مسند احمد
مسنَد اَهلِ البَیتِ رِضوَان اللَّهِ عَلَیهِم اَجمَعِینَ
0
22. حَدِیث عَبدِ اللَّهِ بنِ جَعفَرِ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنهمَا
0
حدیث نمبر: 1750
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي يَعْقُوبَ يُحَدِّثُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا اسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ , وَقَالَ:" فَإِنْ قُتِلَ زَيْدٌ أَوْ اسْتُشْهِدَ فَأَمِيرُكُمْ جَعْفَرٌ، فَإِنْ قُتِلَ أَوْ اسْتُشْهِدَ فَأَمِيرُكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ"، فَلَقُوا الْعَدُوَّ، فَأَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ جَعْفَرٌ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَأَتَى خَبَرُهُمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَى النَّاسِ , فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ:" إِنَّ إِخْوَانَكُمْ لَقُوا الْعَدُوَّ، وَإِنَّ زَيْدًا أَخَذَ الرَّايَةَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ أَوْ اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ بَعْدَهُ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ أَوْ اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ أَوْ اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ أَخَذَ الرَّايَةَ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ"، فَأَمْهَلَ ثُمَّ أَمْهَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلَاثًا أَنْ يَأْتِيَهُمْ، ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَالَ:" لَا تَبْكُوا عَلَى أَخِي بَعْدَ الْيَوْمِ أَوْ غَدٍ، ادْعُوا لِي ابْنَيْ أَخِي"، قَالَ: فَجِيءَ بِنَا كَأَنَّا أَفْرُخٌ، فَقَالَ:" ادْعُوا لِيَّ الْحَلَّاقَ"، فَجِيءَ بِالْحَلَّاقِ فَحَلَقَ رُءُوسَنَا، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا مُحَمَّدٌ فَشَبِيهُ عَمِّنَا أَبِي طَالِبٍ، وَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَشَبِيهُ خَلْقِي وَخُلُقِي، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَأَشَالَهَا، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِي أَهْلِهِ، وَبَارِكْ لِعَبْدِ اللَّهِ فِي صَفْقَةِ يَمِينِهِ"، قَالَهَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَجَاءَتْ أُمُّنَا، فَذَكَرَتْ لَهُ يُتْمَنَا، وَجَعَلَتْ تُفْرِحُ لَهُ، فَقَالَ:" الْعَيْلَةَ تَخَافِينَ عَلَيْهِمْ وَأَنَا وَلِيُّهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس کا امیر سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، ان کی شہادت کی صورت میں سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کو، اور ان کی شہادت کی صورت میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا، دشمن سے آمنا سامنا ہوا، سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا ہاتھ میں پکڑ کر اس بےجگری سے جنگ کی کہ شہید ہو گئے، پھر سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے جھنڈا ہاتھ میں لے کر قتال شروع کیا لیکن وہ بھی شہید ہو گئے، پھر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا ہاتھ میں لے کر جنگ شروع کی لیکن وہ بھی شہید ہو گئے، پھر سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اپنے ہاتھ میں لیا اور ان کے ہاتھ پر اللہ نے مسلمانوں کو فتح عطاء فرمائی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس تشریف لائے، اللہ کی حمد و ثناء کی اور فرمایا: ”تمہارے بھائیوں کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا، زید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑ کر قتال شروع کیا اور شہید ہو گئے، ان کے بعد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑ کر جنگ شروع کی اور وہ بھی شہید ہو گئے، پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا تھاما اور قتال شروع کیا لیکن وہ بھی شہید ہو گئے، اس کے بعد اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑ کر جنگ شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطاء فرمائی۔“ پھر تین دن بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا، میرے دونوں بھتیجوں کو میرے پاس لاؤ۔“ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، ہم اس وقت چوزوں کی طرح تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نائی کو بلانے کے لئے حکم دیا، اس نے آکر ہمارے سر مونڈے، پھر فرمایا: ”ان میں سے محمد تو ہمارے چچا ابوطالب کے مشابہ ہے، اور عبداللہ صورت و سیرت میں میرے مشابہ ہے۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور دعا فرمائی: «اَللّٰهُمَّ اخْلُفْ جَعْفَرًا فِي أَهْلِهِ وَبَارِكْ لِعَبْدِ اللّٰهِ فِي صَفْقَةِ يَمِينِهِ» ”اے اللہ! جعفر کے اہل خانہ کو اس کا نعم البدل عطاء فرما، اور عبداللہ کے دائیں ہاتھ کے معاملے میں برکت عطاء فرما۔“ یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائی۔ اتنی دیر میں ہماری والدہ بھی آگئیں اور ہماری یتیمی اور اپنے غم کا اظہار کرنے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں ان پر فقر و فاقہ کا اندیشہ ہے؟ میں دنیا و آخرت میں ان بچوں کا سرپرست ہوں۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح.