(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن سليمان يعني التيمي ، عن ابي عثمان ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، قال:" جاء ابو بكر رضي الله عنه بضيف له او باضياف له، قال: فامسى عند النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فلما امسى، قالت له امي: احتبست، عن ضيفك، او اضيافك منذ الليلة، قال: اما عشيتهم؟ قالت: لا، قالت: قد عرضت ذاك عليه او عليهم فابوا او فابى، قال: فغضب ابو بكر، وحلف ان لا يطعمه، وحلف الضيف، او الاضياف، ان لا يطعموه حتى يطعمه، فقال ابو بكر: إن كانت هذه من الشيطان، قال: فدعا بالطعام، فاكل واكلوا، قال: فجعلوا لا يرفعون لقمة إلا ربت من اسفلها اكثر منها، فقال: يا اخت بني فراس، ما هذا؟ قال: فقالت: قرة عيني، إنها الآن لاكثر منها قبل ان ناكل، قال: فاكلوا وبعث بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر، انه اكل منها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي التَّيْمِيَّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ:" جَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِضَيْفٍ لَهُ أَوْ بِأَضْيَافٍ لَهُ، قَالَ: فَأَمْسَى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَى، قَالَتْ لَهُ أُمِّي: احْتَبَسْتَ، عَنْ ضَيْفِكَ، أَوْ أَضْيَافِكَ مُنْذُ اللَّيْلَةِ، قَالَ: أَمَا عَشَّيْتِهِمْ؟ قَالَتْ: لَا، قَالَتْ: قَدْ عَرَضْتُ ذَاكَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا أَوْ فَأَبَى، قَالَ: فَغَضِبَ أَبُو بَكْرٍ، وَحَلَفَ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ، وَحَلَفَ الضَّيْفُ، أَوْ الْأَضْيَافُ، أَنْ لَا يَطْعَمُوهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنْ كَانَتْ هَذِهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، قَالَ: فَدَعَا بِالطَّعَامِ، فَأَكَلَ وَأَكَلُوا، قَالَ: فَجَعَلُوا لَا يَرْفَعُونَ لُقْمَةً إِلَّا رَبَتْ مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا، فَقَالَ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ، مَا هَذَا؟ قَالَ: فَقَالَتْ: قُرَّةُ عَيْنِي، إِنَّهَا الْآنَ لَأَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ أَنْ نَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلُوا وَبَعَثَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ، أَنَّهُ أَكَلَ مِنْهَا".
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کچھ مہمانوں کو لے کر آئے، خود انہوں نے شام کا وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گذارا، رات کو جب وہ واپس آئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ آج رات آپ اپنے مہمانوں کو بھول کر کہاں رہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا: نہیں! میں نے تو ان کے سامنے کھانا لاکر پیش کر دیا تھا لیکن انہوں نے ہی کھانے سے انکار کر دیا، اس پر وہ ناراض ہو گئے اور قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ وہ اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کھائیں گے، جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو شیطان کی طرف سے ہو گیا ہے۔ پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور خود بھی کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، یہ لوگ جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے، اس میں نیچے سے مزید اضافہ ہو جاتا تھا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا: اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! یہ تو اصل مقدار سے بھی زیادہ ہو گیا ہے، چنانچہ ان سب نے یہ کھانا کھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھجوایا، اور راوی نے ذکر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کھانے کو تناول فرمایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، عن ابيه ، عن ابي عثمان ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، انه قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثين ومائة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هل مع احد منكم طعام؟" , فإذا مع رجل صاع من طعام او نحوه، فعجن، ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ابيعا ام عطية؟ او قال ام هدية؟"، قال: لا، بل بيع، فاشترى منه شاة، فصنعت، وامر النبي صلى الله عليه وسلم بسواد البطن ان يشوى، قال: وايم الله، ما من الثلاثين والمائة، إلا قد حز رسول الله صلى الله عليه وسلم حزة من سواد بطنها، إن كان شاهدا اعطاها إياه، وإن كان غائبا خبا له، قال: وجعل منها قصعتين، قال: فاكلنا اجمعون وشبعنا، وفضل في القصعتين، فجعلناه على البعير، او كما قال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ؟" , فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ، فَعُجِنَ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً؟ أَوْ قَالَ أَمْ هَدِيَّةً؟"، قَالَ: لَا، بَلْ بَيْعٌ، فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً، فَصُنِعَتْ، وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى، قَالَ: وَايْمُ اللَّهِ، مَا مِنَ الثَّلَاثِينَ وَالْمِائَةِ، إِلَّا قَدْ حَزَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا، إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ، قَالَ: وَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ، قَالَ: فَأَكَلْنَا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا، وَفَضَلَ فِي الْقَصْعَتَيْنِ، فَجَعَلْنَاهُ عَلَى الْبَعِيرِ، أَوْ كَمَا قَالَ.
