ہیں کہ لہٰذا حضرت عبداللہ بن بریدہ نماز مغرب سے پہلے دور رکعت پڑھتے تھے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1288
Save to word اعراب
نا محمد بن بشار ، نا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عمرو بن عامر ، عن انس ، قال:" إن كان المؤذن إذا اذن قام ناس من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيبتدرون السواري يصلون حتى يخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهم كذلك يصلون الركعتين قبل المغرب، ولم يكن بين الاذان والإقامة شيء" . قال ابو بكر: يريد شيئا كثيرانَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ:" إِنْ كَانَ الْمُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ يُصَلُّونَ حَتَّى يَخْرُجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمْ كَذَلِكَ يُصَلُّونَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ شَيْءٌ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يُرِيدُ شَيْئًا كَثِيرًا
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب موذن اذان دے دیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام جلدی جلدی ستونوں کو سُترہ بنا کر نماز پڑھنا شروع کر دیتے حتیٰ کہ رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے اور وہ اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھ رہے ہوتے۔ اور اذان اور اقامت کے درمیان کچھ (زیادہ) وقفہ نہیں ہوتا تھا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا مطلب ہے کہ زیادہ طویل وقفہ نہیں ہوتا تھا۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
حدیث نمبر: 1289
Save to word اعراب
نا محمد بن يحيى ، نا ابو معمر ، نا عبد الوارث ، نا حسين المعلم ، عن عبد الله بن بريدة ، عن عبد الله المزني ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صلوا قبل المغرب ركعتين"، ثم قال:" صلوا قبل المغرب ركعتين"، ثم قال عند الثالثة:" لمن شاء" خشي ان يحسبها الناس سنة ، قال ابو بكر: هذا اللفظ من امر المباح إذ لو لم يكن من امر المباح لكان اقل الامر ان يكون سنة إن لم يكن فرضا، ولكنه امر إباحة، وقد كنت اعلمت في غير موضع من كتبنا ان لامر الإباحة علامة متى زجر عن فعل، ثم امر بفعل ما قد زجر عنه، كان ذلك الامر امر إباحة، والنبي صلى الله عليه وسلم قد كان زاجرا عن الصلاة بعد العصر حتى مغرب الشمس على المعنى الذي بينت، فلما امر بالصلاة بعد غروب الشمس صلاة تطوع كان ذلك امر إباحة، وامر الله جل وعلا بالاصطياد عند الإحلال من الإحرام امر إباحة، إذ كان اصطياد صيد البر في الإحرام منهيا عنه، لقوله جل وعلا: غير محلي الصيد وانتم حرم سورة المائدة آية 1، وبقوله: وحرم عليكم صيد البر ما دمتم حرما سورة المائدة آية 96، وبقوله: لا تقتلوا الصيد وانتم حرم سورة المائدة آية 95 فلما امر بعد الإحلال باصطياد صيد البر كان ذلك الامر امر إباحة، قد بينت هذا الجنس في كتاب معاني القرآننَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، نَا أَبُو مَعْمَرٍ ، نَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، نَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلَّوْا قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ"، ثُمَّ قَالَ:" صَلَّوْا قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ"، ثُمَّ قَالَ عِنْدَ الثَّالِثَةِ:" لِمَنْ شَاءَ" خَشِيَ أَنْ يَحْسَبَهَا النَّاسُ سُنَّةً ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا اللَّفْظُ مِنْ أَمْرِ الْمُبَاحِ إِذْ لَوْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَمْرِ الْمُبَاحِ لَكَانَ أَقَلُ الأَمْرِ أَنْ يَكُونَ سُنَّةً إِنْ لَمْ يَكُنْ فَرْضًا، وَلَكِنَّهُ أَمْرُ إِبَاحَةٍ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ لأَمْرَ الإِبَاحَةِ عَلامَةٌ مَتَى زَجَرَ عَنْ فِعْلٍ، ثُمَّ أَمَرَ بِفِعْلِ مَا قَدْ زَجَرَ عَنْهُ، كَانَ ذَلِكَ الأَمْرُ أَمْرَ إِبَاحَةٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ زَاجِرًا عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى الْمَعْنَى الَّذِي بَيَّنْتُ، فَلَمَّا أَمَرَ بِالصَّلاةِ بَعْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ صَلاةَ تَطَوُّعٍ كَانَ ذَلِكَ أَمْرَ إِبَاحَةٍ، وَأَمْرُ اللَّهِ جَلَّ وَعَلا بِالاصْطِيَادِ عِنْدَ الإِحْلالِ مِنَ الإِحْرَامِ أَمْرُ إِبَاحَةٍ، إِذْ كَانَ اصْطِيَادُ صَيْدِ الْبَرِّ فِي الإِحْرَامِ مَنْهِيًّا عَنْهُ، لِقَوْلِهِ جَلَّ وَعَلا: غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ سورة المائدة آية 1، وَبِقَوْلِهِ: وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا سورة المائدة آية 96، وَبِقَوْلِهِ: لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ سورة المائدة آية 95 فَلَمَّا أَمَرَ بَعْدَ الإِحْلالِ بِاصْطِيَادِ صَيْدِ الْبَرِّ كَانَ ذَلِكَ الأَمْرُ أَمْرَ إِبَاحَةٍ، قَدْ بَيَّنْتُ هَذَا الْجِنْسَ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ
سیدنا عبداللہ بن مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھو پھر فرمایا: مغرب سے پہلے دو رکعات ادا کرو پھر تیسری مرتبہ فرمایا: جو پڑھنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں لوگ اسے لازمی نہ سمجھ لیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ مباح امر کے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ مباح امر سے نہ ہوتے تو کم از کم سنّت ہوتے، اگرچہ فرض نہ بھی ہوتے، لیکن یہ امر اباحت و جواز کے لئے ہے۔ اور میں اپنی کتابوں کے کئی مقامات پر بیان کر چکا ہوں کہ مباح امر کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام سے منع فرمائیں۔ پھر اسی ممنوع کام کو کرنے کا حُکم دیں تو یہ حُکم مباح ہو گا - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا تھا، اس معنی اور مفہوم پر جسے میں بیان کر چکا ہوں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروب آفتاب کے بعد نفل نماز پڑھنے کا حُکم دیا تو حُکم اباحت اور جواز کے لئے ہو گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا (حاجی کو) احرام کی پابندیوں سے فارغ ہونے کے بعد شکار کرنے کا حُکم دینا، مباح حُکم ہے کیونکہ حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا ممنوع تھا - اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے «‏‏‏‏غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ» ‏‏‏‏ [ سورۃ المائدہ: 1 ] جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار کو حلال نہ جانو اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک کی وجہ سے «‏‏‏‏وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا» ‏‏‏‏ [ سورۃ المائدہ: 96] اور جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تمہارے لئے خشکی کا شکار حرام کیا گیا ہے۔ اور اس ارشاد باری تعالیٰ کی وجہ سے «‏‏‏‏لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ» ‏‏‏‏ [ سورۃ المائدہ: 95 ] تم حالت احرام میں شکار کو قتل نہ کرو - لہٰذا جب اللہ تعالیٰ نے احرام کھولنے پر خشکی کا شکار کرنے کا حُکم دیا تو یہ حُکم اباحت و جواز کے لئے ہے - (فرض یا واجب نہیں) میں نے یہ قسم کتاب معانی القرآن میں بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.