حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا صفوان بن عيسى، قال: حدثنا محمد بن عجلان، قال: حدثنا ابي، عن ابي هريرة قال: قال رجل: يا رسول الله، إن لي جارا يؤذيني، فقال: ”انطلق فاخرج متاعك إلى الطريق“، فانطلق فاخرج متاعه، فاجتمع الناس عليه، فقالوا: ما شانك؟ قال: لي جار يؤذيني، فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ”انطلق فاخرج متاعك إلى الطريق“، فجعلوا يقولون: اللهم العنه، اللهم اخزه. فبلغه، فاتاه فقال: ارجع إلى منزلك، فوالله لا اؤذيك.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ لِي جَارًا يُؤْذِينِي، فَقَالَ: ”انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ“، فَانْطَلَقَ فَأَخْرِجَ مَتَاعَهُ، فَاجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَقَالُوا: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: لِي جَارٌ يُؤْذِينِي، فَذَكَرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ”انْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مَتَاعَكَ إِلَى الطَّرِيقِ“، فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، اللَّهُمَّ أَخْزِهِ. فَبَلَغَهُ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى مَنْزِلِكَ، فَوَاللَّهِ لاَ أُؤْذِيكَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا ایک پڑوسی ہے جو مجھے ایذا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ، اپنا سامان (گھر سے) نکال کر راستے پر رکھ دو۔“ وہ گیا اور اپنا سامان نکال کر راستے پر رکھ دیا۔ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھا: تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: میرا پڑوسی مجھے تکلیف دیتا ہے۔ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ ”جاؤ، اور اپنا سامان (گھر سے) نکال کر راستے پر رکھ دو۔“(لوگوں نے یہ سنا) تو کہنے لگے: اللہ اس پر لعنت کرے، اللہ اسے رسوا کرے۔ یہ بات جب ہمسائے تک پہنچی تو وہ اس کے پاس آیا اور کہا: اپنے گھر میں لوٹ آو، اللہ کی قسم میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى حق الجوار: 5153 و ابن حبان: 520 و أبويعلي: 6630 و الحاكم: 160/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9547 - صحيح الترغيب: 2559»
حدثنا علي بن حكيم الاودي، قال: حدثنا شريك، عن ابي عمر، عن ابي جحيفة قال: شكا رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم جاره، فقال: ”احمل متاعك فضعه على الطريق، فمن مر به يلعنه“، فجعل كل من مر به يلعنه، فجاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ما لقيت من الناس؟ فقال: ”إن لعنة الله فوق لعنتهم“، ثم قال للذي شكا: ”كفيت“ او نحوه.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الأَوْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي عُمَرَ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ قَالَ: شَكَا رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَارَهُ، فَقَالَ: ”احْمِلْ مَتَاعَكَ فَضَعْهُ عَلَى الطَّرِيقِ، فَمَنْ مَرَّ بِهِ يَلْعَنُهُ“، فَجَعَلَ كُلُّ مَنْ مَرَّ بِهِ يَلْعَنُهُ، فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا لَقِيتُ مِنَ النَّاسِ؟ فَقَالَ: ”إِنَّ لَعْنَةَ اللهِ فَوْقَ لَعْنَتِهِمْ“، ثُمَّ قَالَ لِلَّذِي شَكَا: ”كُفِيتَ“ أَوْ نَحْوَهُ.
سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنے پڑوسی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا سامان اٹھاؤ اور راستے پر رکھ دو، جو گزرے گا اسے لعن طعن کرے گا۔“(اس نے ایسے ہی کیا) تو جو بھی وہاں سے گزرتا اسے برا بھلا کہتا۔ وہ (تنگ کرنے والا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یہ لوگ میرے ساتھ کیا برتاؤ کر رہے ہیں؟ (کہ ہر شخص مجھ پر لعنت کر رہا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ان کی لعنت کے ساتھ ساتھ اللہ کی لعنت بھی تجھ پر ہے۔“(اس نے دوبارہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت کرنے والے سے فرمایا: ”(اب اپنا سامان اٹھا لو) تیری خلاصی ہو گئی۔“
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه الحاكم: 166/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 9548 و الطبراني فى الكبير: 134/22 - صحيح الترغيب: 2559»
حدثنا مخلد بن مالك، قال: حدثنا ابو زهير عبد الرحمن بن مغراء، قال: حدثنا الفضل يعني ابن مبشر قال: سمعت جابرا يقول: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يستعديه على جاره، فبينا هو قاعد بين الركن والمقام إذ اقبل النبي صلى الله عليه وسلم ورآه الرجل وهو مقاوم رجلا عليه ثياب بياض عند المقام حيث يصلون على الجنائز، فاقبل النبي صلى الله عليه وسلم فقال: بابي انت وامي يا رسول الله، من الرجل الذي رايت معك مقاومك عليه ثياب بيض؟ قال: ”اقد رايته؟“ قال: نعم، قال: ”رايت خيرا كثيرا، ذاك جبريل صلى الله عليه وسلم رسول ربي، ما زال يوصيني بالجار حتى ظننت انه جاعل له ميراثا.“حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زُهَيْرٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ يَعْنِي ابْنَ مُبَشِّرٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَعْدِيهِ عَلَى جَارِهِ، فَبَيْنَا هُوَ قَاعِدٌ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ إِذْ أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَآهُ الرَّجُلُ وَهُوَ مُقَاوِمٌ رَجُلاً عَلَيْهِ ثِيَابٌ بَيَاضٌ عِنْدَ الْمَقَامِ حَيْثُ يُصَلُّونَ عَلَى الْجَنَائِزِ، فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ، مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي رَأَيْتُ مَعَكَ مُقَاوِمَكَ عَلَيْهِ ثِيَابٌ بِيضٌ؟ قَالَ: ”أَقَدْ رَأَيْتَهُ؟“ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ”رَأَيْتَ خَيْرًا كَثِيرًا، ذَاكَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولُ رَبِّي، مَا زَالَ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ جَاعِلٌ لَهُ مِيرَاثًا.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے پڑوسی کی زیادتیوں کی شکایت کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ وہ رکن اور مقام کے درمیان بیٹھا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اس شخص نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید پوش شخص کے سامنے مقام کے پاس کھڑے ہیں جہاں پر (اس زمانے میں) نماز جنازہ ادا کی جاتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے تو اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ کے سامنے وہ سفید پوش شخص کون تھا جسے میں نے کھڑے دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے اسے دیکھا ہے؟“ اس نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے بہت خیر دیکھی۔ وہ میرے رب کے فرستاده جبرائیل علیہ السلام تھے۔ وہ مجھے مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے خدشہ پیدا ہوا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه عبد بن حميد: 1129 و البزار [كشف الاستار]: 1897، لكن جملة الوصية بالجار و بعض القصة صحيحة، والجملة تقدمت عن عائشة وغيرها: 101، 104، 105 - الإرواء: 891»