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سو تیس آدمی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ کھانا ہے؟“ ایک آدمی کے پاس سے ایک صاع آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، اتنی دیر میں ایک موٹا تازہ لمبا تڑنگا مشرک ایک بکری ہانکتا ہوا لایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ”یہ بیچنے کے لئے لائے ہو یا ہدیہ کے طور پر لائے ہو؟“ اس نے کہا کہ بیچنے کے لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وہ بکری خرید لی اور اسے بھی تیار کیا جانے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ حکم بھی دیا کہ ”اس کی کلیجی بھون لی جائے۔“ واللہ! ہم ایک سو تیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی کی بوٹی کاٹ کر نہ دی ہو، جو موجود تھے انہیں اسی وقت اور جو موجود نہیں تھے ان کے لئے بچا کر رکھ لی، پھر دو بڑے پیالوں میں کھانا نکالا، ہم سب نے کھایا اور خوب سیر ہو کر کھایا لیکن پیالوں میں پھر بھی کچھ بچ گیا، ہم نے اسے اپنے اونٹ پر لاد لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، وعفان ، قالا: حدثنا معتمر بن سليمان ، قال عفان في حديثه , قال: سمعت ابي ، حدثنا ابو عثمان , انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان اصحاب الصفة كانوا اناسا فقراء، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال مرة:" من كان عنده طعام اثنين، فليذهب بثالث"، وقال عفان: بثلاثة، ومن كان عنده طعام اربعة، فليذهب بخامس سادس"، او كما قال , وان ابا بكر جاء بثلاثة، وانطلق النبي صلى الله عليه وسلم بعشرة، وابو بكر بثلاثة، قال عفان: بسادس.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِه , قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ , أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ مَرَّةً:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ، فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ"، وَقَالَ عَفَّانُ: بِثَلَاثَةٍ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ، فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ سَادِسٍ"، أَوْ كَمَا قَالَ , وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ، وَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ، قَالَ عَفَّانُ: بِسَادِسٍ.
سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے پیچھے بٹھا کر تنعیم لے جاؤں اور انہیں عمرہ کرا لاؤں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن بكر السهمي ، حدثنا هشام بن حسان ، عن القاسم بن مهران ، عن موسى بن عبيد ، عن ميمون بن مهران ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" إن ربي اعطاني سبعين الفا من امتي يدخلون الجنة بغير حساب"، فقال عمر: يا رسول الله، فهلا استزدته؟، قال:" قد استزدته، فاعطاني مع كل رجل سبعين الفا"، قال عمر: فهلا استزدته؟ قال:" قد استزدته، فاعطاني هكذا" , وفرج عبد الله بن بكر بين يديه، وقال عبد الله: وبسط باعيه، وحثا عبد الله، وقال هشام: وهذا من الله لا يدرى ما عدده.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدٍ ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِنَّ رَبِّي أَعْطَانِي سَبْعِينَ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ"، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلَّا اسْتَزَدْتَهُ؟، قَالَ:" قَدْ اسْتَزَدْتُهُ، فَأَعْطَانِي مَعَ كُلِّ رَجُلٍ سَبْعِينَ أَلْفًا"، قَالَ عُمَرُ: فَهَلَّا اسْتَزَدْتَهُ؟ قَالَ:" قَدْ اسْتَزَدْتُهُ، فَأَعْطَانِي هَكَذَا" , وَفَرَّجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَبَسَطَ بَاعَيْهِ، وَحَثَا عَبْدُ اللَّهِ، وقَالَ هِشَامٌ: وَهَذَا مِنَ اللَّهِ لَا يُدْرَى مَا عَدَدُهُ.
