(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، انبانا حبيب بن الشهيد ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، قال: قال عبد الله بن جعفر لابن الزبير:" اتذكر إذ تلقينا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا وانت وابن عباس؟ فقال: نعم، قال: فحملنا وتركك؟ وقال إسماعيل مرة: اتذكر إذ تلقينا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا وانت وابن عباس؟ فقال: نعم، فحملنا وتركك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَنْبَأَنَا حَبِيبُ بْنُ الشَّهِيدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ لِابْنِ الزُّبَيْرِ:" أَتَذْكُرُ إِذْ تَلَقَّيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَنْتَ وَابْنُ عَبَّاسٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَحَمَلَنَا وَتَرَكَكَ؟ وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً: أَتَذْكُرُ إِذْ تَلَقَّيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَنْتَ وَابْنُ عَبَّاسٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَحَمَلَنَا وَتَرَكَكَ.
ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں، آپ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تھی؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اٹھا لیا تھا اور آپ کو چھوڑ دیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا عاصم ، عن مورق العجلي ، عن عبد الله بن جعفر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم من سفر، تلقي بالصبيان من اهل بيته، قال: وإنه قدم مرة من سفر، قال: فسبق بي إليه، قال: فحملني بين يديه، قال: ثم جيء باحد ابني فاطمة، إما حسن، وإما حسين، فاردفه خلفه، قال: فدخلنا المدينة ثلاثة على دابة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ، تُلُقِّيَ بِالصِّبْيَانِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، قَالَ: وَإِنَّهُ قَدِمَ مَرَّةً مِنْ سَفَرٍ، قَالَ: فَسُبِقَ بِي إِلَيْهِ، قَالَ: فَحَمَلَنِي بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: ثُمَّ جِيءَ بِأَحَدِ ابْنَيْ فَاطِمَةَ، إِمَّا حَسَنٍ، وَإِمَّا حُسَيْنٍ، فَأَرْدَفَهُ خَلْفَهُ، قَالَ: فَدَخَلْنَا الْمَدِينَةَ ثَلَاثَةً عَلَى دَابَّةٍ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی سفر سے واپس آتے تو اپنے اہل بیت کے بچوں سے ملاقات فرماتے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس تشریف لائے، سب سے پہلے مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اٹھا لیا، پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے کسی صاحبزادے سیدنا حسن یا سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو لایا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا، اس طرح ہم ایک سواری پر تین آدمی سوار ہو کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا مسعر ، حدثني شيخ من فهم، قال: واظنه يسمى محمد بن عبد الرحمن ، قال: واظنه حجازيا، انه سمع عبد الله بن جعفر , يحدث ابن الزبير، وقد نحرت للقوم جزور او بعير، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم , والقوم يلقون لرسول الله صلى الله عليه وسلم اللحم، يقول:" اطيب اللحم لحم الظهر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ فَهْمٍ، قَالَ: وَأَظُنُّهُ يُسَمَّى مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: وَأَظُنُّهُ حِجَازِيًّا، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ , يُحَدِّثُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، وَقَدْ نُحِرَتْ لِلْقَوْمِ جَزُورٌ أَوْ بَعِيرٌ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالْقَوْمُ يُلْقُونَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّحْمَ، يَقُولُ:" أَطْيَبُ اللَّحْمِ لَحْمُ الظَّهْرِ".
ایک مرتبہ ایک اونٹ ذبح ہوا تو سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ انہوں نے ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو - جبکہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوشت لا کر پیش کر رہے تھے - فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”بہترین گوشت پشت کا ہوتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن عبد الرحمن مجهول.
