من كتاب الديات دیت کے مسائل 8. باب لِمَنْ يَعْفُو عَنْ قَاتِلِهِ: جو شخص اپنے قاتل کو معاف کر دے اس کا بیان
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، ایک قاتل تسمہ سے بندھا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم اس قاتل کو معاف کروگے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دیت لوگے؟“ عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اس کو قتل کرو گے؟“ کہا: جی ہاں قتل کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس قاتل کو معاف کر دو گے تو یہ تمہارا اور تمہارے مقتول (بھائی) کا گناہ سمیٹ لے جائے گا“، وائل نے کہا: چنانچہ اس صحابی نے قاتل کو چھوڑ دیا اور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ قاتل اپنا تسمہ کھینچ کر جا رہا تھا، اس نے قاتل کو معاف کر دیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2404]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1680]، [أبوداؤد 4499، 4500]، [نسائي 4728]، [بيهقي فى السنن 55/8] و [معرفة السنن و الآثار 15901، وغيرهم] وضاحت:
(تشریح حدیث 2395) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتلِ عمد میں مقتول کے وارثین کو اختیار ہے کہ قصاص میں قاتل کے قتل کرنے کا مطالبہ کریں، یا معاف کر دیں، یا پھر دیت لے لیں جیسا کہ (2388) میں ذکر کیا گیا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجرموں کو باندھنا اور انہیں حاکم کے سامنے پیش کرنا، مدعی کا مدعا علیہ سے پہلے جواب لینا، اگر وہ اقرار کر لے تو گواہوں کی ضرورت نہ ہوگی، حاکم کا مقتول کے وارث سے معافی کے لئے ترغیب دینا اور درخواست کرنا، نیز معافی کا صحیح ہونا، مقدمہ رجوع ہونے کے بعد بھی دیت کا جائز ہونا، قاتل کو قصاص کے لئے وارثین کے حوالے کرنا، یہ سب مسائل مذکورہ بالا حدیث سے نکلے ہیں۔ (وحیدی، شرح مسلم)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|