جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ وضو اور اس کی سنتوں کے ابواب کا مجموعہ 113. (112) بَابُ كَرَاهَةِ مُعَارَضَةِ خَبَرِ النَّبِيِّ- عَلَيْهِ السَّلَامُ- بِالْقِيَاسِ وَالرَّأْيِ قیاس اور شخصی رائے کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت کرنا مکروہ ہے
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ جب کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کو جان لے تو اُسے قبول کرنا واجب ہے اگر چہ اسے اُس کی عقل و رائے قبول نہ کرے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ» [ سورة الأحزاب ] اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اُس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔
حضرت سالم بن عبدالله اپنے والد محترم سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ تین مرتبہ دھوئے بغیر برتن میں نہ ڈالے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری یا اُس کا ہاتھ کہاں گھومتا رہا تو ایک شخص نے (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) کہا کہ حوض کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اُسے کنکری ماری اور فرمایا، میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حدیث) بیان کرتا ہوں اور تم کہتے ہو کہ حوض کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن لھیعہ جب روایت کرنے میں اکیلا ہو تو وہ اُن راویوں میں سے نہیں جنہوں نے اس روایت کو اس کتاب سے نکالا “ یہ (ابن لھیعہ کی) حدیث اس لیے ذکر کی ہے کہ اس کے ساتھ سند میں جابر بن اسماعیل بھی ہے۔
|