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے رب نے میری امت میں سے مجھے ستر ہزار ایسے افراد عطاء کئے ہیں جو جنت میں بلا حساب کتاب داخل ہوں گے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اس سے زائد کی درخواست نہیں کی؟ فرمایا: ”میں نے درخواست کی تھی جس پر اللہ نے مجھے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ مزید ستر ہزار عطاء فرما دیئے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اس سے زائد کی درخواست نہیں کی؟ فرمایا: ”میں نے درخواست کی تھی جس پر اللہ نے مجھے اتنے اور افراد عطاء فرمائے۔“ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ پھیلا دیئے، جس کی وضاحت کرتے ہوئے راوی کہتے ہیں کہ اتنی بڑی تعداد جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، القاسم بن مهران لايعرف وموسى بن عبيد مجهول. وقوله: «إن ربي أعطاني ..... بغير حساب» صحيح لغيره.
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا يزيد ، انبانا صدقة بن موسى ، عن ابي عمران الجوني ، عن قيس بن زيد ، عن قاضي المصرين وهو شريح , والمصران: البصرة , والكوفة، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل ليدعو بصاحب الدين يوم القيامة، فيقيمه بين يديه، فيقول اي عبدي، فيم اذهبت مال الناس؟ فيقول اي رب؟ قد علمت، اني لم افسده، إنما ذهب في غرق، او حرق او سرقة او وضيعة، فيدعو الله عز وجل بشيء فيضعه في ميزانه، فترجح حسناته".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَنْبَأَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ قَاضِي الْمِصْرَيْنِ وَهُوَ شُرَيْحٌ , وَالْمِصْرَانِ: الْبَصْرَةُ , وَالْكُوفَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَدْعُو بِصَاحِبِ الدَّيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُقِيمُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَيَقُولُ أَيْ عَبْدِي، فِيمَ أَذْهَبْتَ مَالَ النَّاسِ؟ فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ؟ قَدْ عَلِمْتَ، أَنِّي لَمْ أُفْسِدْهُ، إِنَّمَا ذَهَبَ فِي غَرَقٍ، أَوْ حَرَقٍ أَوْ سَرِقَةٍ أَوْ وَضِيعَةٍ، فَيَدْعُو اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِشَيْءٍ فَيَضَعُهُ فِي مِيزَانِهِ، فَتَرْجَحُ حَسَنَاتُهُ".
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقروض کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کریں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ ”بندے! تو نے لوگوں کا مال کہاں اڑایا؟“ وہ عرض کرے گا: پروردگار! آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے اسے یونہی برباد نہیں کیا، بلکہ وہ تو سمندر میں ڈوب کر، جل کر، چوری ہو کر یا ٹیکسوں کی ادائیگی میں ضائع ہو گیا۔ یہ سن کر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کے میزان عمل میں رکھ دیں گے جس سے اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو کر جھک جائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، صدقة بن موسي ضعيف وقيس بن زيد مجهول.
