(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله الهمداني، حدثنا ابو اسامة، عن عوف، عن حمزة ابي عمر، عن علقمة بن وائل الحضرمي، عن ابيه وائل بن حجر، قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم حين اتي بالرجل القاتل يقاد في نسعة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لولي المقتول:"اتعفو؟". قال: لا. قال:"فتاخذ الدية؟". قال: لا. قال:"فتقتله؟". قال: نعم. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنك إن عفوت عنه، فإنه يبوء بإثمك وإثم صاحبك". قال: فتركه، قال: فانا رايته يجر نسعته، قد عفا عنه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ حَمْزَةَ أَبِي عُمَرَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُتِيَ بِالرَّجُلِ الْقَاتِلِ يُقَادُ فِي نِسْعَةٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِوَلِيِّ الْمَقْتُولِ:"أَتَعْفُو؟". قَالَ: لَا. قَالَ:"فَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟". قَالَ: لَا. قَالَ:"فَتَقْتُلُهُ؟". قَالَ: نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ، فَإِنَّهُ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِ صَاحِبِكَ". قَالَ: فَتَرَكَهُ، قَالَ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ، قَدْ عَفَا عَنْهُ.
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، ایک قاتل تسمہ سے بندھا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم اس قاتل کو معاف کروگے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر دیت لوگے؟“ عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم اس کو قتل کرو گے؟“ کہا: جی ہاں قتل کروں گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس قاتل کو معاف کر دو گے تو یہ تمہارا اور تمہارے مقتول (بھائی) کا گناہ سمیٹ لے جائے گا“، وائل نے کہا: چنانچہ اس صحابی نے قاتل کو چھوڑ دیا اور میں دیکھ رہا تھا کہ وہ قاتل اپنا تسمہ کھینچ کر جا رہا تھا، اس نے قاتل کو معاف کر دیا۔
وضاحت: (تشریح حدیث 2395) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتلِ عمد میں مقتول کے وارثین کو اختیار ہے کہ قصاص میں قاتل کے قتل کرنے کا مطالبہ کریں، یا معاف کر دیں، یا پھر دیت لے لیں جیسا کہ (2388) میں ذکر کیا گیا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجرموں کو باندھنا اور انہیں حاکم کے سامنے پیش کرنا، مدعی کا مدعا علیہ سے پہلے جواب لینا، اگر وہ اقرار کر لے تو گواہوں کی ضرورت نہ ہوگی، حاکم کا مقتول کے وارث سے معافی کے لئے ترغیب دینا اور درخواست کرنا، نیز معافی کا صحیح ہونا، مقدمہ رجوع ہونے کے بعد بھی دیت کا جائز ہونا، قاتل کو قصاص کے لئے وارثین کے حوالے کرنا، یہ سب مسائل مذکورہ بالا حدیث سے نکلے ہیں۔ (وحیدی، شرح مسلم)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2404]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1680]، [أبوداؤد 4499، 4500]، [نسائي 4728]، [بيهقي فى السنن 55/8] و [معرفة السنن و الآثار 15901، وغيرهم]