كِتَابُ الْفِتَنِ فتنوں کا بیان سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت و عظمت کا بیان
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو عرب کے لوگ مرتد ہو گئے، اور منافق اپنی گردن اٹھائے اپنے لیے موقع و محل دیکھ رہے تھے، میرے باپ پر وہ مصیبت آن پڑی کہ اگر مضبوط چٹانوں پر آتی تو وہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتیں۔ اور کہتی ہیں کہ لوگوں نے جس نقطے میں بھی اختلاف کیا میرا باپ اس کا حصّہ اور اس کا پھل لے کر اڑ گیا۔ پھر میں نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگیں: وہ بڑے ہوشیار اور تیز تھے، اور وہ اکیلے ہی نہایت اعلیٰ طریق سے معاملے کا تانا بانا تیار کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ معاملات کے لیے ایسے ہی بے نظیر سردار تیار کیے ہیں۔ ریاشی کہتے ہیں: وہ بندہ جس کی کوئی مثال نہ ہو اسے «”نسیج وحدہ“» کہا جاتا ہے، اسی طرح «عيير وحده» اور «جحيش وحده» بھی کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک شاعر نے کہا: اس کی ماں اس کو اس طرح لاتی کہ وہ اپنی چادر کی پگڑی باندھے ہوئے تھا، وہ بہت تیز ہے اور سب کام اکیلے ہی انجام دینے والا ہے۔ قیس اپنے جوڑ سے سب کا دفاع کرتا ہے۔ جس بہادر کو ملتا ہے اس پر چڑھ دوڑتا ہے۔ ریاشی کہتے ہیں: اصمعی نے یہ شعر کہا: کیا وجہ یہ نیند مجھے خوش رکھتی ہے، میں اسے ہٹاتا ہوں مگر وہ مجھ پر جلدی کرتی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16949، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38210، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 4318، 4913، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 1051، 1051 م، 1051 م 1
قال الهيثمي: ورجال أحدها ثقات، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (9 / 50)» حكم: إسناده صحيح
|