حدثنا محمد بن عبد الله القرمطي من ولد عامر بن ربيعة، ببغداد، حدثنا يحيى بن سليمان بن نضلة الخزاعي ، حدثنا عمي محمد بن نضلة ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جده علي بن الحسين ، حدثتني ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وآله وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم"بات عندها في ليلتها، فقام يتوضا للصلاة، فسمعته يقول في متوضئه: لبيك لبيك ثلاثا، نصرت نصرت، ثلاثا، فلما خرج، قلت: يا رسول الله، سمعتك تقول في متوضئك: لبيك لبيك ثلاثا، نصرت نصرت، ثلاثا، كانك تكلم إنسانا، فهل كان معك احد؟ فقال: هذا راجز بني كعب يستصرخني، ويزعم ان قريشا اعانت عليهم بني بكر، ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فامر عائشة ان تجهزه، ولا تعلم احدا، قالت: فدخل عليها ابو بكر، فقال: يا بنية، ما هذا الجهاز؟ فقالت: والله ما ادري، فقال: والله ما هذا زمان غزو بني الاصفر، فاين يريد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم؟ قالت: والله لا علم لي، قالت: فاقمنا ثلاثا، ثم صلى الصبح بالناس، فسمعت الراجز ينشده: يا رب إني ناشد محمدا حلف ابينا وابيه الاتلدا إنا ولدناك وكنت ولدا ثمة اسلمنا، ولم ننزع يدا إن قريشا اخلفوك الموعدا ونقضوا ميثاقك المؤكدا وزعموا ان لست تدعو احدا فانصر هداك الله نصرا ايدا وادع عباد الله ياتوا مددا فيهم رسول الله قد تجردا إن سيم خسفا وجهه تربدا فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لبيك لبيك ثلاثا، نصرت نصرت، ثلاثا، ثم خرج النبي صلى الله عليه وآله وسلم، فلما كان بالروحاء نظر إلى سحاب منتصب، فقال: إن السحاب هذا لينتصب بنصر بني كعب، فقام رجل من بني عدي بن عمرو اخو بني كعب بن عمرو، فقال: يا رسول الله، ونصر بني عدي؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ترب نحرك، وهل عدي إلا كعب، وكعب إلا عدي، فاستشهد ذلك الرجل في ذلك السفر، ثم قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: اللهم اعم عليهم خبرنا حتى ناخذهم بغتة، ثم خرج حتى نزل بمرو، وكان ابو سفيان بن حرب، وحكيم بن حزام، وبديل بن ورقاء، خرجوا تلك الليلة حتى اشرفوا على مرو، فنظر ابو سفيان إلى النيران، فقال: يا بديل، هذه نار بني كعب اهلك، فقال: جاشتها إليك الحرب، فاخذتهم مزينة تلك الليلة، وكانت عليهم الحراسة، فسالوا ان يذهبوا بهم إلى العباس بن عبد المطلب، فذهبوا بهم، فساله ابو سفيان ان يستامن لهم من رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، فخرج بهم حتى دخل على النبي صلى الله عليه وآله وسلم، فساله ان يؤمن له من آمن، فقال: قد امنت من امنت ما خلا ابا سفيان، فقال: يا رسول الله، لا تحجر علي، فقال: من امنت فهو آمن، فذهب بهم العباس إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم، ثم خرج بهم، فقال ابو سفيان: إنا نريد ان نذهب، فقال: اسفروا، وقام رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يتوضا، وابتدر المسلمون وضوءه ينتضحونه في وجوههم، فقال ابو سفيان: يا ابا الفضل، لقد اصبح ملك ابن اخيك عظيما، فقال: ليس بملك، ولكنها النبوة، وفي ذلك يرغبون"، لم يروه عن جعفر، إلا محمد بن نضلة، تفرد به يحيى بن سليمان، ولا يروى عن ميمونة، إلا بهذا الإسنادحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُرْمُطِيُّ مِنْ وَلَدِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ نَضْلَةَ الْخُزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ نَضْلَةَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، حَدَّثَتْنِي مَيْمُونَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ"بَاتَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتَهَا، فَقَامَ يَتَوَضَّأُ لِلصَّلاةِ، فَسَمِعَتْهُ يَقُولُ فِي مُتَوَضَّئِهِ: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ثَلاثًا، نُصِرْتَ نُصِرْتَ، ثَلاثًا، فَلَمَّا خَرَجَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَمِعْتُكَ تَقُولُ فِي مُتَوَضَّئِكَ: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ثَلاثًا، نُصِرْتَ نُصِرْتَ، ثَلاثًا، كَأَنَّكَ تُكَلِّمُ إِنْسَانًا، فَهَلْ كَانَ مَعَكَ أَحَدٌ؟ فَقَالَ: هَذَا رَاجِزُ بَنِي كَعْبٍ يَسْتَصْرِخُنِي، وَيَزْعُمُ أَنَّ قُرَيْشًا أَعَانَتْ عَلَيْهِمْ بَنِي بَكْرٍ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ عَائِشَةَ أَنْ تُجَهِّزَهُ، وَلا تُعْلِمْ أَحَدًا، قَالَتْ: فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّةُ، مَا هَذَا الْجِهَازُ؟ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا هَذَا زَمَانُ غَزْوِ بَنِي الأَصْفَرِ، فَأَيْنَ يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: وَاللَّهِ لا عِلْمَ لِي، قَالَتْ: فَأَقَمْنَا ثَلاثًا، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ بِالنَّاسِ، فَسَمِعْتُ الرَّاجِزَ يُنْشِدُهُ: يَا رَبِّ إِنِّي نَاشِدٌ مُحَمَّدَا حِلْفَ أَبِينَا وَأَبِيهِ الأَتْلَدَا إِنَّا وَلَدْنَاكَ وَكُنْتَ وَلَدَا ثَمَّةَ أَسْلَمْنَا، وَلَمْ نَنْزَعْ يَدَا إِنَّ قُرَيْشًا أَخْلَفُوكَ الْمَوْعِدَا وَنَقَضُوا مِيثَاقَكَ الْمُؤَكَّدَا وَزَعَمُوا أَنْ لَسْتَ تَدْعُو أَحَدَا فَانْصُرْ هَدَاكَ اللَّهُ نَصْرًا أَيَّدَا وَادْعُ عِبَادَ اللَّهِ يَأْتُوا مَدَدَا فِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ قَدْ تَجَرَّدَا إِنْ سِيمَ خَسْفًا وَجْهُهُ تَرَبَّدَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ ثَلاثًا، نُصِرْتَ نُصِرْتَ، ثَلاثًا، ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ بِالرَّوْحَاءِ نَظَرَ إِلَى سَحَابٍ مُنْتَصَبٍ، فَقَالَ: إِنَّ السَّحَابَ هَذَا لَيَنْتَصِبُ بِنَصْرِ بَنِي كَعْبٍ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَدِيِّ بْنِ عَمْرٍو أَخُو بَنِي كَعْبِ بْنِ عَمْرٍو، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَنَصْرُ بَنِي عَدِيٍّ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: تَرِبَ نَحْرُكَ، وَهَلْ عَدِيُّ إِلا كَعْبٌ، وَكَعْبٌ إِلا عَدِيُّ، فَاسْتُشْهِدَ ذَلِكَ الرَّجُلُ فِي ذَلِكَ السَّفَرِ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اعْمِ عَلَيْهِمْ خَبَرَنَا حَتَّى نَأْخُذَهُمْ بَغْتَةً، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى نزل بِمَرْوَ، وَكَانَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، وَحَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ، وَبُدَيْلُ بْنُ وَرْقَاءَ، خَرَجُوا تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَشْرَفُوا عَلَى مَرْوَ، فَنَظَرَ أَبُو سُفْيَانَ إِلَى النِّيرَانِ، فَقَالَ: يَا بُدَيْلُ، هَذِهِ نَارُ بَنِي كَعْبٍ أَهْلِكَ، فَقَالَ: جَاشَتْهَا إِلَيْكَ الْحَرْبُ، فَأَخَذَتْهُمْ مُزَيْنَةُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَكَانَتْ عَلَيْهِمُ الْحِرَاسَةُ، فَسَأَلُوا أَنْ يَذْهَبُوا بِهِمْ إِلَى الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَذَهَبُوا بِهِمْ، فَسَأَلَهُ أَبُو سُفْيَانَ أَنْ يَسْتَأْمِنَ لَهُمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ بِهِمْ حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُؤَمِّنَ لَهُ مَنْ آمَنَ، فَقَالَ: قَدْ أَمَّنْتُ مَنْ أَمَّنْتَ مَا خَلا أَبَا سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لا تَحْجُرْ عَلَيَّ، فَقَالَ: مَنْ أَمَّنْتَ فَهُوَ آمِنٌ، فَذَهَبَ بِهِمُ الْعَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ خَرَجَ بِهِمْ، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: إِنَّا نُرِيدُ أَنْ نَذْهَبَ، فَقَالَ: أَسْفِرُوا، وَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ، وَابْتَدَرَ الْمُسْلِمُونَ وَضُوءَهُ يَنْتَضِحُونَهُ فِي وُجُوهِهِمْ، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَا أَبَا الْفَضْلِ، لَقَدْ أَصْبَحَ مُلْكُ ابْنِ أَخِيكَ عَظِيمًا، فَقَالَ: لَيْسَ بِمُلْكٍ، وَلَكِنَّهَا النُّبُوَّةُ، وَفِي ذَلِكَ يَرْغَبُونَ"، لَمْ يَرْوِهِ عَنْ جَعْفَرٍ، إِلا مُحَمَّدُ بْنُ نَضْلَةَ، تَفَرَّدَ بِهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، وَلا يُرْوَى عَنْ مَيْمُونَةَ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ
سیدنا میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہتی ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پاس رات گزاری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز کے لیے وضو کرنے لگے، میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وضو والی جگہ میں «لَبَّيْكَ، لَبَّيَْك» تین دفعہ اور «نُصِرْتَ نُصِرْتَ» تین دفعہ فرمایا، یعنی ”میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیری مدد کی گئی، تیری مدد کی گئی“ تین دفعہ فرمایا۔ جب نکلے تو میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ سے سنا، آپ اپنی وضو کی جگہ میں کہہ رہے تھے: ”میں حاضر، میں حاضر“ تین دفعہ ”تو مدد کیا گیا، تو مدد کیا گیا“ تین دفعہ گویا کہ آپ کسی آدمی سے باتیں کر رہے ہیں؟ اس وقت آپ کے ساتھ کوئی آدمی موجود تھا؟ فرمایا: ”یہ بنوکعب کا رجزیہ شعر کہنے والا مجھے پکار رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ قریش نے ان کے خلاف بنو بکر کی مدد کی ہے۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ ان کی تیاری کریں اور کسی کو نہ بتائیں۔ وہ کہتی ہیں: اسی وقت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: بیٹی یہ کیا تیاری ہو رہی ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہ رومیوں سے جنگ کا زمانہ بھی نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہاں کا ارادہ کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: واللہ مجھے معلوم نہیں، کہتی ہیں کہ پھر ہم تین دن ٹھہرے، آپ نے صبح کی نماز لوگوں کو پڑھائی اور ہم نے ایک شعر کہنے والے کو سنا، وہ کہہ رہا تھا: اے میرے رب! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دے رہا ہوں جو ہمارے اور اپنے باپ کا پرانا حلیف تھا ہم نے تجھے جنا اور تو بچہ تھا پھر ہم مسلمان ہو گئے اور ہم نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکالا نہیں، قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ خلافی کی ہے اور اپنا پکا وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے توڑ دیا ہے، وہ کہتے ہیں: تم کسی کو نہیں بلا سکتے۔ پس ہماری مدد مضبوط کیجئے، اللہ آپ کو ہدایت دے، اور اللہ کے بندوں کو بلائیں اور ہماری مدد کریں جن میں اللہ کے نبی اور رسول بھی ہوں جو تلوار ننگی کر چکے ہوں، اگر وہ ذلیل ہوں گے تو ان کا چہرہ بدل جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری مدد کی جائے گی، تیرے مدد کی جائے گی“، تین دفعہ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، جب روحاء میں پہنچے تو ایک اٹھتے ہوئے بادل کو دیکھا تو کہنے لگے: ”یہ بادل بنوکعب کی مدد کے لیے اٹھا ہے۔“ بنوعدی بن عمرو کا ایک آدمی کھڑا ہوا جو بنوکعب بن عمرو کا بھائی تھا، کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنوعدی کی بھی مدد کی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا سینہ خاک آلود ہو، عدی کعب ہی تو ہیں اور کعب، عدی ہی تو ہیں۔“ تو یہ آدمی اس سفر میں حاضر ہوا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہماری خبر ان پر گمنام کر دے، یہاں تک کہ ہم ان پر اچانک حملہ آور ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے حتیٰ کہ ”مر“ میں اترے۔ ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء بھی ساتھ نکلے یہاں تک کہ وہ بھی ”مر“ میں پہنچ گئے۔ ابوسفیان نے جلتے ہوئے الاؤ دیکھے تو کہا: بدیل! یہ بنوکعب کے الاؤ ہیں جو تیرے گھر والے ہیں۔ تو اس نے کہا: جنگ نے اس کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے اور جوش دلا رہا ہے، اس رات انہیں مزینہ نے پکڑ لیا اور ان کے ذمہ پہرہ داری تھی تو انہوں نے بنو مزینہ سے سوال کیا کہ ہمیں عباس بن عبدالمطلب تک پہنچا دو، تو وہ ان کے پاس لے گئے، انہوں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے امن طلب کیا کہ ہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امان دلائیں۔ تو وہ ان کے پاس لے کر چلے گئے یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے لیے امان طلب کی، آپ نے فرمایا: ”جس کو تو نے امان دی، اس کو ہم نے بھی امان دی، مگر صرف ابوسفیان اس سے مستثنیٰ ہے۔“ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ پر پابندی نہ لگائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو تو نے امن دیا وہ امن والا ہے۔“ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ گئے اور ان کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ابوسفیان کہنے لگا: ہم جانا چاہتے ہیں، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ذرا روشنی ہونے دو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور وضو کرنے لگے، اور مسلمان ان کے وضو کا پانی حاصل کر کے اپنے چہروں پر چھینٹے لگانے لگے۔ ابوسفیان کہنے لگا: اے ابوالفضل (سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی کنیت)! تیرے بھتیجے کی بادشاہی بہت بڑھ چکی ہے، تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ بادشاہی نہیں نبوت ہے اور اسی میں لوگ رغبت کر رہے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» برقم: 1052، والطبراني فى «الصغير» برقم: 968 قال الهيثمي: فيه يحيى بن سليمان بن نضلة وهو ضعيف، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: (6 / 163)»