صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ
وضو اور اس کی سنتوں کے ابواب کا مجموعہ
125. ‏(‏ 124‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَعْبَيْنِ اللَّذَيْنِ أُمِرَ الْمُتَوَضِّئُ بِغَسْلِ الرِّجْلَيْنِ إِلَيْهِمَا الْعَظْمَانِ النَّاتِئَانِ فِي جَانِبَيِ الْقَدَمِ لَا الْعَظْمُ الصَّغِيرُ النَّاتِئُ عَلَى ظَهْرِ الْقَدَمِ، عَلَى مَا يَتَوَهَّمُهُ مَنْ يَتَحَذْلَقُ مِمَّنْ لَا يَفْهَمُ الْعِلْمَ، وَلَا لُغَةَ الْعَرَبِ‏.‏
اس بات کی دلیل کا بیان کہ وہ دونوں ٹخنے جہاں تک وضو کرنے والے کو پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا ہے وہ قدم کے دونوں جانب ابھری ہوئی دوہڈیاں ہیں۔ قدم کے اوپر ابھری ہوئی چھوٹی ہڈی مراد نہیں ہے جیسا کہ بعض کم فہم اور عرب لغت نہ جاننے والے شیخی خوروں کو وہم ہوا ہے
حدیث نمبر: 158
Save to word اعراب
نا يونس بن عبد الاعلى الصدفي ، نا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن عطاء بن يزيد اخبره، ان حمران اخبره، ان عثمان دعا يوما وضوءا، فذكر الحديث في صفة وضوء النبي صلى الله عليه وسلم، وقال:" ثم غسل رجله اليمنى إلى الكعبين ثلاث مرات، واليسرى مثل ذلك" . قال ابو بكر: في هذا الخبر دلالة على ان الكعبين هما العظمان الناتئان في جانبي القدم، إذ لو كان العظم الناتئ على ظهر القدم، لكان للرجل اليمنى كعب واحد لا كعباننا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى الصَّدَفِيُّ ، نا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ حُمْرَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُثْمَانَ دَعَا يَوْمًا وَضُوءًا، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ فِي صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَهُ الْيُمْنَى إِلَى الْكَعْبَيْنِ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، وَالْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْكَعْبَيْنِ هُمَا الْعَظْمَانِ النَّاتِئَانِ فِي جَانِبَيِ الْقَدَمِ، إِذْ لَوْ كَانَ الْعَظْمُ النَّاتِئُ عَلَى ظَهَرِ الْقَدَمِ، لَكَانَ لِلرِّجْلِ الْيُمْنَى كَعْبٌ وَاحِدٌ لا كَعْبَانِ
حضرت حمران رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا، پھر اُنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے طریقے کے متعلق حدیث بیان کی، اور فرمایا کہ پھر آپ نے دایاں پاؤں دونوں ٹخنوں تک تین بار دھویا، اور بایاں پاؤں بھی اسی طرح دھویا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ ٹخنے قدم کے دونوں جانب اُبھری ہوئی دو ہڈیاں ہیں کیونکہ اگر ٹخنے سے مراد قدم کے اوپر اُبھری ہوئی ہڈی ہوتی تو دائیں پاؤں کا ایک ہی ٹخنہ ہوتا، دو نہ ہوتے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 159
Save to word اعراب
نا ابو عمار ، نا الفضل بن موسى ، عن زيد بن زياد هو ابن ابي الجعد ، عن جامع بن شداد ، عن طارق المحاربي ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم مر في سوق ذي المجاز، وعليه حلة حمراء، وهو يقول:" يايها الناس، قولوا: لا إله إلا الله تفلحوا" ، ورجل يتبعه يرميه بالحجارة قد ادمى كعبيه وعرقوبيه، وهو يقول: يايها الناس، لا تطيعوه فإنه كذاب، فقلت: من هذا؟ قالوا: غلام بني عبد المطلب، فقلت: من هذا الذي يتبعه يرميه بالحجارة؟ قالوا: هذا عبد العزى ابو لهب. قال ابو بكر: وفي هذا الخبر دلالة ايضا على ان الكعب هو العظم الناتئ في جانبي القدم، إذ الرمية إذا جاءت من وراء الماشي لا تكاد تصيب القدم، إذ الساق مانع ان تصيب الرمية ظهر القدمنا أَبُو عَمَّارٍ ، نا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ زَيْدِ بْنِ زِيَادٍ هُوَ ابْنُ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ طَارِقٍ الْمُحَارِبِيِّ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ فِي سُوقِ ذِي الْمَجَازِ، وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، وَهُوَ يَقُولُ:" يَأَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ تُفْلِحُوا" ، وَرَجُلٌ يَتْبَعُهُ يَرْمِيَهُ بِالْحِجَارَةِ قَدْ أَدْمَى كَعْبَيْهِ وَعُرْقُوبَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: يَأَيُّهَا النَّاسُ، لا تُطِيعُوهُ فَإِنَّهُ كَذَّابٌ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: غُلامُ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا الَّذِي يَتْبَعُهُ يَرْمِيهِ بِالْحِجَارَةِ؟ قَالُوا: هَذَا عَبْدُ الْعُزَّى أَبُو لَهَبٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَفِي هَذَا الْخَبَرِ دَلالَةٌ أَيْضًا عَلَى أَنَّ الْكَعْبَ هُوَ الْعَظْمُ النَّاتِئُ فِي جَانِبَيِ الْقَدَمِ، إِذِ الرَّمْيَةُ إِذَا جَاءَتْ مِنْ وَرَاءِ الْمَاشِي لا تَكَادُ تُصِيبُ الْقَدَمَ، إِذِ السَّاقُ مَانِعٌ أَنْ تُصِيبَ الرَّمْيَةُ ظَهَرَ الْقَدَمِ
سیدنا طارق محاربی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله صل اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذی مجاز بازار سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے تھے- اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، لوگو «‏‏‏‏لَا اِلٰه اِلَّا اللهُ» ‏‏‏‏ کہو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ اور ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مار رہا تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹخنوں اور ایڑیوں کو خون آلود کر دیا تھا، اور وہ کہ رہا تھا کہ اے لوگو، اس کی فرماں برداری نہ کرنا کیونکہ یہ بہت جھوٹا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ عبدالمطلب کے خاندان کا لڑکا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ ان کے پیچھے پیچھے آ کر انہیں پتھر مارنے والا کون ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ عبدالعزیٰ ابولہب ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ٹخنے سے مراد قدم کے دونوں جانب ابھری ہوئی ہڈی ہے۔ کیونکہ پتھر چلنے والے کے پیچھے سے آئے تو وہ قدم کو نہیں لگتا، کیونکہ پنڈلی (پیچھے سے) پھینکی ہوئی چیز کو پاوں پر لگنے سے روکتی ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
حدیث نمبر: 160
Save to word اعراب
نا سلم بن جنادة ، نا وكيع ، عن زكريا بن ابي زائدة ، حدثنا ابو القاسم الجدلي ، قال: سمعت النعمان بن بشير . ح وحدثنا هارون بن إسحاق ، حدثنا ابن ابي غنية ، عن زكريا ، عن ابي القاسم الجدلي ، قال: سمعت النعمان بن بشير ، يقول: اقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه، فقال: " اقيموا صفوفكم، ثلاثا، والله لتقيمن صفوفكم او ليخالفن الله بين قلوبكم" ، قال: فرايت الرجل يكون كعبه بكعب صاحبه، وركبته بركبة صاحبه، ومنكبه بمنكب صاحبه. هذا لفظ حديث وكيع. قال ابو بكر: ابو القاسم الجدلي هذا هو حسين بن الحارث من جديلة قيس، روى عنه زكريا بن ابي زائدة، وابو مالك الاشجعي، وحجاج بن ارطاة، وعطاء بن السائب، عداده في الكوفيين، وفي هذا الخبر ما نفى الشك والارتياب ان الكعب هو العظم الناتئ الذي في جانب القدم، الذي يمكن القائم في الصلاة ان يلزقه بكعب من هو قائم إلى جنبه في الصلاة، والعلم محيط عند من ركب فيه العقل ان المصلين إذا قاموا في الصف، لم يمكن احد منهم إلصاق ظهر قدمه بظهر قدم غيره، وهذا غير ممكن، وما كونه غير ممكن لم يتوهم عاقل كونهنا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، نا وَكِيعٌ ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْجَدَلِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ . ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي غَنِيَّةَ ، عَنْ زَكَرِيَّا ، عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ الْجَدَلِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ ، يَقُولُ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثَلاثًا، وَاللَّهِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ" ، قَالَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَكُونُ كَعْبُهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتُهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ، وَمَنْكِبُهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ. هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ وَكِيعٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَبُو الْقَاسِمِ الْجَدَلِيُّ هَذَا هُوَ حُسَيْنُ بْنُ الْحَارِثِ مِنْ جَدِيلَةَ قَيْسٍ، رَوَى عَنْهُ زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، وَأَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ، وَحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عِدَادُهُ فِي الْكُوفِيِّينَ، وَفِي هَذَا الْخَبَرِ مَا نَفَى الشَّكَّ وَالارْتِيَابَ أَنَّ الْكَعْبَ هُوَ الْعَظْمُ النَّاتِئُ الَّذِي فِي جَانِبِ الْقَدَمِ، الَّذِي يُمْكِنُ الْقَائِمُ فِي الصَّلاةِ أَنْ يَلْزَقَهُ بِكَعْبِ مَنْ هُوَ قَائِمٌ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلاةِ، وَالْعِلْمُ مُحِيطٌ عِنْدَ مَنْ رُكِّبَ فِيهِ الْعَقْلُ أَنَّ الْمُصَلِّينَ إِذَا قَامُوا فِي الصَّفِّ، لَمْ يُمْكِنْ أَحَدٌ مِنْهُمُ إِلْصَاقَ ظَهْرِ قَدَمِهِ بِظَهْرِ قَدِمَ غَيْرِهِ، وَهَذَا غَيْرُ مُمْكِنٍ، وَمَا كَوْنُهُ غَيْرَ مُمْكِنٍ لَمْ يَتَوَهَّمْ عَاقِلٌ كَوْنَهُ
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف اپنے چہرہ انور کے ساتھ متوجہ ہوئے اور فرمایا: اپنی صفیں سیدھی کرلو، تین بار فرمایا: اللہ کی قسم، تم ضرور اپنی صفوں کو سیدھا کرلو وگرنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔ (سیدنا نعمان) فرماتے ہیں کہ (آپ کےارشاد کی تعمیل میں) میں نےدیکھا کہ ایک شخص کا ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ، اس کا گھٹنا اس کے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اس کا کندھا اس کے ساتھی کے کندھے کے ساتھ ملا ہوتا تھا۔ یہ وکیع کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ابو قاسم قبیلہ قیس کے حسین بن حجاج بن ارطاۃ اور عطاء بن سائب نے روایت کی ہے۔ ابو القاسم کا شمار کوفی راویوں میں ہوتا ہے۔ اس حدیث میں ایسی دلیل ہے جس نے شک و شبہ کوختم کردیاہے کہ ٹخنہ پاؤں کی ایک جانب ابھری ہوئی وہ ہڈی ہے جسے نماز پڑھنےوالا اپنے پہلو میں کھڑے نمازی کے ٹخنے کے ساتھ ملا سکتا ہے۔ عقل مند لوگوں کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ نمازی جب صف میں کھٹرے ہوتے ہیں تو ان میں سے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے قدم کے بالائی حصّے کو کسی دوسرے شخص کے قدم کے بالائی حصّے سے ملا لے، یہ نا ممکن ہے۔ لہذا جو چیز ناممکن ہوعقل مند اس کے ممکن ہونے کا خیال نہیں کرتا۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.