Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
3. بَابُ تَفْسِيرِ الْمُشَبَّهَاتِ:
باب: ملتی جلتی چیزیں یعنی شبہ والے امور کیا ہیں؟
حدیث نمبر: 2054
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمِعْرَاضِ؟ فَقَالَ: إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ، وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ، فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُرْسِلُ كَلْبِي وَأُسَمِّي، فَأَجِدُ مَعَهُ عَلَى الصَّيْدِ كَلْبًا آخَرَ، لَمْ أُسَمِّ عَلَيْهِ وَلَا أَدْرِي أَيُّهُمَا أَخَذَ، قَالَ: لَا تَأْكُلْ، إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ، وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى الْآخَرِ.
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی سفر نے خبر دی، انہیں شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «معراض» (تیر کے شکار) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس کے دھار کی طرف سے لگے تو کھا۔ اگر چوڑائی سے لگے تو مت کھا۔ کیونکہ وہ مردار ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنا کتا (شکار کے لیے) چھوڑتا ہوں اور بسم اللہ پڑھ لیتا ہوں، پھر اس کے ساتھ مجھے ایک ایسا کتا اور ملتا ہے جس پر میں نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دونوں میں کون سے کتے نے شکار پکڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایسے شکار کا گوشت نہ کھا۔ کیونکہ تو نے بسم اللہ تو اپنے کتے کے لیے پڑھی ہے۔ دوسرے کے لیے تو نہیں پڑھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2054 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2054  
حدیث حاشیہ:
چوڑائی سے لگنے کا مطلب یہ ہے کہ تیر کی لکڑی آڑی ہو کر شکار کے جانور پر لگے۔
اور بوجھ اور صدمے سے وہ مر جائے۔
حضرت امام بخاری ؒ یہاں اس حدیث کو مشتبہات کی تفسیر میں لائے کہ دوسرے کتے کی موجودگی میں شبہ ہو گیا کہ شکار کون سے کتے نے پکڑا ہے۔
آنحضرت ﷺ نے اسی شبہ کو رفع کرنے کے لیے ایسے شکار کے کھانے سے منع فرمادیا۔
عربوں میں شکاری کتوں کو سدھانے کے دستور تھا۔
شریعت اسلامیہ نے اجازت دی کہ ایسا سدھایا ہوا کتا اگر بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے اور وہ شکار کر پکڑ لے اور مالک کے پہنچنے سے پہلے شکار مرجائے تو گویا ایسا شکار حلال ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جس جانور پر بسم اللہ نہ پڑھاجائے وہ حرام اور مردار ہے، اہل حدیث اور اہل ظاہر کا یہی قول ہے اور امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ مسلمان کا ذبیحہ ہر حال میں حلال ہے گو وہ عمداً یا سہواً بسم اللہ چھوڑ دے۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ اس جانور میں شبہ پڑ گیا کہ کس کتے نے اس کو مارا۔
اور آپ نے اس کے کھانے سے منع فرمایا تو معلوم ہوا کہ شبہ کی چیزوں سے بچنا چاہئے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2054   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2054  
حدیث حاشیہ:
(1)
اگر شکار کے جانور کو تیر عرض کے بل لگے گا تو وہ چوٹ لگنے سے مرجائے گا۔
قرآن کریم نے چوٹ سے مرنے والے جانور کو حرام قرار دیا ہے،اس بنا پر عرض کے بل تیر کی چوٹ سے مرنے والا جانور بھی حرام ہے۔
(2)
عربوں کے ہاں شکاری کتوں کو سدھانے کا دستور تھا۔
شریعت اسلامیہ نے اجازت دی ہے کہ اگر سدھائے ہوئے کتے کو بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے اور وہ شکار پکڑ لے، اگر مالک کے پہنچنے سے پہلے پہلے شکار مرجائے تو وہ جانور حلال اور اس کا کھانا جائز ہے اور جس کتے پر بسم اللہ نہ پڑھی جائے تو اس کا مارا ہوا شکار حرام اور مردار ہے لیکن اگر شکاری کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شامل ہوجائے اور شکار بھی مرا ہوا ملے تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جانور کس کتے نے مارا ہے،یعنی دوسرے کتے کی موجودگی شبہ کا باعث ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس شبہ کو دفع کرنے کے لیے ایسا شکار کھانے سے منع فرمایا ہے۔
(3)
اس سے معلوم ہوا کہ شبہ کی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
دراصل ایسے موقع پر ہر چیز کی اصل کو دیکھا جاتا ہے کہ تحریم ہے یا اباحت یا مشکوک،شکار کے جانور کو ذبح سے پہلے کھانا حرام ہے۔
جب اس کے متعلق شک پڑ جائے کہ اس پر بسم اللہ پڑھی گئی تھی یا نہیں تو ایسے جانور کی حرمت، یقین کے بغیر ختم نہیں ہوگی۔
حضرت عدی بن حاتم ؓ کی اس حدیث سے اسی اصل کو ثابت کیا گیا ہے۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2054   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 175  
´جب کتا برتن میں پی لے (تو کیا کرنا چاہیے)`
«. . . حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُعَلَّمَ فَقَتَلَ فَكُلْ، وَإِذَا أَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَهُ عَلَى نَفْسِهِ، قُلْتُ: أُرْسِلُ كَلْبِي فَأَجِدُ مَعَهُ كَلْبًا آخَرَ، قَالَ: فَلَا تَأْكُلْ، فَإِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى كَلْبٍ آخَرَ " . . . .»