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا مهدي بن ميمون ، عن محمد بن ابي يعقوب ، عن الحسن بن سعد ، عن عبد الله بن جعفر . ح وحدثنا بهز ، وعفان , قالا: حدثنا مهدي ، حدثنا محمد بن ابي يعقوب ، عن الحسن بن سعد مولى الحسن بن علي، عن عبد الله بن جعفر ، قال: اردفني رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم خلفه، فاسر إلي حديثا لا اخبر به احدا ابدا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم احب ما استتر به في حاجته هدف، او حائش نخل، فدخل يوما حائطا من حيطان الانصار، فإذا جمل قد اتاه فجرجر، وذرفت عيناه، قال بهز , وعفان: فلما راى النبي صلى الله عليه وسلم حن وذرفت عيناه، فمسح رسول الله صلى الله عليه وسلم سراته وذفراه، فسكن , فقال:" من صاحب الجمل؟" , فجاء فتى من الانصار، فقال: هو لي يا رسول الله، فقال:" اما تتقي الله في هذه البهيمة التي ملككها الله، إنه شكا إلي انك تجيعه وتدئبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي يَعْقُوبَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ خَلْفَهُ، فَأَسَرَّ إِلَيَّ حَدِيثًا لَا أُخْبِرُ بِهِ أَحَدًا أَبَدًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ مَا اسْتَتَرَ بِهِ فِي حَاجَتِهِ هَدَفٌ، أَوْ حَائِشُ نَخْلٍ، فَدَخَلَ يَوْمًا حَائِطًا مِنْ حِيطَانِ الْأَنْصَارِ، فَإِذَا جَمَلٌ قَدْ أَتَاهُ فَجَرْجَرَ، وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ، قَالَ بَهْزٌ , وَعَفَّانُ: فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ، فَمَسَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرَاتَهُ وَذِفْرَاهُ، فَسَكَنَ , فَقَالَ:" مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ؟" , فَجَاءَ فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: هُوَ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" أَمَا تَتَّقِي اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهِيمَةِ الَّتِي مَلَّكَكَهَا اللَّهُ، إِنَّهُ شَكَا إِلَيَّ أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْئِبُهُ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے اپنی سواری پر بٹھایا اور میرے ساتھ سرگوشی میں ایسی بات کہی جو میں کسی کو کبھی نہیں بتاؤں گا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ قضاء حاجت کے موقع پر کسی اونچی عمارت یا درختوں کے جھنڈ کی آڑ میں ہو جاتے تھے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پرسکون ہو گیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس اونٹ کا مالک کون ہے؟“ یہ سن کر ایک انصاری نوجوان آگے بڑھا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! یہ میرا اونٹ ہے، فرمایا: ”کیا تم اس جانور کے بارے میں - جو اللہ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے - اللہ سے ڈرتے نہیں؟ یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس سے محنت و مشقت کا کام زیادہ لیتے ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، انبانا حماد بن سلمة ، قال: رايت ابن ابي رافع يتختم في يمينه، فسالته عن ذلك، فذكر انه راى عبد الله بن جعفر يتختم في يمينه، وقال عبد الله بن جعفر : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يتختم في يمينه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي رَافِعٍ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَذَكَرَ أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَتَخَتَّمُ فِي يَمِينِهِ".
حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی رافع کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہن رکھی ہے، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کو دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنے ہوئے دیکھا ہے، اور ان کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کو نماز میں شک ہو جائے، اسے چاہیے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن مسافع لا يعرف بجرح ولا تعديل ومصعب بن شيبة لين الحديث. عقبة والصواب: عتبة بن محمد بن الحارث ليس بمعروف. ثم هو مضطرب، يقول مرة: «وهو جالس» ، ويقول مرة أخرى: «بعد مايسلم.» ويغني عنه حديث أبى هريرة ، خ: 1231 ، 1232، م: 389.
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کسی شخص کو چھینک آئے تو وہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہے، سننے والا «يَرْحَمُكَ اللّٰهُ» کہے اور چھینکنے والا پھر «يَهْدِيكُمُ اللّٰهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ» کہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف ، ابن لهيعة ضعيف وعبيد بن أم كلب لم يذكر فيه جرح ولا تعديل.
(حديث مرفوع) حدثنا نصر بن باب ، عن حجاج ، عن قتادة ، عن عبد الله بن جعفر ، انه قال: إن آخر ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في إحدى يديه رطبات، وفي الاخرى قثاء، وهو ياكل من هذه ويعض من هذه، وقال:" إن اطيب الشاة لحم الظهر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ بَابٍ ، عَنْ حَجَّاجٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ آخِرَ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِحْدَى يَدَيْهِ رُطَبَاتٌ، وَفِي الْأُخْرَى قِثَّاءٌ، وَهُوَ يَأْكُلُ مِنْ هَذِهِ وَيَعَضُّ مِنْ هَذِهِ، وَقَالَ:" إِنَّ أَطْيَبَ الشَّاةِ لَحْمُ الظَّهْرِ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری کیفیت جو میں نے دیکھی، وہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہاتھ میں تر کھجوریں تھیں اور دوسرے میں ککڑی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے کھجور کھاتے اور اس سے ککڑی کاٹتے، اور فرمایا کہ ”بہترین گوشت پشت کا ہوتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً. نصر بن باب ضعيف جداً وحجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن وقتادة لم يسمع من أحد من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم إلا من أنس وأبي الطفيل.
