حدثنا عبد الله بن محمد بن عزيز الموصلي ، ببغداد، حدثنا غسان بن الربيع ، حدثنا يوسف بن عبدة ، حدثنا حميد الطويل ، وثابت البناني ، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال:"كانت الاوس والخزرج حيين من الانصار، وكانت بينهما عداوة في الجاهلية، فلما قدم عليهم رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ذهب ذلك، فالف الله بينهم، فبينما هم قعود في مجلس لهم إذ تمثل رجل من الاوس ببيت شعر فيه هجاء للخزرج وتمثل رجل من الخزرج ببيت شعر فيه هجاء للاوس فلم يزالوا هذا يتمثل ببيت وهذا يتمثل ببيت حتى وثب بعضهم إلى بعض، واخذوا اسلحتهم، وانطلقوا للقتال، فبلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، وانزل عليه الوحي، فجاء مسرعا قد حسر ساقيه، فلما رآهم ناداهم: يايها الذين آمنوا اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وانتم مسلمون سورة آل عمران آية 102 حتى فرغ من الآيات، فوحشوا باسلحتهم، فرموا بها، واعتنق بعضهم بعضا يبكون"، لم يروه عن ثابت، وحميد، إلا يوسف بن عبدة. تفرد به غسان حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُزَيْزٍ الْمَوْصِلِيُّ ، بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عَبْدَةَ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ ، وَثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:"كَانَتِ الأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ حيين من الأنصار، وكانت بينهما عداوة في الجاهلية، فلما قدم عليهم رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ ذَلِكَ، فَأَلَّفَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ، فَبَيْنَمَا هُمْ قُعُودٌ فِي مَجْلِسٍ لَهُمْ إِذْ تَمَثَّلَ رَجُلٌ مِنَ الأَوْسِ بِبَيْتِ شِعْرٍ فِيهِ هِجَاءٌ لِلْخَزْرَجِ وَتَمَثَّلَ رَجُلٌ مِنَ الْخَزْرَجِ بِبَيْتِ شِعْرٍ فِيهِ هِجَاءٌ لِلأَوْسِ فَلَمْ يَزَالُوا هَذَا يَتَمَثَّلُ بِبَيْتٍ وَهَذَا يَتَمَثَّلُ بِبَيْتٍ حَتَّى وَثَبَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَأَخَذُوا أَسْلِحَتَهُمْ، وَانْطَلَقُوا لِلْقِتَالِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، وَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْي، فَجَاءَ مُسْرِعًا قَدْ حَسَرَ سَاقَيْهِ، فَلَمَّا رَآهُمْ نَادَاهُمْ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 102 حَتَّى فَرَغَ مِنَ الآيَاتِ، فَوَحَّشُوا بِأَسْلِحَتِهِمْ، فَرَمَوْا بِهَا، وَاعْتَنَقَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا يَبْكُونَ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ ثَابِتٍ، وَحُمَيْدٍ، إِلا يُوسُفُ بْنُ عَبْدَةَ. تَفَرَّدَ بِهِ غَسَّانُ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اوس اور خزرج دو قبیلے انصار کے تھے، ان میں جاہلیت کے دور سے عداوت تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہ دشمنی ان سے چلی گئی اور اللہ نے ان میں الفت ڈال دی۔ ایک دفعہ وہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اوس کے ایک آدمی نے ایک شعر کہا جس میں خزرج کی توہین تھی، اور خزرج کے ایک آدمی نے اسی طرح شعر کہا جس میں اوس کی توہین تھی، تو اس طرح شعروں کی مثالیں بیان کرتے رہے یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے پر کود پڑے، پھر انہوں نے ہتھیار لے لیے اور جنگ کے لیے باہر نکل آئے، یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی اور وحی بھی آپ پر نازل ہو گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے نکلے حالانکہ آپ کی پنڈلیاں ابھی ننگی تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو بلایا: «﴿يٰأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهِ وَ لَا تَمُوْتُنَّ إِلَّا وَ أَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾»”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے اور مسلمان ہو کر ہی تم مرو۔“ جب آیات پڑھ کر فارغ ہوئے تو انہوں نے ہتھیار اتار دیئے اور ایک دوسرے سے روتے ہوۓ گلے مل گئے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، وأخرجه الطبراني فى «الصغير» برقم: 602 قال الهيثمي: فيه غسان بن الربيع وهو ضعيف، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (8 / 80)»