وقال حسان بن ابي سنان: ما رايت شيئا اهون من الورع دع ما يريبك إلى ما لا يريبك.وَقَالَ حَسَّانُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ: مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَهْوَنَ مِنَ الْوَرَعِ دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ.
اور حسان بن ابی سنان نے کہا کہ «ورع»(پرہیزگاری) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی، بس شبہ کی چیزوں کو چھوڑ اور وہ راستہ اختیار کر جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ایک سیاہ فام خاتون آئیں اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان دونوں (عقبہ اور ان کی بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے اس امر کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا اور مسکرا کر فرمایا۔ اب جب کہ ایک بات کہہ دی گئی تو تم دونوں ایک ساتھ کس طرح رہ سکتے ہو۔ ان کے نکاح میں ابواہاب تمیمی کی صاحب زادی تھیں۔
Narrated `Abdullah bin Abu Mulaika: `Uqba bin Al-Harith said that a black woman came and claimed that she had suckled both of them (i.e. `Uqba and his wife). So, he mentioned that to the Prophet who turned his face from him and smiled and said, "How (can you keep your wife), and it was said (that both of you were suckled by the same woman)?" His wife was the daughter of Abu Ihab-al-Tamimi.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 268
(مرفوع) حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" كان عتبة بن ابي وقاص عهد إلى اخيه سعد بن ابي وقاص، ان ابن وليدة زمعة مني، فاقبضه، قالت: فلما كان عام الفتح، اخذه سعد بن ابي وقاص، وقال ابن اخي: قد عهد إلي فيه، فقام عبد بن زمعة، فقال: اخي، وابن وليدة ابي، ولد على فراشه، فتساوقا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال سعد: يا رسول الله، ابن اخي كان قد عهد إلي فيه، فقال عبد بن زمعة: اخي، وابن وليدة ابي، ولد على فراشه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو لك يا عبد بن زمعة، ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم:" الولد للفراش وللعاهر الحجر"، ثم قال لسودة بنت زمعة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: احتجبي منه لما راى من شبهه بعتبة، فما رآها حتى لقي الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي، فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الْفَتْحِ، أَخَذَهُ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَقَالَ ابْنُ أَخِي: قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ"، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْتَجِبِي مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ، فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ.
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص (کافر) نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص (مسلمان) کو (مرتے وقت) وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے۔ اس لیے اسے تم اپنے قبضہ میں لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے سال سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے اسے لے لیا، اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور وہ اس کے متعلق مجھے وصیت کر گئے ہیں، لیکن عبد بن زمعہ نے اٹھ کر کہا کہ میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے، میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے اس کی انہوں نے وصیت کی تھی۔ اور عبد بن زمعہ نے عرض کیا، یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے۔ انہیں کے بستر پر اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبد بن زمعہ! لڑکا تو تمہارے ہی ساتھ رہے گا۔ اس کے بعد فرمایا، بچہ اسی کا ہوتا ہے جو جائز شوہر یا مالک ہو جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہو۔ اور حرام کار کے حصہ میں پتھروں کی سزا ہے۔ پھر سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کر، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی شباہت اس لڑکے میں محسوس کر لی تھی۔ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو کبھی نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔
Narrated Aisha: `Utba bin Abu Waqqas took a firm promise from his brother Sa`d bin Abu Waqqas to take the son of the slave-girl of Zam`a into his custody as he was his (i.e. `Utba's) son. In the year of the Conquest (of Mecca) Sa`d bin Abu Waqqas took him, and said that he was his brother's son, and his brother took a promise from him to that effect. 'Abu bin Zam`a got up and said, "He is my brother and the son of the slave-girl of my father and was born on my father's bed." Then they both went to the Prophet Sa`d said, "O Allah's Apostle! He is the son of my brother and he has taken a promise from me that I will take him." 'Abu bin Zam`a said, "(He is) my brother and the son of my father's slave-girl and was born on my father's bed." Allah's Apostle said, "The boy is for you. O 'Abu bin Zam`a." Then the Prophet said, "The son is for the bed (i.e. the man on whose bed he was born) and stones (disappointment and deprivation) for the one who has done illegal sexual intercourse." The Prophet told his wife Sauda bint Zam`a to screen herself from that boy as he noticed a similarity between the boy and `Utba. So, the boy did not see her till he died.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 269
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، قال: اخبرني عبد الله بن ابي السفر، عن الشعبي، عن عدي بن حاتم رضي الله عنه، قال:" سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن المعراض؟ فقال: إذا اصاب بحده فكل، وإذا اصاب بعرضه فقتل، فلا تاكل فإنه وقيذ"، قلت: يا رسول الله، ارسل كلبي واسمي، فاجد معه على الصيد كلبا آخر، لم اسم عليه ولا ادري ايهما اخذ، قال: لا تاكل، إنما سميت على كلبك، ولم تسم على الآخر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِعْرَاضِ؟ فَقَالَ: إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ، فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُرْسِلُ كَلْبِي وَأُسَمِّي، فَأَجِدُ مَعَهُ عَلَى الصَّيْدِ كَلْبًا آخَرَ، لَمْ أُسَمِّ عَلَيْهِ وَلَا أَدْرِي أَيُّهُمَا أَخَذَ، قَالَ: لَا تَأْكُلْ، إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى الْآخَرِ.
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی سفر نے خبر دی، انہیں شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «معراض»(تیر کے شکار) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس کے دھار کی طرف سے لگے تو کھا۔ اگر چوڑائی سے لگے تو مت کھا۔ کیونکہ وہ مردار ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنا کتا (شکار کے لیے) چھوڑتا ہوں اور بسم اللہ پڑھ لیتا ہوں، پھر اس کے ساتھ مجھے ایک ایسا کتا اور ملتا ہے جس پر میں نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دونوں میں کون سے کتے نے شکار پکڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایسے شکار کا گوشت نہ کھا۔ کیونکہ تو نے بسم اللہ تو اپنے کتے کے لیے پڑھی ہے۔ دوسرے کے لیے تو نہیں پڑھی۔
Narrated `Adi bin Hatim: I asked Allah's Apostle about Al Mirad (i.e. a sharp-edged piece of wood or a piece of wood provided with a piece of iron used for hunting). He replied, "If the game is hit by its sharp edge, eat it, and if it is hit by its broad side, do not eat it, for it has been beaten to death." I asked, "O Allah's Apostle! I release my dog by the name of Allah and find with it at the game, another dog on which I have not mentioned the name of Allah, and I do not know which one of them caught the game." Allah's Apostle said (to him), 'Don't eat it as you have mentioned the name of Allah on your dog and not on the other dog."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 270