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت محمد بن ابي يعقوب يحدث، عن الحسن بن سعد ، عن عبد الله بن جعفر ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم جيشا استعمل عليهم زيد بن حارثة , وقال:" فإن قتل زيد او استشهد فاميركم جعفر، فإن قتل او استشهد فاميركم عبد الله بن رواحة"، فلقوا العدو، فاخذ الراية زيد فقاتل حتى قتل، ثم اخذ الراية جعفر فقاتل حتى قتل، ثم اخذها عبد الله بن رواحة فقاتل حتى قتل، ثم اخذ الراية خالد بن الوليد ففتح الله عليه، واتى خبرهم النبي صلى الله عليه وسلم فخرج إلى الناس , فحمد الله واثنى عليه، وقال:" إن إخوانكم لقوا العدو، وإن زيدا اخذ الراية فقاتل حتى قتل او استشهد، ثم اخذ الراية بعده جعفر بن ابي طالب فقاتل حتى قتل او استشهد، ثم اخذ الراية عبد الله بن رواحة فقاتل حتى قتل او استشهد، ثم اخذ الراية سيف من سيوف الله خالد بن الوليد ففتح الله عليه"، فامهل ثم امهل آل جعفر ثلاثا ان ياتيهم، ثم اتاهم فقال:" لا تبكوا على اخي بعد اليوم او غد، ادعوا لي ابني اخي"، قال: فجيء بنا كانا افرخ، فقال:" ادعوا لي الحلاق"، فجيء بالحلاق فحلق رءوسنا، ثم قال: اما محمد فشبيه عمنا ابي طالب، واما عبد الله فشبيه خلقي وخلقي، ثم اخذ بيدي، فاشالها، فقال:" اللهم اخلف جعفرا في اهله، وبارك لعبد الله في صفقة يمينه"، قالها ثلاث مرار، قال: فجاءت امنا، فذكرت له يتمنا، وجعلت تفرح له، فقال:" العيلة تخافين عليهم وانا وليهم في الدنيا والآخرة؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي يَعْقُوبَ يُحَدِّثُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا اسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ , وَقَالَ:" فَإِنْ قُتِلَ زَيْدٌ أَوْ اسْتُشْهِدَ فَأَمِيرُكُمْ جَعْفَرٌ، فَإِنْ قُتِلَ أَوْ اسْتُشْهِدَ فَأَمِيرُكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ"، فَلَقُوا الْعَدُوَّ، فَأَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ جَعْفَرٌ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَأَتَى خَبَرُهُمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَى النَّاسِ , فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ:" إِنَّ إِخْوَانَكُمْ لَقُوا الْعَدُوَّ، وَإِنَّ زَيْدًا أَخَذَ الرَّايَةَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ أَوْ اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ بَعْدَهُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ أَوْ اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ أَوْ اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ"، فَأَمْهَلَ ثُمَّ أَمْهَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ يَأْتِيَهُمْ، ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَالَ:" لَا تَبْكُوا عَلَى أَخِي بَعْدَ الْيَوْمِ أَوْ غَدٍ، ادْعُوا لِي ابْنَيْ أَخِي"، قَالَ: فَجِيءَ بِنَا كَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ:" ادْعُوا لِيَّ الْحَلَّاقَ"، فَجِيءَ بِالْحَلَّاقِ فَحَلَقَ رُءُوسَنَا، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا مُحَمَّدٌ فَشَبِيهُ عَمِّنَا أَبِي طَالِبٍ، وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَشَبِيهُ خَلْقِي وَخُلُقِي، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَأَشَالَهَا، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِي أَهْلِهِ، وَبَارِكْ لِعَبْدِ اللَّهِ فِي صَفْقَةِ يَمِينِهِ"، قَالَهَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَجَاءَتْ أُمُّنَا، فَذَكَرَتْ لَهُ يُتْمَنَا، وَجَعَلَتْ تُفْرِحُ لَهُ، فَقَالَ:" الْعَيْلَةَ تَخَافِينَ عَلَيْهِمْ وَأَنَا وَلِيُّهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس کا امیر سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، ان کی شہادت کی صورت میں سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو، اور ان کی شہادت کی صورت میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا، دشمن سے آمنا سامنا ہوا، سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا ہاتھ میں پکڑ کر اس بےجگری سے جنگ کی کہ شہید ہو گئے، پھر سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے جھنڈا ہاتھ میں لے کر قتال شروع کیا لیکن وہ بھی شہید ہو گئے، پھر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا ہاتھ میں لے کر جنگ شروع کی لیکن وہ بھی شہید ہو گئے، پھر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لیا اور ان کے ہاتھ پر اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس تشریف لائے، اللہ کی حمد و ثناء کی اور فرمایا: ”تمہارے بھائیوں کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا، زید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑ کر قتال شروع کیا اور شہید ہو گئے، ان کے بعد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑ کر جنگ شروع کی اور وہ بھی شہید ہو گئے، پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا تھاما اور قتال شروع کیا لیکن وہ بھی شہید ہو گئے، اس کے بعد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑ کر جنگ شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطاء فرمائی۔