من كتاب الديات دیت کے مسائل 18. باب فِيمَنْ عَضَّ يَدَ رَجُلٍ فَانْتَزَعَ الْمَعْضُوضُ يَدَهُ: کوئی آدمی کسی کا ہاتھ کاٹے، دوسرا آدمی ہاتھ کھینچے اور کاٹنے والے کے دانت ٹوٹ جائیں
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے ایک شخص کے ہاتھ میں دانت سے کاٹا تو اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے کھینچ لیا جس سے اس کے آگے کے دو دانت ٹوٹ گئے، پھر وہ اپنا جھگڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے ہی بھائی کو اس طرح دانت سے کاٹتے ہو جیسے اونٹ کاٹتا ہے، جاؤ تمہیں دیت نہیں ملے گی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2421]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6892]، [مسلم 1673]، [ترمذي 1416]، [نسائي 4773]، [ابن ماجه 2657]، [ابن حبان 5998، 5999]، [مشكل الآثار للطحاوي 119/2] وضاحت:
(تشریح احادیث 2411 سے 2413) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے نقصان اور ضرر کو دور کرنے کے لئے اپنے دفاع میں اگر کوئی جرم ہو جائے تو وہ جرم قابلِ مواخذہ نہیں، جمہور کا یہی مذہب ہے، البتہ اس کے لئے دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ اس تکلیف سے جسم میں درد ہوتا ہو۔ دوسری یہ کہ اس کے بغیر جان چھڑانے یا خلاصی پانے کی کوئی دوسری صورت نظر نہ آئے۔ اگر ان دونوں شرطوں میں سے کوئی بھی شرط نہ پائی جائے تو پھر اس میں دیت ہوگی۔ یہاں اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت کی دیت کو باطل ٹھہرایا کیونکہ اس کاٹنے والے کا دانت اسی کے قصور سے ٹوٹا تھا، نہ وہ کاٹتا نہ دوسرا اپنا ہاتھ کھینچتا، اور جب اس نے کاٹا تو وہ بے چارہ کیا کرتا، آخر چھوڑانا ضروری تھا۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
|