كتاب فضائل القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب: قرآن کریم کے مناقب و فضائل 3. باب مِنْهُ باب:۔۔۔
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کا اپنا ایک احاطہٰ تھا اس میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں۔ جن آتا تھا اور اس میں سے اٹھا لے جاتا تھا، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا: ”جاؤ جب دیکھو کہ وہ آیا ہوا ہے تو کہو: بسم اللہ (اللہ کے نام سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان“، ابوذر رضی الله عنہ نے اسے پکڑ لیا تو وہ قسمیں کھا کھا کر کہنے لگا کہ مجھے چھوڑ دو، دوبارہ وہ ایسی حرکت نہیں کرے گا، چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا، ”تمہارے قیدی نے کیا کیا؟!“ انہوں نے کہا: اس نے قسمیں کھائیں کہ اب وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے گا۔ آپ نے فرمایا: ”اس نے جھوٹ کہا: وہ جھوٹ بولنے کا عادی ہے“، راوی کہتے ہیں: انہوں نے اسے دوبارہ پکڑا، اس نے پھر قسمیں کھائیں کہ اسے چھوڑ دو، وہ دوبارہ نہ آئے گا تو انہوں نے اسے (دوبارہ) چھوڑ دیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے پوچھا: ”تمہارے قیدی نے کیا کیا؟“ انہوں نے کہا: اس نے قسم کھائی کہ وہ پھر لوٹ کر نہ آئے گا۔ آپ نے فرمایا: ”اس نے جھوٹ کہا، وہ تو جھوٹ بولنے کا عادی ہے“۔ (پھر جب وہ آیا) تو انہوں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا: اب تمہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جائے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دو، میں تمہیں ایک چیز یعنی آیت الکرسی بتا رہا ہوں۔ تم اسے اپنے گھر میں پڑھ لیا کرو۔ تمہارے قریب شیطان نہ آئے گا اور نہ ہی کوئی اور آئے گا“، پھر ابوذر رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا: ”تمہارے قیدی نے کیا کیا؟“ تو انہوں نے آپ کو وہ سب کچھ بتایا جو اس نے کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے بات تو صحیح کہی ہے، لیکن وہ ہے پکا جھوٹا“۔
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابی بن کعب رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3473)، وانظر مسند احمد (5/423) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (2 / 220)
|