“ پھر تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا، میرے دونوں بھتیجوں کو میرے پاس لاؤ۔“ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، ہم اس وقت چوزوں کی طرح تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نائی کو بلانے کے لئے حکم دیا، اس نے آکر ہمارے سر مونڈے، پھر فرمایا: ”ان میں سے محمد تو ہمارے چچا ابوطالب کے مشابہ ہے، اور عبداللہ صورت و سیرت میں میرے مشابہ ہے۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور دعا فرمائی: «اَللّٰهُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِي أَهْلِهِ وَبَارِكْ لِعَبْدِ اللّٰهِ فِي صَفْقَةِ يَمِينِهِ»”اے اللہ! جعفر کے اہل خانہ کو اس کا نعم البدل عطاء فرما، اور عبداللہ کے دائیں ہاتھ کے معاملے میں برکت عطاء فرما۔“ یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی۔ اتنی دیر میں ہماری والدہ بھی آگئیں اور ہماری یتیمی اور اپنے غم کا اظہار کرنے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں ان پر فقر و فاقہ کا اندیشہ ہے؟ میں دنیا و آخرت میں ان بچوں کا سرپرست ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، حدثنا جعفر بن خالد ، عن ابيه ، عن عبد الله بن جعفر ، قال: لما جاء نعي جعفر حين قتل، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اصنعوا لآل جعفر طعاما، فقد اتاهم امر يشغلهم او اتاهم ما يشغلهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ حِينَ قُتِلَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَقَدْ أَتَاهُمْ أَمْرٌ يَشْغَلُهُمْ أَوْ أَتَاهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آل جعفر کے لئے کھانا تیار کرو کیونکہ انہیں ایسی خبر سننے کو ملی ہے جس میں انہیں کسی کام کا ہوش نہیں ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کو نماز میں شک ہو جائے، اسے چاہیے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت محمد بن ابي يعقوب يحدث، عن الحسن بن سعد ، عن عبد الله بن جعفر ، قال: ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم بغلته، واردفني خلفه، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا تبرز كان احب ما تبرز فيه هدف يستتر به او حائش نخل، فدخل حائطا لرجل من الانصار فإذا فيه ناضح له، فلما راى النبي صلى الله عليه وسلم حن وذرفت عيناه، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم فمسح ذفراه وسراته، فسكن , فقال:" من رب هذا الجمل؟" , فجاء شاب من الانصار فقال: انا، فقال:" الا تتقي الله في هذه البهيمة التي ملكك الله إياها، فإنه شكاك إلي وزعم انك تجيعه وتدئبه"، ثم ذهب رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحائط، فقضى حاجته ثم توضا، ثم جاء والماء يقطر من لحيته على صدره، فاسر إلي شيئا لا احدث به احدا، فحرجنا عليه ان يحدثنا، فقال: لا افشي على رسول الله صلى الله عليه وسلم سره حتى القى الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي يَعْقُوبَ يُحَدِّثُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَتَهُ، وَأَرْدَفَنِي خَلْفَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَبَرَّزَ كَانَ أَحَبَّ مَا تَبَرَّزَ فِيهِ هَدَفٌ يَسْتَتِرُ بِهِ أَوْ حَائِشُ نَخْلٍ، فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ فَإِذَا فِيهِ نَاضِحٌ لَهُ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ وَسَرَاتَهُ، فَسَكَنَ , فَقَالَ:" مَنْ رَبُّ هَذَا الْجَمَلِ؟" , فَجَاءَ شَابٌّ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: أَنَا، فَقَالَ:" أَلَا تَتَّقِي اللَّهَ فِي هَذِهِ الْبَهِيمَةِ الَّتِي مَلَّكَكَ اللَّهُ إِيَّاهَا، فَإِنَّهُ شَكَاكَ إِلَيَّ وَزَعَمَ أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْئِبُهُ"، ثُمَّ ذَهَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَائِطِ، فَقَضَى حَاجَتَهُ ثُمَّ تَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ وَالْمَاءُ يَقْطُرُ مِنْ لِحْيَتِهِ عَلَى صَدْرِهِ، فَأَسَرَّ إِلَيَّ شَيْئًا لَا أُحَدِّثُ بِهِ أَحَدًا، فَحَرَّجْنَا عَلَيْهِ أَنْ يُحَدِّثَنَا، فَقَالَ: لَا أُفْشِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ.
