جماع أَبْوَابِ الْأَوْقَاتِ الَّتِي يُنْهَى عَنْ صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فِيهِنَّ ان اوقات کے ابواب کا مجموعہ جن میں نفل نماز پڑھنا منع ہے 809. (576) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ نَهْيَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ نَهْيٌ خَاصٌّ لَا عَامٌّ، اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نمازِ صبح کے بعد طلوع شمس تک اور نماز عصر کے بعد غروب شمس تک نماز پڑھنے سے منع کرنا، یہ ایک خاص ممانعت ہے، عام نہیں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد بعض نفلی نمازوں سے منع کرنا تھا تمام نفلی نمازوں سے منع کرنا مراد نہیں۔ اور گزشتہ باب میں یہ بھی بیان کرچکا ہوں کہ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد فرض نماز سے منع کرنا بھی نہیں تھا
تخریج الحدیث:
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت اس لئے پڑھی تھیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کے بعد کوئی (سنّت یا نفل) نماز نہیں پڑھ سکے تھے۔
تخریج الحدیث: اسناده حسن
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد میرے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا کیں، میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، یہ کونسی نماز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز نہیں پڑھا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس بنی تمیم کا وفد آیا تھا تو اُنہوں نے مجھے ان دو رکعات کی ادائیگی سے مشغول کر دیا تھا جو میں نماز ظہر کے بعد ادا کرتا تھا۔“ میں نے اس روایت کے طرق کتاب الکبیر میں بیان کیے ہیں - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد دو رکعت سنّت ادا کی ہیں - ان دو رکعات کی قضا دیتے ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے بعد پڑھتے تھے - اور اگر عصر کے بعد غروب آفتاب تک تمام نفلی نمازوں کی ادائیگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کی ہوتی تو پھر یہ جائز نہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو دو رکعات ظہر کے بعد پڑھتے تھے ان کی قضا عصر کے بعد دیتے بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو رکعات نفلی عمل پر ہمیشگی اختیار کرتے ہوئے استحباب کے طور پر ادا کی تھیں - کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک افضل ترین عمل ہمیشگی والا ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی عمل کرتے تھے تو اس پر ہمیشگی اختیار کرنا پسند کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دو رکعات کے بارے میں پوچھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر میں عصر کے بعد ادا کیا کرتے تھے۔ تو اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ دو رکعات عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔ پھر ان دو رکعات کی ادا ئیگی سے مشغول ہوگئے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ادا کرنا بھول گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عصر کے بعد ادا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعات کو ہمیشہ ادا کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی (نفل) نماز ادا کرتے تو اس پر ہمیشگی اور دوام اختیار کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
جناب یزید بن اسود السوائی کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دو آدمیوں سے فرمایا: ”جب تم اپنی رہائش گاہوں پر نماز پڑھ لو پھر تم (مسجد میں) آؤ جبکہ امام نماز پڑھا رہا ہو تو تم اسے کے ساتھ نماز پڑھ لیا کرو، وہ تمہارے لئے نفل بن جائے گی۔ میں عنقریب یہ روایت مکمّل بیان کر دوں گا۔ ان شاء اللہ۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں اس شخص کو امام کے ساتھ نماز پڑھنے کا حُکم دیا ہے جو نماز فجر اپنی رہائش گاہ پر پڑھ چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ امام کے ساتھ اس کی نماز نفل ہو جائے گی لہٰذا اگر نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز پڑھنے کی مما نعت عام ہوتی، خاص نہ ہوتی تو جو شخص اپنی رہائش گاہ میں فجر پڑھ چکا ہو اُس کے لئے امام کے ساتھ (دوبارہ) نماز فجر کو نفل بناتے ہوئے ادا کرنا جائز نہ ہوتا۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ احادیث کہ عنقریب تم پر ایسے حکمران اور امراء مقرر ہوں گے جو نمازوں کو ان کے اوقات سے مؤخر کریں گے، تو تم نماز کو اُس کے وقت پر ادا کرلو اور اُن کے ساتھ اپنی نماز کو نفل شمار کرلو۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب امام نماز عصر، یا نماز فجر، یا دونوں کو مؤخر کرکے ادا کرتا ہو تو آدمی پر واجب ہے کہ وہ دونوں نمازیں ان کے وقت پر ادا کرلے۔ پھر امام کے ساتھ بھی ادا کرلے اور امام کے ساتھ پڑھنے والی نماز کو نفل بنالے۔ اور یہ فجر اور عصر کے بعد نفل نماز ہوگی اور میں اس سے پہلے حضرت قیس بن قہد کی حدیث بھی لکھوا چکا ہوں۔ وہ بھی اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عبد مناف اور بنی عبدالمطلب کو منع کیا ہے کہ بیت اللہ میں دن یا رات کی کسی بھی گھڑی میں نماز پڑھنے والے کو روکیں۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی عبد مناف، اے بنی عبدالمطلب، اگر تمہیں (بیت اللہ کے انتظام و انصرام میں سے) کچھ ذمہ داری اور اختیار ملا ہے تو مجھے ہر گز یہ اطلاع نہ ملے کہ تم نے کسی شخص کو اس بیت اللہ میں دن یا رات کی کسی گھڑی میں بھی نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔“ یہ ابن جریج کی روایت کے الفاظ ہیں۔ جبکہ احمد بن مقدام کے الفاظ یہ ہیں کہ ”اگر تمہیں اس انتظام وانصرام میں سے کچھ ذمہ داری ملی ہے۔ اور کہا کہ ”رات یا دن کی جس گھڑی میں (چاہے، نماز پڑھ لے۔)“
تخریج الحدیث: اسناده صحيح
|