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا عبد الصمد ، حدثنا صدقة ، حدثنا ابو عمران ، حدثني قيس بن زيد ، عن قاضي المصرين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" يدعو الله بصاحب الدين يوم القيامة حتى يوقف بين يديه، فيقال: يا ابن آدم، فيم اخذت هذا الدين، وفيم ضيعت حقوق الناس؟ فيقول: يا رب، إنك تعلم اني اخذته فلم آكل، ولم اشرب، ولم البس ولم اضيع، ولكن اتى على يدي إما حرق، وإما سرق، وإما وضيعة، فيقول الله عز وجل: صدق عبدي , انا احق من قضى عنك اليوم فيدعو الله بشيء، فيضعه في كفة ميزانه، فترجح حسناته على سيئاته، فيدخل الجنة بفضل رحمته".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ قَاضِي الْمِصْرَيْنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" يَدْعُو اللَّهُ بِصَاحِبِ الدَّيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُوقَفَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَيُقَالُ: يَا ابْنَ آدَمَ، فِيمَ أَخَذْتَ هَذَا الدَّيْنَ، وَفِيمَ ضَيَّعْتَ حُقُوقَ النَّاسِ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي أَخَذْتُهُ فَلَمْ آكُلْ، وَلَمْ أَشْرَبْ، وَلَمْ أَلْبَسْ وَلَمْ أُضَيِّعْ، وَلَكِنْ أَتَى عَلَى يَدَيَّ إِمَّا حَرَقٌ، وَإِمَّا سَرَقٌ، وَإِمَّا وَضِيعَةٌ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: صَدَقَ عَبْدِي , أَنَا أَحَقُّ مَنْ قَضَى عَنْكَ الْيَوْمَ فَيَدْعُو اللَّهُ بِشَيْءٍ، فَيَضَعُهُ فِي كِفَّةِ مِيزَانِهِ، فَتَرْجَحُ حَسَنَاتُهُ عَلَى سَيِّئَاتِهِ، فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ".
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقروض کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کریں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ ”بندے! تو نے لوگوں سے قرض لے کر ان کا مال کہاں اڑایا؟“ وہ عرض کرے گا: پروردگار! آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے اسے لیا تھا لیکن میں اسے کھا سکا اور نہ پی سکا، میں اسے پہن بھی نہیں سکا اور یونہی برباد نہیں کیا، بلکہ وہ تو سمندر میں ڈوب کر، جل کر، چوری ہو کر یا ٹیکسوں کی ادائیگی میں ضائع ہو گیا۔ یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ”میرے بندے نے سچ کہا، میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ آج تمہاری طرف تمہارا قرض ادا کروں“، پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کے میزان عمل میں رکھ دیں گے جس سے اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو کر جھک جائے گا، اور وہ اللہ کے فضل سے جنت میں داخل ہوجائے گا۔“
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ”اس اونٹنی پر سوار ہو، پیچھے اپنی بہن کو بٹھاؤ، جب تنعیم کے ٹیلے سے اترو تو تلبیہ و احرام کر کے واپس آ جاؤ یعنی عمرہ کرا لاؤ۔“ یہ موقع لیلۃ الصدر کا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، خ: 1784، م: 1212 دون قوله «فأهلا وأقبلا» . وهذا إسناد ضعيف لجهالة الراوي الذي سمع عبدالرحمن بن ابي بكر .