. . . شعبہ نے ابن ابی السفر کے واسطے سے بیان کیا، وہ شعبی سے نقل فرماتے ہیں، وہ عدی بن حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (کتے کے شکار کے متعلق) دریافت کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑے اور وہ شکار کر لے تو، تو اس (شکار) کو کھا اور اگر وہ کتا اس شکار میں سے خود (کچھ) کھا لے تو، تو (اس کو) نہ کھائیو۔ کیونکہ اب اس نے شکار اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے کہا کہ بعض دفعہ میں (شکار کے لیے) اپنے کتے چھوڑتا ہوں، پھر اس کے ساتھ دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پھر مت کھا۔ کیونکہ تم نے «بسم الله» اپنے کتے پر پڑھی تھی۔ دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ إِذَا شَرِبَ الْكَلْبُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَلْيَغْسِلْهُ سَبْعًا:: 175]
تشریح:
اس حدیث کی اصل بحث کتاب الصید میں آئے گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔ معلوم ہوا کہ عام کتوں کی نجاست کے حکم سے سدھائے ہوئے کتوں کے شکار کا استثناء ہے بشرائط معلومہ مذکورہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 175   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5477  
5477. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم شکار کے لیے سدھائے ہوئے کتے چھوڑتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لے آئیں اسے کھا لو۔ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ اسے مار ڈالیں۔ میں نے عرض کیا: ہم نوکدار لکڑی سے بھی شکار کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس کی دھار شکار کو زخمی کر کے چیر دے تو اسے کھا لو اور اگر لکڑی عرض کے بل لگے تو اسے نہ کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5477]
حدیث حاشیہ:
جمہور علماء کا فتویٰ اس حدیث پر ہے اورابو شعبہ والی حدیث جسے ابوداؤد نے روایت کیا، وہ ضعیف ہے اور یہ عدی رضی اللہ عنہ کی حدیث قوی ہے۔
اس پر عمل کرنا اولیٰ ہے۔
حضرت عدی رضی اللہ عنہ بھی اپنے باپ حاتم کی طرح سخاوت میں مشہور ہیں۔
یہ فتح مکہ کے سال مسلمان ہوئے اور یہ اپنی قوم سمیت اسلام پر ثابت قدم رہے اور عراق کی فتوحات میں شریک رہے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور 68 سال کی عمر پائی (فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5477   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5486  
5486. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور اس پر بسم اللہ پڑھتا ہوں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تو بسم اللہ پڑھ کر کتا چھوڑے اور وہ شکار پکڑ کر اسے مار دے، پھر اس سے کچھ کھالے تو اسے مت کھا کیونکہ اس نے یہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے عرض کی: اپنا کتا چھوڑتا ہوں، پھر اس کے پاس کوئی دوسرا کتا پاتا ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ یہ شکار کس نے پکڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی دوسرے کتے پر نہیں پڑھی تھی۔ اس کے بعد میں نے نوکدار لکڑی سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر شکار نوک کی دھار سے مرا ہو تو اسے کھا لو اگر تو نے اسے عرض کے بل زخمی کیا ہے تو ایسا شکار ضرب سے مرا ہے اسے مت کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5486]
حدیث حاشیہ:
وہ موقوذ، مردار ہے مزید تفصیلات پہلے گزر چکی ہیں۔
حضرت حافظ صاحب فرماتے ہیں وفیه تحریم أکل الصید الذي أکل الکلب منه ولو کان الکلب معلما (فتح)
اگر سدھا یا ہو ا کتا ہی کیوں نہ ہو جب وہ شکار سے کھا لے تو وہ شکار کھانا حرام ہو جاتا ہے۔
لفظ کلبك کی اضافت سے سدھایا ہو کتا خرید نا بیچنا جائز ثابت ہوتا ہے۔
(فتح)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5486   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7397  
