صحيح ابن خزيمه
جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْوُضُوءِ وَسُنَنِهِ
وضو اور اس کی سنتوں کے ابواب کا مجموعہ
125. ( 124) بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْكَعْبَيْنِ اللَّذَيْنِ أُمِرَ الْمُتَوَضِّئُ بِغَسْلِ الرِّجْلَيْنِ إِلَيْهِمَا الْعَظْمَانِ النَّاتِئَانِ فِي جَانِبَيِ الْقَدَمِ لَا الْعَظْمُ الصَّغِيرُ النَّاتِئُ عَلَى ظَهْرِ الْقَدَمِ، عَلَى مَا يَتَوَهَّمُهُ مَنْ يَتَحَذْلَقُ مِمَّنْ لَا يَفْهَمُ الْعِلْمَ، وَلَا لُغَةَ الْعَرَبِ.
اس بات کی دلیل کا بیان کہ وہ دونوں ٹخنے جہاں تک وضو کرنے والے کو پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا ہے وہ قدم کے دونوں جانب ابھری ہوئی دوہڈیاں ہیں۔ قدم کے اوپر ابھری ہوئی چھوٹی ہڈی مراد نہیں ہے جیسا کہ بعض کم فہم اور عرب لغت نہ جاننے والے شیخی خوروں کو وہم ہوا ہے
حدیث نمبر: 159
نا أَبُو عَمَّارٍ ، نا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ زَيْدِ بْنِ زِيَادٍ هُوَ ابْنُ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ ، عَنْ طَارِقٍ الْمُحَارِبِيِّ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ فِي سُوقِ ذِي الْمَجَازِ، وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، وَهُوَ يَقُولُ:" يَأَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا: لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ تُفْلِحُوا" ، وَرَجُلٌ يَتْبَعُهُ يَرْمِيَهُ بِالْحِجَارَةِ قَدْ أَدْمَى كَعْبَيْهِ وَعُرْقُوبَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: يَأَيُّهَا النَّاسُ، لا تُطِيعُوهُ فَإِنَّهُ كَذَّابٌ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: غُلامُ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا الَّذِي يَتْبَعُهُ يَرْمِيهِ بِالْحِجَارَةِ؟ قَالُوا: هَذَا عَبْدُ الْعُزَّى أَبُو لَهَبٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَفِي هَذَا الْخَبَرِ دَلالَةٌ أَيْضًا عَلَى أَنَّ الْكَعْبَ هُوَ الْعَظْمُ النَّاتِئُ فِي جَانِبَيِ الْقَدَمِ، إِذِ الرَّمْيَةُ إِذَا جَاءَتْ مِنْ وَرَاءِ الْمَاشِي لا تَكَادُ تُصِيبُ الْقَدَمَ، إِذِ السَّاقُ مَانِعٌ أَنْ تُصِيبَ الرَّمْيَةُ ظَهَرَ الْقَدَمِ
سیدنا طارق محاربی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله صل اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذی مجاز بازار سے گزرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے تھے- اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، ”لوگو «لَا اِلٰه اِلَّا اللهُ» کہو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ اور ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مار رہا تھا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹخنوں اور ایڑیوں کو خون آلود کر دیا تھا، اور وہ کہ رہا تھا کہ اے لوگو، اس کی فرماں برداری نہ کرنا کیونکہ یہ بہت جھوٹا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ عبدالمطلب کے خاندان کا لڑکا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ ان کے پیچھے پیچھے آ کر انہیں پتھر مارنے والا کون ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ عبدالعزیٰ ابولہب ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ٹخنے سے مراد قدم کے دونوں جانب ابھری ہوئی ہڈی ہے۔ کیونکہ پتھر چلنے والے کے پیچھے سے آئے تو وہ قدم کو نہیں لگتا، کیونکہ پنڈلی (پیچھے سے) پھینکی ہوئی چیز کو پاوں پر لگنے سے روکتی ہے۔
تخریج الحدیث: اسناده صحيح