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ”اس اونٹنی پر سوار ہو، پیچھے اپنی بہن کو بٹھاؤ، جب تنعیم کے ٹیلے سے اترو تو تلبیہ و احرام کر کے واپس آجاؤ یعنی عمرہ کرا لاؤ، کہ یہ مقبول عمرہ ہوگا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، عن ابيه ، عن ابي عثمان ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، انه قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثين ومائة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هل مع احد منكم طعام؟ فإذا مع رجل صاع من طعام او نحوه، فعجن، ثم جاء رجل مشرك مشعان طويل بغنم يسوقها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ابيعا ام عطية؟ او قال ام هبة؟"، قال: لا، بل بيع فاشترى منه شاة، فصنعت، وامر نبي الله صلى الله عليه وسلم بسواد البطن ان يشوى، قال: وايم الله ما من الثلاثين والمائة إلا قد حز رسول الله صلى الله عليه وسلم له حزة من سواد بطنها، إن كان شاهدا اعطاه إياه، وإن كان غائبا خبا له، قال: وجعل منها قصعتين، قال: فاكلنا اجمعون، وشبعنا، وفضل في القصعتين فحملناه على بعير، او كما قال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ؟ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ، فَعُجِنَ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً؟ أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةً؟"، قَالَ: لَا، بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً، فَصُنِعَتْ، وَأَمَرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى، قَالَ: وَايْمُ اللَّهِ مَا مِنَ الثَّلَاثِينَ وَالْمِائَةِ إِلَّا قَدْ حَزَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا، إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ، قَالَ: وَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ، قَالَ: فَأَكَلْنَا أَجْمَعُونَ، وَشَبِعْنَا، وَفَضَلَ فِي الْقَصْعَتَيْنِ فَحَمَلْنَاهُ عَلَى بَعِيرٍ، أَوْ كَمَا قَالَ.
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سو تیس آدمی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی کے پاس کچھ کھانا ہے؟“ ایک آدمی کے پاس سے ایک صاع آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، اتنی دیر میں ایک موٹا تازہ لمبا تڑنگا مشرک ایک بکری ہانکتا ہوا لایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ ”یہ بیچنے کے لئے لائے ہو یا ہدیہ کے طور پر لائے ہو؟“ اس نے کہا کہ بیچنے کے لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وہ بکری خرید لی اور اسے بھی تیار کیا جانے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ حکم بھی دیا کہ ”اس کی کلیجی بھون لی جائے۔“ واللہ! ہم ایک سو تیس آدمیوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کلیجی کی بوٹی کاٹ کر نہ دی ہو، جو موجود تھے انہیں اسی وقت اور جو موجود نہیں تھے ان کے لئے بچا کر رکھ لی، پھر دو بڑے پیالوں میں کھانا نکالا، ہم سب نے کھایا اور خوب سیر ہو کر کھایا لیکن پیالوں میں پھر بھی کچھ بچ گیا، ہم نے اسے اپنے اونٹ پر لاد لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عارم ، حدثنا معتمر بن سليمان ، عن ابيه ، حدثنا ابو عثمان ، انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان اصحاب الصفة كانوا اناسا فقراء، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال مرة:" من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث، من كان عنده طعام اربعة فليذهب بخامس بسادس"، او كما قال , وان ابا بكر جاء بثلاثة، فانطلق نبي الله صلى الله عليه وسلم بعشرة، وابو بكر بثلاثة، قال: فهو انا، وابي وامي، ولا ادري، هل قال: وامراتي وخادم بين بيتنا وبيت ابي بكر، وإن ابا بكر تعشى عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم لبث حتى صليت العشاء , ثم رجع فلبث حتى نعس رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجاء بعدما مضى من الليل ما شاء الله , قالت له امراته: ما حبسك عن اضيافك او قالت ضيفك؟ قال: اوما عشيتهم؟ قالت: ابوا حتى تجيء , قد عرضوا عليهم فغلبوهم , قال: فذهبت انا فاختبات , وقال: يا عنتر او يا غنثر فجدع وسب , وقال: كلوا لا هنيا , وقال: والله لا اطعمه ابدا , قال: وحلف الضيف ان لا يطعمه حتى يطعمه ابو بكر قال: فقال ابو بكر: هذه من الشيطان , قال: فدعا بالطعام فاكل , قال: فايم الله ما كنا ناخذ من لقمة إلا ربا من اسفلها اكثر منها , قال: حتى شبعوا وصارت اكثر مما كانت قبل ذلك , فنظر إليها ابو بكر فإذا هي كما هي او اكثر , فقال لامراته: يا اخت بني فراس ما هذا: قالت: لا وقرة عيني , لهي الآن اكثر منها قبل ذلك بثلاث مرار , فاكل منها ابو بكر وقال: إنما كان ذلك من الشيطان يعني: يمينه , ثم اكل لقمة ثم حملها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاصبحت عنده , قال: وكان بيننا وبين قوم عقد فمضى الاجل , فعرفنا اثني عشر رجلا مع كل رجل اناس , الله اعلم كم مع كل رجل غير انه بعث معهم فاكلوا منها اجمعون , او كما قال.