7397. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: میں شکار پر اپنے سکھائے ہوئے کتے چھوڑتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سدھائے ہوئے کتے چھوڑو اور چھوڑتے وقت اللہ کے نام بھی لو، پھر اگر وہ شکار پکڑ کر اسے روک لیں، اس سے خود نہ کھائیں تو تم اسے کھا سکتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7397]
حدیث حاشیہ:
اللہ کے نام کی برکت سے ایسا شکار بھی حلال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7397   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5475  
5475. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نوک دار لکڑی سے کیے ہوئے شکار کے متعلق نبی ﷺ سے دریافت کیا؟ آپ نے فرمایا: اگر شکار اس کی نوک سے زخمی ہو جائے تو اسے کھا لو لیکن اگر عرض (چوڑائی) کے بل اسے لگے تو اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ موقوذہ ہے۔ میں نے کتے سے کیے ہوئے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ کتا تیرے کیے شکار کو روک رکھے تو کھا لو کیونکہ کتے کا شکار کو پکڑ لینا بھی ذبح کے حکم میں ہے۔ اگر تم اپنے کتے یا اپنے کتوں کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ تمہیں اندیشہ ہو کہ اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے نے شکار پکڑا ہوگا اور وہ شکار کو مار چکا ہو تو ایسے شکار کو نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر اللہ کا نام نہیں لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5475]
حدیث حاشیہ:
یہ عدی عرب کے مشہور سخی حاتم کے بیٹے ہیں جو مسلمان ہو گئے تو یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو بسم اللہ پڑھنے کو حلت کی دلیل کہتے ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ باز اورشکرے اور جملہ شکاری پرندوں کا بھی وہی حکم ہے جو کتے کا حکم ہے ان کا بھی شکار کھانا درست ہے جب بسم اللہ پڑھ کر ان کو شکار پر چھوڑا جائے۔
عدی اپنے باپ کی طرح سخی تھے کافی طویل عمر پائی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5475   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5476  
5476. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نوکدار لکڑی سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگر عرض کے بل شکار کو لگے اور جانور مر جائے تو وہ موقوذہ (مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔ میں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی چھوڑتا ہوں؟ پھر میں اس کے ساتھ دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: وہ شکار تم نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی دوسرے ہر نہیں پڑھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5476]
حدیث حاشیہ:
غلہ وہ ہے جو غلیل میں رکھ کر پھینکا جاتا ہے جو اپنے بوجھ سے جانور کو مارتا اور وہ گوشت کو چیرتا نہیں ہے۔
مولانا وحید الزماں مرحوم نے بندوق کا مارا ہوا شکار حلال کہا ہے کیونکہ بندوق کی گولی گوشت کو چیر کر اندر گھس جاتی ہے۔
جمہور علماء کا فتویٰ یہی ہے کہ جب دوسرا کتا اس میں شریک ہو جائے تو اس کا کھانا درست نہیں ہے۔
بہت سے علماء بندوق کا شکار، جبکہ وہ ذبح سے پہلے مر جائے اسے حلال نہیں مانتے۔
احتیاط اسی میں ہے، واللہ أعلم بالصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5476   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5483  
5483. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار پرچھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ خواہ وہ اسے مار ہی ڈالیں لیکن اگر کتا شکار میں سےخود بھی کھا لے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا۔ اگر تمہارے کتوں کے علاوہ دوسرے کتے بھی شریک ہو جائیں تو ایسے شکار کو مت کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5483]
