كِتَابُ الْقُرْآنِ کتاب: قرآن کے بیان میں 4. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ قرآن کے بیان میں
عبدالرحمٰن بن عبدالقاری سے روایت ہے کہ میں نے سنا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے، کہتے تھے: میں نے ہشام بن حزام کو پڑھتے سنا سورت فرقان کو اور طرح، سوائے اس طریقہ کے جس طرح میں پڑھتا تھا، اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی پڑھایا تھا اس سورت کو، قریب ہوا کہ میں جلدی کر کے اُن پر غصہ نکالوں، لیکن میں چپ رہا یہاں تک کہ وہ فارغ ہوئے نماز سے، تب میں انہی کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر لے آیا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا میں نے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ان کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا اور طور پر، خلاف اس طور کے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھایا ہے، تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”چھوڑ دو ان کو“، پھر فرمایا ان سے: ”پڑھو“، تو پڑھا ہشام نے اسی طور سے جس طرح میں نے ان کو پڑھتے ہوئے سنا تھا، تب فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”اسی طرح اتری ہے یہ سورت“، پھر ارشاد کیا آپ نے مجھ سے: ”تو پڑھ“، پھر میں نے پڑھی، پھر فرمایا: ”قرآن شریف اترا ہے سات حرف پر، تو پڑھو جس طرح سے آسان ہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2419، 4992، 5041، 7550، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 818، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 741، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 937، 938، 939، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1010، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1475، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2943، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4055، وأحمد فى «مسنده» برقم: 277، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20369، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 30751، شركة الحروف نمبر: 434، فواد عبدالباقي نمبر: 15 - كِتَابُ الْقُرْآنِ-ح: 5»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حافظ قرآن کی مثال ایسی ہے کہ جیسے اونٹ والے کی، جب تک اونٹ کو بندھا رکھے گا وہ رہے گا، جب چھوڑ دے گا چلا جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5031، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 789، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 764، 765، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 943، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1016، 7987، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3634، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3783، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4121، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4756، شركة الحروف نمبر: 435، فواد عبدالباقي نمبر: 15 - كِتَابُ الْقُرْآنِ-ح: 6»
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے پوچھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے: کس طرح وحی آتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”کبھی آتی ہے جیسے گھنٹے کی آواز، اور وہ نہایت سخت ہوتی ہے میرے اوپر، پھر جب موقوف ہو جاتی ہے تو میں یاد کر لیتا ہوں جو کہتا ہے، فرشتہ آدمی کی شکل بن کر مجھ سے باتیں کرتا ہے تو میں یاد کر لیتا ہوں جو کہتا ہے۔“ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: جب وحی اترتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت جاڑے کے دنوں میں، پھر جب موقوف ہوتی تھی تو پیشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ بہتا تھا۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2، 3215، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2333، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 38، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5249، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 934، 935، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1007، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3634، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13471، وأحمد فى «مسنده» برقم: 25889، والحميدي فى «مسنده» برقم: 258، والطبراني فى "الكبير"، 3343، شركة الحروف نمبر: 436، فواد عبدالباقي نمبر: 15 - كِتَابُ الْقُرْآنِ-ح: 7»
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، کہا انہوں نے: «﴿عَبَسَ وَتَوَلَّى﴾» اتری ہے سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ میں، وہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہنے لگے: اے محمد! بتاؤ مجھ کو کوئی جگہ قریب اپنے تاکہ بیٹھوں میں وہاں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت ایک شخص بیٹھا تھا بڑے آدمیوں میں سے مشرکوں کے (ابی بن خلف یا عتبہ بن ربیعہ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم توجہ نہ کرتے تھے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف بلکہ متوجہ ہوتے تھے اس شخص کی طرف اور کہتے تھے: ”اے باپ فلاں کے! کیا میں جو کہتا ہوں اس میں کچھ حرج ہے؟“ وہ کہتا تھا: نہیں، قسم ہے بتوں کی! تمہارے کہنے میں کچھ حرج نہیں ہے۔ تب یہ آیتیں اتریں: «﴿عَبَسَ وَتَوَلَّى، أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى﴾» [عبس: 1، 2] ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 535، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3918، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3331، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4848، شركة الحروف نمبر: 437، فواد عبدالباقي نمبر: 15 - كِتَابُ الْقُرْآنِ-ح: 8»
سیدنا اسلم عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سفر میں سوار ہو کر چل رہے تھے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ تھے، پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بات پوچھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، تو جواب نہ دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، پھر پوچھی جب بھی جواب نہ دیا، پھر پوچھی جب بھی جواب نہ دیا، اس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دل میں کہا: کاش تو مر گیا ہوتا اے عمر، تین بار تو نے گڑگڑا کر پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کسی بار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے اپنے اونٹ کو تیز کیا اور آگے بڑھ گیا، لیکن میرے دل میں یہ خوف تھا کہ شاید میرے بارے میں کلام اللہ اُترے گا، تو تھوڑی دیر میں ٹھہرا تھا، اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کو سنا جو مجھ کو پکارتا ہے، اس وقت مجھے اور زیادہ خوف ہوا اس بات کا کہ کلام اللہ میرے باب میں اترا ہو گا، سو آیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور سلام کیا میں نے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دے کر ارشاد فرمایا: ”رات کو میرے اوپر ایک سورت ایسی اتری ہے جو ساری دنیا کی چیزوں سے مجھ کو زیادہ محبوب ہے۔“ پھر پڑھا: «﴿إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا﴾ [الفتح: 1] » ۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4177، 4833، 5012، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6409، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11435، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3262، وأحمد فى «مسنده» برقم: 214، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 148، والبزار فى «مسنده» برقم: 264، 265، شركة الحروف نمبر: 438، فواد عبدالباقي نمبر: 15 - كِتَابُ الْقُرْآنِ-ح: 9»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، فرماتے تھے: ”نکلیں گے تم میں سے کچھ لوگ جو حقیر جانیں گے تمہاری نماز کو اپنی نماز کے مقابلے میں، اور تمہارے روزوں کو اپنے روزوں کے مقابلہ میں، اور تمہارے اعمال کو اپنے اعمال کے مقابلہ میں، پڑھیں گے کلام اللہ کو اور نہ اترے گا ان کے حلقوں کے نیچے، نکل جائیں گے دین سے جیسے نکل جاتا ہے تیر اس جانور میں سے جو شکار کیا جائے آر پار ہو کر صاف، اگر پیکان کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہ پائے، اگر تیر کی لکڑی کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہ پائے، اگر پر کو دیکھے اس میں بھی کچھ نہ پائے، اور سونار میں شک ہو کہ کچھ لگا ہے یا نہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3344، 3610، 4351، 4667، 5058، 6163، 6931، 6932، 6933، 7432، 7562، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1064، 1065، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2373، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 25، 6735، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2665، 2674، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2579، 4114، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2370، 3550، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4667، 4764، 4765، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 169، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13068، وأحمد فى «مسنده» برقم: 11164، والحميدي فى «مسنده» برقم: 766، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1008، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18649، شركة الحروف نمبر: 439، فواد عبدالباقي نمبر: 15 - كِتَابُ الْقُرْآنِ-ح: 10»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سورۂ بقرہ آٹھ برس تک سیکھتے رہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «شعب الايمان» برقم: 1955، 1956
شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے اور شیخ احمد سلیمان نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔، شركة الحروف نمبر: 439، فواد عبدالباقي نمبر: 15 - كِتَابُ الْقُرْآنِ-ح: 11» |