مسند احمد
مسند الصحابة بعد العشرة
0
14. حَدِیث عَبدِ الرَّحمَنِ بنِ اَبِی بَكر رَضِیَ اللَّه عَنه
0
حدیث نمبر: 1712
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَارِمٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ مَرَّةً:" مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ، مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ أَرْبَعَةٍ فَلْيَذْهَبْ بِخَامِسٍ بِسَادِسٍ"، أَوْ كَمَا قَالَ , وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلَاثَةٍ، فَانْطَلَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، وَأَبُو بَكْرٍ بِثَلَاثَةٍ، قَالَ: فَهُوَ أَنَا، وَأَبِي وَأُمِّي، وَلَا أَدْرِي، هَلْ قَالَ: وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَ بَيْتِنَا وَبَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ لَبِثَ حَتَّى صَلَّيْتُ الْعِشَاءَ , ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى نَعَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَ بَعْدَمَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ , قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: مَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ أَوْ قَالَتْ ضَيْفِكَ؟ قَالَ: أَوَمَا عَشَّيْتِهِمْ؟ قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ , قَدْ عَرَضُوا عَلَيْهِمْ فَغَلَبُوهُمْ , قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ , وقَالَ: يَا عُنتَرُ أَوْ يَا غنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ , وَقَالَ: كُلُوا لَا هَنِيًّا , وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ أَبَدًا , قَالَ: وَحَلَفَ الضَّيْفُ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ أَبُو بَكْرٍ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ مِنَ الشَّيْطَانِ , قَالَ: فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ , قَالَ: فَايْمُ اللَّهِ مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرَ مِنْهَا , قَالَ: حَتَّى شَبِعُوا وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ , فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ , فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا: قَالَتْ: لَا وَقُرَّةِ عَيْنِي , لَهِيَ الْآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلَاثِ مِرَارٍ , فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ يَعْنِي: يَمِينَهُ , ثُمَّ أَكَلَ لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ , قَالَ: وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضَى الْأَجَلُ , فَعَرَّفْنَا اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا مَعَ كُلِّ رَجُلٍ أُنَاسٌ , اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ غَيْرَ أَنَّهُ بَعَثَ مَعَهُمْ فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ , أَوْ كَمَا قَالَ.
سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ تنگدست لوگ تھے، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ اپنے ساتھ تیسرے کو لے جائے، جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں چھٹے کو لے جائے۔“ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ تین آدمیوں کو لے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے گھر میں میرے علاوہ والدین (غالبا بیوی کا بھی ذکر کیا) اور ایک خادم رہتا تھا جو ہمارے درمیان مشترک تھا، اس دن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام کا وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گذارا، رات کو جب وہ واپس آئے تو والدہ نے ان سے کہا کہ آج رات آپ اپنے مہمانوں کو بھول کر کہاں رہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے انہیں رات کا کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا: نہیں! میں نے تو ان کے سامنے کھانا لاکر پیش کر دیا تھا لیکن انہوں نے ہی کھانے سے انکار کر دیا، میں جا کر ایک جگہ چھپ گیا، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے سخت سست کہتے ہوئے آوازیں دیں، پھر مہمانوں سے فرمایا: کھاؤ، تم نے اچھا نہیں کیا، اور قسم کھائی کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے، مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ وہ اس وقت تک نہیں کھائیں گے جب تک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کھائیں گے، جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو شیطان کی طرف سے ہو گیا ہے۔ پھر انہوں نے کھانا منگوایا اور خود بھی کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا، یہ لوگ جو لقمہ بھی اٹھاتے تھے، اس میں نیچے سے مزید اضافہ ہو جاتا تھا، حتی کہ وہ سب سیراب ہو گئے اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ رہا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے فرمایا: اے بنو فراس کی بہن! یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا: اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! یہ تو اصل مقدار سے بھی تین گنا زیادہ ہو گیا ہے، چنانچہ ان سب نے یہ کھانا کھایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھجوایا، اور راوی نے ذکر کیا کہ ہمارے اور ایک قوم کے درمیان ایک معاہدہ تھا، اس کی مدت ختم ہو گئی، ہم نے بارہ آدمیوں کو چوہدری مقرر کیا جن میں سے ہر ایک کے ساتھ کچھ آدمی تھے، جن کی صحیح تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے، التبہ یہ واضح ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ شامل تھے، اور ان سب نے بھی اس کھانے کو کھایا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6141، م: 2057.