125. اس بات کی دلیل کا بیان کہ وہ دونوں ٹخنے جہاں تک وضو کرنے والے کو پاؤں دھونے کا حکم دیا گیا ہے وہ قدم کے دونوں جانب ابھری ہوئی دوہڈیاں ہیں۔ قدم کے اوپر ابھری ہوئی چھوٹی ہڈی مراد نہیں ہے جیسا کہ بعض کم فہم اور عرب لغت نہ جاننے والے شیخی خوروں کو وہم ہوا ہے
نا سلم بن جنادة ، نا وكيع ، عن زكريا بن ابي زائدة ، حدثنا ابو القاسم الجدلي ، قال: سمعت النعمان بن بشير . ح وحدثنا هارون بن إسحاق ، حدثنا ابن ابي غنية ، عن زكريا ، عن ابي القاسم الجدلي ، قال: سمعت النعمان بن بشير ، يقول: اقبل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بوجهه، فقال: " اقيموا صفوفكم، ثلاثا، والله لتقيمن صفوفكم او ليخالفن الله بين قلوبكم" ، قال: فرايت الرجل يكون كعبه بكعب صاحبه، وركبته بركبة صاحبه، ومنكبه بمنكب صاحبه. هذا لفظ حديث وكيع. قال ابو بكر: ابو القاسم الجدلي هذا هو حسين بن الحارث من جديلة قيس، روى عنه زكريا بن ابي زائدة، وابو مالك الاشجعي، وحجاج بن ارطاة، وعطاء بن السائب، عداده في الكوفيين، وفي هذا الخبر ما نفى الشك والارتياب ان الكعب هو العظم الناتئ الذي في جانب القدم، الذي يمكن القائم في الصلاة ان يلزقه بكعب من هو قائم إلى جنبه في الصلاة، والعلم محيط عند من ركب فيه العقل ان المصلين إذا قاموا في الصف، لم يمكن احد منهم إلصاق ظهر قدمه بظهر قدم غيره، وهذا غير ممكن، وما كونه غير ممكن لم يتوهم عاقل كونهنا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، نا وَكِيعٌ ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْجَدَلِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ . ح وَحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي غَنِيَّةَ ، عَنْ زَكَرِيَّا ، عَنْ أَبِي الْقَاسِمِ الْجَدَلِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ ، يَقُولُ: أَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: " أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، ثَلاثًا، وَاللَّهِ لَتُقِيمُنَّ صُفُوفَكُمْ أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ" ، قَالَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَكُونُ كَعْبُهُ بِكَعْبِ صَاحِبِهِ، وَرُكْبَتُهُ بِرُكْبَةِ صَاحِبِهِ، وَمَنْكِبُهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ. هَذَا لَفْظُ حَدِيثِ وَكِيعٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَبُو الْقَاسِمِ الْجَدَلِيُّ هَذَا هُوَ حُسَيْنُ بْنُ الْحَارِثِ مِنْ جَدِيلَةَ قَيْسٍ، رَوَى عَنْهُ زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، وَأَبُو مَالِكٍ الأَشْجَعِيُّ، وَحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، وَعَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عِدَادُهُ فِي الْكُوفِيِّينَ، وَفِي هَذَا الْخَبَرِ مَا نَفَى الشَّكَّ وَالارْتِيَابَ أَنَّ الْكَعْبَ هُوَ الْعَظْمُ النَّاتِئُ الَّذِي فِي جَانِبِ الْقَدَمِ، الَّذِي يُمْكِنُ الْقَائِمُ فِي الصَّلاةِ أَنْ يَلْزَقَهُ بِكَعْبِ مَنْ هُوَ قَائِمٌ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلاةِ، وَالْعِلْمُ مُحِيطٌ عِنْدَ مَنْ رُكِّبَ فِيهِ الْعَقْلُ أَنَّ الْمُصَلِّينَ إِذَا قَامُوا فِي الصَّفِّ، لَمْ يُمْكِنْ أَحَدٌ مِنْهُمُ إِلْصَاقَ ظَهْرِ قَدَمِهِ بِظَهْرِ قَدِمَ غَيْرِهِ، وَهَذَا غَيْرُ مُمْكِنٍ، وَمَا كَوْنُهُ غَيْرَ مُمْكِنٍ لَمْ يَتَوَهَّمْ عَاقِلٌ كَوْنَهُ
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف اپنے چہرہ انور کے ساتھ متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اپنی صفیں سیدھی کرلو، تین بار فرمایا: ”اللہ کی قسم، تم ضرور اپنی صفوں کو سیدھا کرلو وگرنہ اللہ تعالی تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔ (سیدنا نعمان) فرماتے ہیں کہ (آپ کےارشاد کی تعمیل میں) میں نےدیکھا کہ ایک شخص کا ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ، اس کا گھٹنا اس کے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اس کا کندھا اس کے ساتھی کے کندھے کے ساتھ ملا ہوتا تھا۔ یہ وکیع کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابو بکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ابو قاسم قبیلہ قیس کے حسین بن حجاج بن ارطاۃ اور عطاء بن سائب نے روایت کی ہے۔ ابو القاسم کا شمار کوفی راویوں میں ہوتا ہے۔ اس حدیث میں ایسی دلیل ہے جس نے شک و شبہ کوختم کردیاہے کہ ٹخنہ پاؤں کی ایک جانب ابھری ہوئی وہ ہڈی ہے جسے نماز پڑھنےوالا اپنے پہلو میں کھڑے نمازی کے ٹخنے کے ساتھ ملا سکتا ہے۔ عقل مند لوگوں کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ نمازی جب صف میں کھٹرے ہوتے ہیں تو ان میں سے کسی کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے قدم کے بالائی حصّے کو کسی دوسرے شخص کے قدم کے بالائی حصّے سے ملا لے، یہ نا ممکن ہے۔ لہذا جو چیز ناممکن ہوعقل مند اس کے ممکن ہونے کا خیال نہیں کرتا۔