نا محمد بن يحيى ، نا ابو معمر ، نا عبد الوارث ، نا حسين المعلم ، عن عبد الله بن بريدة ، عن عبد الله المزني ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صلوا قبل المغرب ركعتين"، ثم قال:" صلوا قبل المغرب ركعتين"، ثم قال عند الثالثة:" لمن شاء" خشي ان يحسبها الناس سنة ، قال ابو بكر: هذا اللفظ من امر المباح إذ لو لم يكن من امر المباح لكان اقل الامر ان يكون سنة إن لم يكن فرضا، ولكنه امر إباحة، وقد كنت اعلمت في غير موضع من كتبنا ان لامر الإباحة علامة متى زجر عن فعل، ثم امر بفعل ما قد زجر عنه، كان ذلك الامر امر إباحة، والنبي صلى الله عليه وسلم قد كان زاجرا عن الصلاة بعد العصر حتى مغرب الشمس على المعنى الذي بينت، فلما امر بالصلاة بعد غروب الشمس صلاة تطوع كان ذلك امر إباحة، وامر الله جل وعلا بالاصطياد عند الإحلال من الإحرام امر إباحة، إذ كان اصطياد صيد البر في الإحرام منهيا عنه، لقوله جل وعلا: غير محلي الصيد وانتم حرم سورة المائدة آية 1، وبقوله: وحرم عليكم صيد البر ما دمتم حرما سورة المائدة آية 96، وبقوله: لا تقتلوا الصيد وانتم حرم سورة المائدة آية 95 فلما امر بعد الإحلال باصطياد صيد البر كان ذلك الامر امر إباحة، قد بينت هذا الجنس في كتاب معاني القرآننَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، نَا أَبُو مَعْمَرٍ ، نَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، نَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلَّوْا قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ"، ثُمَّ قَالَ:" صَلَّوْا قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ"، ثُمَّ قَالَ عِنْدَ الثَّالِثَةِ:" لِمَنْ شَاءَ" خَشِيَ أَنْ يَحْسَبَهَا النَّاسُ سُنَّةً ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذَا اللَّفْظُ مِنْ أَمْرِ الْمُبَاحِ إِذْ لَوْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَمْرِ الْمُبَاحِ لَكَانَ أَقَلُ الأَمْرِ أَنْ يَكُونَ سُنَّةً إِنْ لَمْ يَكُنْ فَرْضًا، وَلَكِنَّهُ أَمْرُ إِبَاحَةٍ، وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمْتُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ كُتُبِنَا أَنَّ لأَمْرَ الإِبَاحَةِ عَلامَةٌ مَتَى زَجَرَ عَنْ فِعْلٍ، ثُمَّ أَمَرَ بِفِعْلِ مَا قَدْ زَجَرَ عَنْهُ، كَانَ ذَلِكَ الأَمْرُ أَمْرَ إِبَاحَةٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ زَاجِرًا عَنِ الصَّلاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى مَغْرِبِ الشَّمْسِ عَلَى الْمَعْنَى الَّذِي بَيَّنْتُ، فَلَمَّا أَمَرَ بِالصَّلاةِ بَعْدَ غُرُوبِ الشَّمْسِ صَلاةَ تَطَوُّعٍ كَانَ ذَلِكَ أَمْرَ إِبَاحَةٍ، وَأَمْرُ اللَّهِ جَلَّ وَعَلا بِالاصْطِيَادِ عِنْدَ الإِحْلالِ مِنَ الإِحْرَامِ أَمْرُ إِبَاحَةٍ، إِذْ كَانَ اصْطِيَادُ صَيْدِ الْبَرِّ فِي الإِحْرَامِ مَنْهِيًّا عَنْهُ، لِقَوْلِهِ جَلَّ وَعَلا: غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ سورة المائدة آية 1، وَبِقَوْلِهِ: وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا سورة المائدة آية 96، وَبِقَوْلِهِ: لا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ سورة المائدة آية 95 فَلَمَّا أَمَرَ بَعْدَ الإِحْلالِ بِاصْطِيَادِ صَيْدِ الْبَرِّ كَانَ ذَلِكَ الأَمْرُ أَمْرَ إِبَاحَةٍ، قَدْ بَيَّنْتُ هَذَا الْجِنْسَ فِي كِتَابِ مَعَانِي الْقُرْآنِ
سیدنا عبداللہ بن مزنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعات پڑھو“ پھر فرمایا: ”مغرب سے پہلے دو رکعات ادا کرو“ پھر تیسری مرتبہ فرمایا: ”جو پڑھنا چاہیے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں لوگ اسے لازمی نہ سمجھ لیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ مباح امر کے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ مباح امر سے نہ ہوتے تو کم از کم سنّت ہوتے، اگرچہ فرض نہ بھی ہوتے، لیکن یہ امر اباحت و جواز کے لئے ہے۔ اور میں اپنی کتابوں کے کئی مقامات پر بیان کر چکا ہوں کہ مباح امر کی علامت یہ ہوتی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام سے منع فرمائیں۔ پھر اسی ممنوع کام کو کرنے کا حُکم دیں تو یہ حُکم مباح ہو گا - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا تھا، اس معنی اور مفہوم پر جسے میں بیان کر چکا ہوں، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروب آفتاب کے بعد نفل نماز پڑھنے کا حُکم دیا تو حُکم اباحت اور جواز کے لئے ہو گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا (حاجی کو) احرام کی پابندیوں سے فارغ ہونے کے بعد شکار کرنے کا حُکم دینا، مباح حُکم ہے کیونکہ حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا ممنوع تھا - اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے «غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ» [ سورۃ المائدہ: 1 ]”جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار کو حلال نہ جانو“ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک کی وجہ سے «وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا» [ سورۃ المائدہ: 96]”اور جب تک تم احرام کی حالت میں ہو تمہارے لئے خشکی کا شکار حرام کیا گیا ہے۔“ اور اس ارشاد باری تعالیٰ کی وجہ سے «لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ» [ سورۃ المائدہ: 95 ]”تم حالت احرام میں شکار کو قتل نہ کرو -“ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ نے احرام کھولنے پر خشکی کا شکار کرنے کا حُکم دیا تو یہ حُکم اباحت و جواز کے لئے ہے - (فرض یا واجب نہیں) میں نے یہ قسم کتاب معانی القرآن میں بیان کی ہے۔