نماز کا بیان नमाज़ के बारे में وہ مسجدیں جو مدینہ کے راستوں پر ہیں اور وہ مقامات جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی (کون سے ہیں)۔ “ मदीना की सड़कों पर मस्जिदें और वे जगहें जहाँ नबी ﷺ ने नमाज़ पढ़ी कौनसी हैं ”
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راستہ میں کچھ مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے اور کہتے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مقامات میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (بھی) عمرہ یا حج ادا فرماتے تو (مقام) ذوالحلیفہ میں بھی اترتے تھے اور جب کسی غزوہ سے لوٹتے اور اس راہ میں (سے) ہو (کر آتے) یا حج یا عمرہ میں ہوتے تو وادی کے اندر اتر جاتے، پھر جب وادی کے گہراؤ سے اوپر آ جاتے تو اونٹ کو اس بطحاء میں بٹھلا دیتے جو وادی کے کنارے پر بجانب مشرق ہے، پس آخر شب میں وہیں آرام فرماتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی (یہ مقام جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم استراحت فرماتے) اس مسجد کے پاس نہیں ہے جو پتھروں سے بنی ہے اور نہ اس ٹیلہ پر ہے جس کے اوپر مسجد ہے بلکہ اس جگہ ایک چشمہ تھا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے اور اس کے اندر کچھ تودے (ریت کے) تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں نماز پڑھتے تھے، پھر اس میں بطحاء سے سیل بہہ کر آیا یہاں تک کہ وہ مقام جہاں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے تھے پر ہو گیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر نماز پڑھی ہے جہاں چھوٹی مسجد ہے، جو اس مسجد کے قریب ہے جو روحاء کی بلندی پر ہے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس مقام کو جانتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ وہ تمہارے داہنی طرف ہے جب تم مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہو اور یہ مسجد راستے کے داہنے کنارے پر ہے جب کہ تم مکہ کی طرف جا رہے ہو، اس کے اور بڑی مسجد کے درمیان کم و بیش ایک پتھر پھینکنے کی دوری ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس پہاڑی کے پاس (بھی) نماز پڑھتے تھے جو روحاء کے آخری کنارے کے پاس ہے اور (مکہ کو جاتے ہوئے) اس پہاڑی کا کنارہ مسجد کے قریب روحاء کے آخری کنارے کے درمیان ہے اور اس جگہ ایک دوسری مسجد بنا دی گئی ہے، مگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس مسجد میں نماز نہ پڑھتے تھے بلکہ اس کو اپنے پیچھے بائیں جانب چھوڑ دیتے تھے اور اس کے آگے (بڑھ کر) خاص پہاڑی کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ روحاء سے صبح کے وقت چلتے تھے، پھر ظہر کی نماز نہ پڑھتے تھے یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچ جاتے، پس وہیں ظہر کی نماز پڑھتے اور جب مکہ سے آتے تو اگر صبح سے کچھ پہلے یا آخر شب میں اس مقام پر پہنچتے تو وہیں ٹھہر جاتے یہاں تک کہ صبح کی نماز وہیں پڑھتے۔
سیدنا عبداللہ (بن عمر) رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مقام) رویثہ کے قریب راستہ کے داہنی جانب اور راستہ کے سامنے کسی گھنے درخت کے نیچے کسی وسیع اور نرم مقام میں اترتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹیلے سے جو برید رویثہ سے قریب دو میل کے ہے، باہر آتے اور اس درخت کے اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے اور وہ درمیان سے دہرا ہو کر جڑ پر کھڑا ہے اور اس کی جڑ میں (ریت کے) بہت سے ٹیلے ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹیلے کے کنارے پر (بھی) نماز پڑھی ہے جو (مقام) عرج کے پیچھے ہے، جب کہ تم (قریہ) ہضبہ کی طرف جا رہے ہو، اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، قبروں پر پتھر (رکھے) ہیں (وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ کی داہنی جانب راستہ کے پتھروں کے پاس نماز پڑھی ہے) انھیں پتھروں کے درمیان میں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بعد اس کے کہ دوپہر کو سورج ڈھل جاتا، مقام عرج سے چلتے اور ظہر کی نماز اسی مسجد میں پڑھتے (مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں کے درمیان مسجد بن چکی تھی)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسیل میں جو ہرشی (پہاڑ) کے قریب ہے راستہ کے داہنی جانب درختوں کے پاس اترے مسیل، ہرشی (پہاڑ) کے کنارے سے ملا ہوا ہے، اس کے اور راستہ کے درمیان قریباً ایک تیر کی مار کا فاصلہ ہے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس درخت کے پاس نماز پڑھتے تھے، جو سب درختوں سے زیادہ راستہ کے قریب تھا اور ان سے سب سے زیادہ لمبا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسیل پر (بھی) اترے تھے جو (مقام) مرالظہران کے اخیر میں مدینہ کی طرف ہے جبکہ کوئی شخص صفرادات (کے پہاڑوں) سے اترے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسیل کے گھیراؤ میں راستہ کی بائیں جانب، جب کہ تو مکہ کی طرف جا رہا ہو، نزول فرماتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اترنے کی جگہ اور راستہ کے درمیان صرف ایک پتھر کی مار کا فاصلہ ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مقام) ذی طویٰ میں اترتے تھے اور رات کو وہیں رہتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی اور صبح کی نماز پڑھتے (یہ اس وقت) جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک سخت ٹیلہ پر ہے نہ کہ اس مسجد میں، جو وہاں بنائی گئی ہے بلکہ اس سے نیچے اسی سخت ٹیلہ پر ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پہاڑ کے دو کونوں کے سامنے آئے وہ کونا کہ جو اس پہاڑ اور بڑے پہاڑ کے درمیان کعبہ کی طرف ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد کو جو وہاں بنائی گئی ہے، اس مسجد کی بائیں جانب چھوڑ دیا جو ٹیلہ کی طرف ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلہ کی اوپر ہے، ٹیلے سے دس گز یا اس کے قریب چھوڑ کر۔ پھر پہاڑ کے ان دونوں کونوں کی طرف جو تمہارے اور کعبہ کے درمیان ہیں منہ کر کے نماز پڑھو۔
|