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے اپنی سواری پر بٹھا لیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ قضاء حاجت کے موقع پر کسی اونچی عمارت یا درختوں کے جھنڈ کی آڑ میں ہو جاتے تھے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پر سکون ہو گیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اس اونٹ کا مالک کون ہے؟“ یہ سن کر ایک انصاری نوجوان آگے بڑھا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! یہ میرا اونٹ ہے، فرمایا کہ ”کیا تم اس جانور میں - جو اللہ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے - اللہ سے ڈرتے نہیں؟ یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور اس سے محنت و مشقت کا کام زیادہ لیتے ہو۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں گئے اور قضاء حاجت فرمائی، پھر وضو کر کے واپس آئے تو پانی کے قطرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے سینہ مبارک پر ٹپک رہے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے راز کی ایک بات فرمائی جو میں کسی سے کبھی بیان نہ کروں گا۔ ہم نے انہیں وہ بات بتانے پر بہت اصرار کیا لیکن انہوں نے کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا راز افشاں نہیں کروں گا یہاں تک کہ اللہ سے جا ملوں۔
ابن ابی رافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور ان کے بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا المسعودي ، حدثنا شيخ قدم علينا من الحجاز , قال: شهدت عبد الله بن الزبير، وعبد الله بن جعفر بالمزدلفة، فكان ابن الزبير يحز اللحم لعبد الله بن جعفر، فقال عبد الله بن جعفر , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" اطيب اللحم لحم الظهر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، حَدَّثَنَا شَيْخٌ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنَ الْحِجَازِ , قَالَ: شَهِدْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ بِالْمُزْدَلِفَةِ، فَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَحُزُّ اللَّحْمَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" أَطْيَبُ اللَّحْمِ لَحْمُ الظَّهْرِ".
حجاز کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ میں سیدنا عبداللہ بن زبیر اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کے ساتھ موجود تھا، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ گوشت کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو دے رہے تھے، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”پشت کا گوشت بہترین ہوتا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی نبی کے لئے یہ مناسب نہیں کہ یوں کہے کہ میں حضرت یونس علیہ السلام بن متی سے بہتر ہوں۔“ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف. محمد بن اسحاق مدلس وقد عنعن.
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں لکڑی کے بنے ہوئے ایک ایسے محل کی خوشخبری دوں جس میں کوئی شور و شغب ہوگا اور نہ ہی کسی قسم کا تعب۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثني مسعر ، عن شيخ من فهم، قال: سمعت عبد الله بن جعفر ، قال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلحم، فجعل القوم يلقونه اللحم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن اطيب اللحم لحم الظهر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنِي مِسْعَرٌ ، عَنْ شَيْخٍ مِنْ فَهْمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ، فَجَعَلَ الْقَوْمُ يُلَقُّونَهُ اللَّحْمَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَطْيَبَ اللَّحْمِ لَحْمُ الظَّهْرِ".