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ مَرَّةً:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ، مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ"، أَوْ كَمَا قَالَ , وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ، فَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ، قَالَ: فَهُوَ أَنَا، وَأَبِي وَأُمِّي، وَلَا أَدْرِي، هَلْ قَالَ: وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صَلَّيْتُ الْعِشَاءَ , ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَ بَعْدَمَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ , قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ؟ قَالَ: أَوَمَا عَشَّيْتِهِمْ؟ قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ , قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ , قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ , وقَالَ: يَا عُنتَرُ أَوْ يَا غنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ , وَقَالَ: كُلُوا لَا هَنِيًّا , وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا , قَالَ: وَحَلَفَ الضَّيْفُ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ مِنَ الشَّيْطَانِ , قَالَ: فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ , قَالَ: فَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا , قَالَ: حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ , فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ , فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا: قَالَتْ: لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي , لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ , فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي: يَمِينَهُ , ثُمَّ أَكَلَ لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ , قَالَ: وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ , فَعَرَّفْنَا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ أُنَاسٌ , اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ , أَوْ كَمَا قَالَ.
سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا، اس دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کا وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گذارا، رات کو جب وہ واپس آئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ آج رات آپ اپنے مہمانوں کو بھول کر کہاں رہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا: نہیں! میں نے تو ان کے سامنے کھانا لاکر پیش کر دیا تھا لیکن انہوں نے ہی کھانے سے انکار کر دیا، میں جا کر ایک جگہ چھپ گیا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے سخت سست کہتے ہوئے آوازیں دیں، پھر مہمانوں سے فرمایا: کھاؤ، تم نے اچھا نہیں کیا، اور قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ وہ اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کھائیں گے، جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو شیطان کی طرف سے ہو گیا ہے۔ پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور خود بھی کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، یہ لوگ جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے، اس میں نیچے سے مزید اضافہ ہو جاتا تھا، حتی کہ وہ سب سیراب ہو گئے اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا: اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! یہ تو اصل مقدار سے بھی تین گنا زیادہ ہو گیا ہے، چنانچہ ان سب نے یہ کھانا کھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھجوایا، اور راوی نے ذکر کیا کہ ہمارے اور ایک قوم کے درمیان ایک معاہدہ تھا، اس کی مدت ختم ہو گئی، ہم نے بارہ آدمیوں کو چوہدری مقرر کیا جن میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ آدمی تھے، جن کی صحیح تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے، التبہ یہ واضح ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ شامل تھے، اور ان سب نے بھی اس کھانے کو کھایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا معتمر بن سليمان ، قال: سمعت ابي ، يقول: حدثنا ابو عثمان ، انه حدثه عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان اصحاب الصفة كانوا اناسا فقراء، وان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" من كان عنده طعام اثنين فليذهب بثلاثة، ومن كان عنده طعام اربعة فليذهب بخامس بسادس"، او كما قال وان ابا بكر جاء بثلاثة , وانطلق نبي الله صلى الله عليه وسلم بعشرة، قال: فهو وانا وابي وامي ولا ادري، هل قال: امراتي وخادم بين بيتنا وبيت ابي بكر رضي الله تعالى عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُول: حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَلَاثَةٍ، وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ"، أَوْ كَمَا قَالَ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ , وَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، قَالَ: فَهُوَ وَأَنَا وَأَبِي وَأُمِّي وَلَا أَدْرِي، هَلْ قَالَ: امْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ.
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین، (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا۔