(حديث قدسي) حدثنا حدثنا عبد الصمد ، حدثنا صدقة ، حدثنا ابو عمران ، حدثني قيس بن زيد ، عن قاضي المصرين ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" يدعو الله بصاحب الدين يوم القيامة حتى يوقف بين يديه، فيقال: يا ابن آدم، فيم اخذت هذا الدين، وفيم ضيعت حقوق الناس؟ فيقول: يا رب، إنك تعلم اني اخذته فلم آكل، ولم اشرب، ولم البس ولم اضيع، ولكن اتى على يدي إما حرق، وإما سرق، وإما وضيعة، فيقول الله عز وجل: صدق عبدي , انا احق من قضى عنك اليوم فيدعو الله بشيء، فيضعه في كفة ميزانه، فترجح حسناته على سيئاته، فيدخل الجنة بفضل رحمته".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ قَاضِي الْمِصْرَيْنِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" يَدْعُو اللَّهُ بِصَاحِبِ الدَّيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُوقَفَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَيُقَالُ: يَا ابْنَ آدَمَ، فِيمَ أَخَذْتَ هَذَا الدَّيْنَ، وَفِيمَ ضَيَّعْتَ حُقُوقَ النَّاسِ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي أَخَذْتُهُ فَلَمْ آكُلْ، وَلَمْ أَشْرَبْ، وَلَمْ أَلْبَسْ وَلَمْ أُضَيِّعْ، وَلَكِنْ أَتَى عَلَى يَدَيَّ إِمَّا حَرَقٌ، وَإِمَّا سَرَقٌ، وَإِمَّا وَضِيعَةٌ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: صَدَقَ عَبْدِي , أَنَا أَحَقُّ مَنْ قَضَى عَنْكَ الْيَوْمَ فَيَدْعُو اللَّهُ بِشَيْءٍ، فَيَضَعُهُ فِي كِفَّةِ مِيزَانِهِ، فَتَرْجَحُ حَسَنَاتُهُ عَلَى سَيِّئَاتِهِ، فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ".
سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مقروض کو بلا کر اپنے سامنے کھڑا کریں گے اور اس سے پوچھیں گے کہ ”بندے! تو نے لوگوں سے قرض لے کر ان کا مال کہاں اڑایا؟“ وہ عرض کرے گا: پروردگار! آپ تو جانتے ہیں کہ میں نے اسے لیا تھا لیکن میں اسے کھا سکا اور نہ پی سکا، میں اسے پہن بھی نہیں سکا اور یونہی برباد نہیں کیا، بلکہ وہ تو سمندر میں ڈوب کر، جل کر، چوری ہو کر یا ٹیکسوں کی ادائیگی میں ضائع ہو گیا۔ یہ سن کر اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ”میرے بندے نے سچ کہا، میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں کہ آج تمہاری طرف تمہارا قرض ادا کروں“، پھر اللہ تعالیٰ کوئی چیز منگوا کر اس کے میزان عمل میں رکھ دیں گے جس سے اس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہو کر جھک جائے گا، اور وہ اللہ کے فضل سے جنت میں داخل ہوجائے گا۔“