حدیث حاشیہ:
یہ سدھائے ہوئے کتوں سے متعلق ہے اگر وہ شکار کو مار ڈالیں مگر خود کھانے کو منہ ميں نہ ڈالیں تو وہ جانور کھایا جا سکتا ہے مگر ایسے سدھائے ہوئے کتے آج کل عنقا ہیں إلا ماشاءاللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5483   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1148  
´شکار اور ذبائح کا بیان`
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا کہ جب تو اپنا شکاری کتا جانور کے شکار کے لیے چھوڑے تو اس پر اللہ کا نام پڑھ لیا کرو۔ ( «بسم الله» پڑھ لیا کرو) پھر اگر وہ شکار کو تمہارے لئے روک لے اور تو اسے زندہ پا لے تو اسے ذبح کر لو اور اگر تو شکار کو مردہ حالت میں پائے اور کتے نے ابھی تک اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو تم اسے کھا سکتے ہو اور اگر تو اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کوئی کتا بھی پائے اور جانور مردہ حالت میں ملے تو پھر اسے نہ کھا کیونکہ تجھے معلوم نہیں کہ ان دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے اور اگر تو اپنا تیر چھوڑے تو اس پر «بسم الله» پڑھ۔ پھر اگر شکار تیری نظروں سے ایک روز تک اوجھل رہے اور اس میں تیرے تیر کے سوا دوسرا کوئی زخم کا نشان نہ ہو تو پھر اسے تو کھا لے۔ اگر تیری طبیعت کھانے کی طرف مائل ہو اور اگر شکار کو پانی میں ڈوب کر مرا ہوا پائے تو اسے نہ کھا۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1148»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الذبائح والصيد، باب التسمية علي الصيد، حديث:5475، ومسلم، الصيد والذبائح، باب الصيد بلكلاب المعلمة والرمي، حديث:1929.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے کے لیے یا منافع حاصل کرنے کے لیے شکار کرنا جائز ہے۔
2. شکار شکاری کتے سے کیا جائے یا شکاری پرندوں سے، سب جائز ہے اور ان کا کھانا حلال ہے۔
اس کی دو شرطیں ہیں: ایک یہ کہ کتے کو چھوڑتے وقت بسم اللہ ضرور پڑھی جائے۔
دوسری یہ کہ کتا تربیت یافتہ‘ یعنی سدھایا ہوا ہو۔
3. سدھایا ہوا کتا اگر اس شکار میں سے کچھ کھا لے تو شکار حرام ہوجاتا ہے‘ اسے کھانا جائز نہیں رہتا۔
4.شکار کردہ جانور صحیح سالم حالت میں ہے اور کتے نے اس میں سے کچھ نہیں کھایا تو اسے کھانا جائز ہے۔
اس موقع پر یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اگر کتے نے شکار اپنے دانتوں سے پکڑا ہے اور وہ مر گیا ہے تو اس کا کھانا حلال ہے اور اگر کتے کے جسم کی ضرب سے مرے تو حرام ہے۔
5. اگر وہ شکار آدمی کے پہنچنے تک بقید حیات ہو تو اسے ذبح کرنا چاہیے اور اگر مر چکا ہو تو اسی طرح کھانا حلال ہے۔
6. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شکاری کتے کو مالک نے خود بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا ہو۔
اگر ازخود شکار پر ٹوٹ پڑا اور شکار مار بھی لیا تو ایسا شکار حلال نہیں ہوگا۔
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
مگر ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ محض کتے کا سدھایا ہوا ہونا شرط ہے‘ قصد و ارادہ سے چھوڑنا شرط نہیں۔
7. اسی طرح اس حدیث سے شکار کی دوسری چیز نیزہ اور تیر سے شکار کرنا بھی ثابت ہے۔
8.تیر چھوڑتے وقت بھی اللہ کا نام لینا ضروری ہے۔
چنانچہ ثابت ہوا کہ بسم اللہ کہنا شکار کے لیے واجب ہے‘ البتہ اگر بھول کر بسم اللہ نہ پڑھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
یہ رائے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ اور ایک روایت کی رو سے امام احمد رحمہ اللہ اور صحابۂ کرام میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ ہے کہ دیدہ و دانستہ اور عمداً بسم اللہ چھوڑنے کی صورت میں بھی ایسے شکار کا کھانا حلال ہے۔
ان کے نزدیک ذبح یا شکار کے وقت بسم اللہ پڑھنا سنت ہے فرض نہیں۔
