صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ
ان اوقات کے ابواب کا مجموعہ جن میں نفل نماز پڑھنا منع ہے
809. (576) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ نَهْيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ نَهْيٌ خَاصٌّ لَا عَامٌّ،
اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازِ صبح کے بعد طلوع شمس تک اور نماز عصر کے بعد غروب شمس تک نماز پڑھنے سے منع کرنا، یہ ایک خاص ممانعت ہے، عام نہیں،
حدیث نمبر: Q1276
Save to word اعراب
إنما اراد بعض التطوع لا كله، وقد اعلمت قبل في الباب الذي تقدم انه لم يرد بهذا النهي نهيا عن صلاة الفريضة إِنَّمَا أَرَادَ بَعْضَ التَّطَوُّعِ لَا كُلَّهُ، وَقَدْ أَعْلَمْتُ قَبْلُ فِي الْبَابِ الَّذِي تَقَدَّمَ أَنَّهُ لَمْ يُرِدْ بِهَذَا النَّهْيِ نَهْيًا عَنْ صَلَاةِ الْفَرِيضَةِ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد بعض نفلی نمازوں سے منع کرنا تھا تمام نفلی نمازوں سے منع کرنا مراد نہیں۔ اور گزشتہ باب میں یہ بھی بیان کرچکا ہوں کہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد فرض نماز سے منع کرنا بھی نہیں تھا

تخریج الحدیث:
حدیث نمبر: 1276
Save to word اعراب
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت اس لئے پڑھی تھیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے بعد کوئی (سنّت یا نفل) نماز نہیں پڑھ سکے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده حسن
حدیث نمبر: 1277
Save to word اعراب
حدثنا الصنعاني محمد بن عبد الاعلى ، حدثنا المعتمر ، قال: سمعت محمدا ، عن ابي سلمة ، ان ام سلمة ، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد العصر فصلى ركعتين، فقلت: اي رسول الله، اي صلاة هذه؟ ما كنت تصليها، قال:" إنه قدم وفد من بني تميم فشغلوني عن ركعتين كنت اركعهما بعد الظهر" . خرجت طرق هذا الخبر في كتاب الكبير. قال ابو بكر: فالنبي صلى الله عليه وسلم قد تطوع بركعتين بعد العصر قضاء الركعتين اللتين كان يصليهما بعد الظهر، فلو كان نهيه عن الصلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس عن جميع التطوع، لما جاز ان يقضي ركعتين كان يصليهما بعد الظهر، فيقضيهما بعد العصر، وإنما صلاهما استحبابا منه للدوام على عمل التطوع ؛ لانه اخبر صلى الله عليه وسلم ان افضل الاعمال ادومها، وكان صلى الله عليه وسلم إذا عمل عملا احب ان يداوم عليهحَدَّثَنَا الصَّنْعَانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدًا ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَقُلْتُ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ صَلاةٍ هَذِهِ؟ مَا كُنْتَ تُصَلِّيهَا، قَالَ:" إِنَّهُ قَدِمَ وَفْدٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ فَشَغَلُونِي عَنْ رَكْعَتَيْنِ كُنْتُ أَرْكَعُهُمَا بَعْدَ الظُّهْرِ" . خَرَّجْتُ طُرُقَ هَذَا الْخَبَرِ فِي كِتَابِ الْكَبِيرُ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَطَوُّعَ بِرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ قَضَاءَ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الظُّهْرِ، فَلَوْ كَانَ نَهْيُهُ عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ عَنْ جَمِيعِ التَّطَوُّعِ، لَمَا جَازَ أَنْ يَقْضِيَ رَكْعَتَيْنِ كَانَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الظُّهْرِ، فَيَقْضِيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، وَإِنَّمَا صَلاهُمَا اسْتِحْبَابًا مِنْهُ لِلدَّوَامِ عَلَى عَمَلِ التَّطَوُّعِ ؛ لأَنَّهُ أَخْبَرَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَفْضَلَ الأَعْمَالِ أَدْوَمُهَا، وَكَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا عَمِلَ عَمَلا أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهِ
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد میرے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا کیں، میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، یہ کونسی نماز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز نہیں پڑھا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تھا تو اُنہوں نے مجھے ان دو رکعات کی ادائیگی سے مشغول کر دیا تھا جو میں نماز ظہر کے بعد ادا کرتا تھا۔ میں نے اس روایت کے طرق کتاب الکبیر میں بیان کیے ہیں - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد دو رکعت سنّت ادا کی ہیں - ان دو رکعات کی قضا دیتے ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعد پڑھتے تھے - اور اگر عصر کے بعد غروب آفتاب تک تمام نفلی نمازوں کی ادائیگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کی ہوتی تو پھر یہ جائز نہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعات ظہر کے بعد پڑھتے تھے ان کی قضا عصر کے بعد دیتے بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعات نفلی عمل پر ہمیشگی اختیار کرتے ہوئے استحباب کے طور پر ادا کی تھیں - کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک افضل ترین عمل ہمیشگی والا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی عمل کرتے تھے تو اس پر ہمیشگی اختیار کرنا پسند کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1278