(ایک مرتبہ ایک اونٹ ذبح ہوا تو) سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ انہوں نے ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو - جبکہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوشت لاکر پیش کر رہے تھے - فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”بہترین گوشت پشت کا ہوتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا ابن جريج ، اخبرني جعفر بن خالد ابن سارة ، ان اباه اخبره، ان عبد الله بن جعفر ، قال: لو رايتني وقثم , وعبيد الله ابني عباس، ونحن صبيان نلعب، إذ مر النبي صلى الله عليه وسلم على دابة، فقال:" ارفعوا هذا إلي"، قال: فحملني امامه، وقال لقثم:" ارفعوا هذا إلي"، فجعله وراءه، وكان عبيد الله احب إلى عباس من قثم، فما استحى من عمه ان حمل قثما وتركه، قال: ثم مسح على راسي ثلاثا، وقال كلما مسح:" اللهم اخلف جعفرا في ولده"، قال: قلت لعبد الله: ما فعل قثم؟ قال: استشهد، قال: قلت: الله اعلم بالخير ورسوله بالخير، قال: اجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ خَالِدِ ابْنِ سَارَّةَ ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ ، قَالَ: لَوْ رَأَيْتَنِي وَقُثَمَ , وَعُبَيْدَ اللَّهِ ابني عباس، ونحن صبيان نلعب، إذ مر النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى دَابَّةٍ، فَقَالَ:" ارْفَعُوا هَذَا إِلَيَّ"، قَالَ: فَحَمَلَنِي أَمَامَهُ، وَقَالَ لِقُثَمَ:" ارْفَعُوا هَذَا إِلَيَّ"، فَجَعَلَهُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ عُبَيْدُ اللَّهِ أَحَبَّ إِلَى عَبَّاسٍ مِنْ قُثَمَ، فَمَا اسْتَحَى مِنْ عَمِّهِ أَنْ حَمَلَ قُثَمًا وَتَرَكَهُ، قَالَ: ثُمَّ مَسَحَ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثًا، وَقَالَ كُلَّمَا مَسَحَ:" اللَّهُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِي وَلَدِهِ"، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: مَا فَعَلَ قُثَمُ؟ قَالَ: اسْتُشْهِدَ، قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ وَرَسُولُهُ بِالْخَيْرِ، قَالَ: أَجَلْ.
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کاش! تم نے اس وقت مجھے اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے دو بیٹوں قثم اور عبیداللہ کو دیکھا ہوتا جب کہ ہم بچے آپس میں کھیل رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی سواری پر وہاں سے گذر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس بچے کو اٹھا کر مجھے پکڑاؤ“ اور اٹھا کر مجھے اپنے آگے بٹھا لیا، پھر قثم کو پکڑانے کے لئے کہا اور انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا، جبکہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی نظروں میں قثم سے زیادہ عبیداللہ محبوب تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا سے اس معاملے میں کوئی عار محسوس نہ ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قثم کو اٹھا لیا اور عبیداللہ کو چھوڑ دیا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: ”اے اللہ! جعفر کا اس کی اولاد کے لئے کوئی نعم البدل عطاء فرما۔“ راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قثم کا کیا بنا؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ شہید ہو گئے، میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی خیر کو بہتر طور پر جانتے ہیں، انہوں نے فرمایا: بالکل ایسا ہی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کو نماز میں شک ہو جائے، اسے چاہیے کہ وہ بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابن ابي رافع ، عن عبد الله بن جعفر ، انه زوج ابنته من الحجاج بن يوسف، فقال لها:" إذا دخل بك فقولي لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، وزعم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا حزبه امر , قال هذا"، قال حماد: فظننت انه قال: فلم يصل إليها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، أَنَّهُ زَوَّجَ ابْنَتَهُ مِنَ الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ، فَقَالَ لَهَا:" إِذَا دَخَلَ بِكِ فَقُولِي لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَزَعَمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ , قَالَ هَذَا"، قَالَ حَمَّادٌ: فَظَنَنْتُ أَنَّهُ قَالَ: فَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهَا.
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنی صاحبزادی کا نکاح حجاج بن یوسف سے کر دیا اور اس سے فرمایا کہ جب وہ تمہارے پاس آئے تو تم یوں کہہ لینا: «لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ سُبْحَانَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ»”اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ بردبار اور سخی ہے، اللہ جو عرش عظیم کا رب ہے، ہر عیب سے پاک ہے، تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کو پالنے والا ہے۔“ اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی کلمات کہتے تھے۔ حماد کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ راوی نے یہ بھی کہا کہ حجاج ان تک پہنچ نہیں سکا۔