Save to word اعراب
والدليل على ما ذكرت، ان علي بن حجر حدثنا، قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر ، حدثنا محمد وهو ابن ابي حرملة ، عن ابي سلمة ، انه سال عائشة عن السجدتين اللتين كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليهما بعد العصر في بيتها، قالت: كان" يصليهما قبل العصر ثم إنه شغل عنهما او نسيهما فصلاهما بعد العصر، ثم اثبتهما، وكان إذا صلى صلاة اثبتها" وَالدَّلِيلُ عَلَى مَا ذَكَرْتُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُجْرٍ حَدَّثَنَا، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنِ السَّجْدَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ فِي بَيْتِهَا، قَالَتْ: كَانَ" يُصَلِّيهِمَا قَبْلَ الْعَصْرِ ثُمَّ إِنَّهُ شُغِلَ عَنْهُمَا أَوْ نَسِيَهُمَا فَصَلاهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، ثُمَّ أَثْبَتَهُمَا، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلاةً أَثْبَتَهَا"
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دو رکعات کے بارے میں پوچھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں عصر کے بعد ادا کیا کرتے تھے۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دو رکعات عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ پھر ان دو رکعات کی ادا ئیگی سے مشغول ہوگئے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ادا کرنا بھول گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عصر کے بعد ادا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعات کو ہمیشہ ادا کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (نفل) نماز ادا کرتے تو اس پر ہمیشگی اور دوام اختیار کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1279
Save to word اعراب
وفي خبر جابر بن يزيد بن الاسود السوائي ، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال للرجلين بعد فراغه من صلاة الفجر: " إذا صليتما في رحالكما، ثم جئتما والإمام يصلي فصليا معه، تكون لكما نافلة" ، ساخرجه إن شاء الله بتمامه. ناه يعقوب بن إبراهيم الدورقي ، وزياد بن ايوب ، قالا: حدثنا هشيم ، اخبرنا يعلى بن عطاء ، عن جابر بن يزيد السوائي، عن ابيه، قال ابو بكر: والنبي صلى الله عليه وسلم في هذا الخبر قد امر من صلى الفجر في رحله ان يصلي مع الإمام، واعلم ان صلاته تكون مع الإمام نافلة فلو كان النهي عن الصلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس نهيا عاما لا نهيا خاصا، لم يجز لمن صلى الفجر في الرحل ان يصلي مع الإمام فيجعلها تطوعا، واخبار النبي صلى الله عليه وسلم:" سيكون عليكم امراء يؤخرون الصلاة عن وقتها، فصلوا الصلاة لوقتها، واجعلوا صلاتكم معهم سبحة"، فيها دلالة على ان الإمام إذا اخر العصر او الفجر او هما، إن على المرء ان يصلي الصلاتين جميعا لوقتهما، ثم يصلي مع الإمام ويجعل صلاته معه سبحة، وهذا تطوع بعد الفجر، وبعد العصر، وقد امليت قبل خبر قيس بن قهد، وهو من هذا الجنس، والنبي صلى الله عليه وسلم قد زجر بني عبد مناف، وبني عبد المطلب ان يمنعوا احدا يصلي عند البيت اي ساعة شاء من ليل او نهاروَفِي خَبَرِ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ الأَسْوَدِ السُّوَائِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِلرَّجُلَيْنِ بَعْدَ فَرَاغِهِ مِنْ صَلاةِ الْفَجْرِ: " إِذَا صَلَّيْتُمَا فِي رِحَالِكُمَا، ثُمَّ جِئْتُمَا وَالإِمَامُ يُصَلِّي فَصَلِّيَا مَعَهُ، تَكُونُ لَكُمَا نَافِلَةً" ، سَأُخَرِّجُهُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِتَمَامِهِ. ناهُ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، وَزِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ ، قَالا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ يَزِيدَ السُّوَائِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْخَبَرِ قَدْ أَمَرَ مَنْ صَلَّى الْفَجْرَ فِي رَحْلِهِ أَنْ يُصَلِّيَ مَعَ الإِمَامِ، وَأَعْلَمَ أَنَّ صَلاتَهُ تَكُونُ مَعَ الإِمَامِ نَافِلَةً فَلَوْ كَانَ النَّهْيُ عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ نَهْيًا عَامًّا لا نَهْيًا خَاصًّا، لَمْ يُجِزْ لِمَنْ صَلَّى الْفَجْرَ فِي الرَّحْلِ أَنْ يُصَلِّيَ مَعَ الإِمَامِ فَيَجْعَلَهَا تَطَوُّعًا، وَأَخْبَارُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَيَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ يُؤَخِّرُونَ الصَّلاةَ عَنْ وَقْتِهَا، فَصَلَّوَا الصَّلاةَ لِوَقْتِهَا، وَاجْعَلُوا صَلاتَكُمْ مَعَهُمْ سُبْحَةً"، فِيهَا دِلالَةٌ عَلَى أَنَّ الإِمَامَ إِذَا أَخَّرَ الْعَصْرَ أَوِ الْفَجْرَ أَوْ هُمَا، إِنَّ عَلَى الْمَرْءِ أَنْ يُصَلِّيَ الصَّلاتَيْنِ جَمِيعًا لِوَقْتِهِمَا، ثُمَّ يُصَلِّي مَعَ الإِمَامِ وَيَجْعَلُ صَلاتَهُ مَعَهُ سُبْحَةً، وَهَذَا تَطَوُّعٌ بَعْدَ الْفَجْرِ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ أَمْلَيْتُ قَبْلُ خَبَرَ قَيْسِ بْنِ قَهْدٍ، وَهُوَ مِنْ هَذَا الْجِنْسِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ زَجَرَ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، وَبَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْ يَمْنَعُوا أَحَدًا يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ أَيَّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ
جناب یزید بن اسود السوائی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دو آدمیوں سے فرمایا: جب تم اپنی رہائش گاہوں پر نماز پڑھ لو پھر تم (مسجد میں) آؤ جبکہ امام نماز پڑھا رہا ہو تو تم اسے کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرو، وہ تمہارے لئے نفل بن جائے گی۔ میں عنقریب یہ روایت مکمّل بیان کر دوں گا۔ ان شاء اللہ۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اس شخص کو امام کے ساتھ نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے جو نماز فجر اپنی رہائش گاہ پر پڑھ چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ امام کے ساتھ اس کی نماز نفل ہو جائے گی لہٰذا اگر نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز پڑھنے کی مما نعت عام ہوتی، خاص نہ ہوتی تو جو شخص اپنی رہائش گاہ میں فجر پڑھ چکا ہو اُس کے لئے امام کے ساتھ (دوبارہ) نماز فجر کو نفل بناتے ہوئے ادا کرنا جائز نہ ہوتا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث کہ عنقریب تم پر ایسے حکمران اور امراء مقرر ہوں گے جو نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کریں گے، تو تم نماز کو اُس کے وقت پر ادا کرلو اور اُن کے ساتھ اپنی نماز کو نفل شمار کرلو۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب امام نماز عصر، یا نماز فجر، یا دونوں کو مؤخر کرکے ادا کرتا ہو تو آدمی پر واجب ہے کہ وہ دونوں نمازیں ان کے وقت پر ادا کرلے۔ پھر امام کے ساتھ بھی ادا کرلے اور امام کے ساتھ پڑھنے والی نماز کو نفل بنالے۔ اور یہ فجر اور عصر کے بعد نفل نماز ہوگی اور میں اس سے پہلے حضرت قیس بن قہد کی حدیث بھی لکھوا چکا ہوں۔ وہ بھی اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبد مناف اور بنی عبدالمطلب کو منع کیا ہے کہ بیت اللہ میں دن یا رات کی کسی بھی گھڑی میں نماز پڑھنے والے کو روکیں۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 1280
Save to word اعراب
نا عبد الجبار بن العلاء ، واحمد بن منيع ، قالا: حدثنا سفيان ، عن ابي الزبير ، عن عبد الله بن باباه ، عن جبير بن مطعم ، ح وحدثنا محمد بن يحيى ، ومحمد بن رافع ، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، ح وحدثنا احمد بن المقدام ، حدثنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه سمع عبد الله بن باباه يخبر، عن جبير بن مطعم ، عن النبي صلى الله عليه وسلم خبر عطاء هذا:" يا بني عبد مناف، يا بني عبد المطلب، إن كان إليكم من الامر شيء فلا اعرفن ما منعتم احدا يصلي عند هذا البيت اي ساعة شاء من ليل او نهار" هذا لفظ حديث ابن جريج، غير ان احمد بن المقدام قال: إن كان لكم من الامر شيء، وقال: اي ساعة من ليل او نهارنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاءِ ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَاهُ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَابَاهُ يُخْبِرُ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ عَطَاءٍ هَذَا:" يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنْ كَانَ إِلَيْكُمْ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ فَلا أَعْرِفَنَّ مَا مَنَعْتُمْ أَحَدًا يُصَلِّي عِنْدَ هَذَا الْبَيْتِ أَيَّ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ" هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، غَيْرَ أَنَّ أَحْمَدَ بْنَ الْمِقْدَامِ قَالَ: إِنْ كَانَ لَكُمْ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ، وَقَالَ: أَيُّ سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنی عبد مناف، اے بنی عبدالمطلب، اگر تمہیں (بیت اللہ کے انتظام و انصرام میں سے) کچھ ذمہ داری اور اختیار ملا ہے تو مجھے ہر گز یہ اطلاع نہ ملے کہ تم نے کسی شخص کو اس بیت اللہ میں دن یا رات کی کسی گھڑی میں بھی نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ یہ ابن جریج کی روایت کے الفاظ ہیں۔ جبکہ احمد بن مقدام کے الفاظ یہ ہیں کہ اگر تمہیں اس انتظام وانصرام میں سے کچھ ذمہ داری ملی ہے۔ اور کہا کہ رات یا دن کی جس گھڑی میں (چاہے، نماز پڑھ لے۔)

تخریج الحدیث: اسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.