اور ظاہریہ کی رائے تو یہ ہے کہ متروک التسمیۃ شکار کا کھانا بہرصورت حرام ہے۔
9. راجح قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذبیحہ جس پر یقین ہو کہ اللہ کا نام عمداً نہیں لیا گیا اسے نہ کھایا جائے اور شک کی صورت میں‘ اگر ذبح کرنے والا پکا مسلمان ہو تو، بسم اللہ پڑھ کر کھا لینا چاہیے۔
اور جو پرندہ وغیرہ تیر کی ضرب کھا کر پانی میں جا گرے تو اسے نہ کھایا جائے‘ اس لیے کہ اس کی موت واقع ہونے میں شک پیدا ہوگیا ہے کہ آیا وہ تیر لگنے سے مرا ہے یا پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عدی بن حاتم طائی۔
باپ کی طرح نہایت سخی تھے۔
۷ہجری شعبان کے مہینے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
جب عرب کے بہت سے قبائل مرتد ہوئے تو یہ اپنی قوم سمیت اسلام کی حقانیت و صداقت پر ثابت قدم رہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جو پہلی زکاۃ پہنچی وہ حضرت عدی رضی اللہ عنہ اور ان کی قوم کی زکاۃ تھی۔
فتح مدائن میں حاضر تھے۔
لڑائیوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے۔
جنگ جمل کے موقع پر ان کی آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔
سخاوت اور جود و کرم میں ان کی مثالیں بڑی مشہور و معروف ہیں۔
ایک سو بیس برس زندگی پائی اور ۶۸ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1148   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1149  
´شکار اور ذبائح کا بیان`
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر پھل کے تیر کے شکار کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر دھار کی جانب سے تو مارے تو پھر کھا اور اگر چوڑائی کی طرف سے مارے اور جانور مر جائے تو ایسے جانور کو موقوذ (چوٹ سے مرنے والا جانور) کہتے ہیں۔ لہذا اسے نہ کھا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1149»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الذبائح والصيد، باب إذا وجد مع الصيد كلبًا أخر، حديث:5486.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شکار میں یہ اصول ہے کہ اگر تو جانور کسی تیز دھار چیز سے زخمی ہو کر خون بہہ جانے کی وجہ سے مرے تو اسے کھانا حلال ہے اور اگر کسی چیز کی ضرب اور چوٹ سے مرے تو اسے کھانا حرام ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1149   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4268  
´شکار کرتے وقت «بسم اللہ» پڑھنے کے حکم کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: جب تم اپنے کتے کو شکار کے لیے بھیجو تو اس پر بسم اللہ پڑھ لو، اب اگر تمہیں وہ شکار مل جائے اور مرا ہوا نہ ہو تو اسے ذبح کرو اور اس پر اللہ کا نام لو ۱؎ اور اگر تم اسے مردہ حالت میں پاؤ اور اس (کتے) نے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو اس کو کھاؤ، اس لیے کہ اس نے تمہارے لیے ہی اس کا شکار کیا ہے۔ البتہ اگر تم دیکھو ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4268]
اردو حاشہ:
(1) جب شکاری کتا شکار کے لیے چھوڑا جائے تو اس وقت بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے۔ یہی حکم تیرا اور دوسرے آلاتِ شکار کا ہے کہ ان کے ذریعے سے بھی بسم اللہ پڑھ کر ہی شکار کیا جائے۔
(2) حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اس طریقے سے شکار کرنا جس کا حدیث شریف میں ذکر ہے، مباح اور جائز کام ہے۔ یہ اس لہو و لعب کی قسم سے نہیں جس سے منع کیا گیا ہے۔ اگر شکار کرنا ممنوع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کی قطعاً اجازت نہ دیتے۔
(3) شوقیہ طور پر کتے پالنا جائز نہیں، تاہم بغرض شکار اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح کتوں کی خرید و فروخت ویسے تو ممنوع ہے البتہ ایسے سدھائے ہوئے کتے کی خرید و فروخت کی بعض فقہاء اجازت دیتے ہیں۔
(4) سکھلایا ہوا کتا اگر بسم اللہ پڑھ کر شکار پر چھوڑا جائے اور وہ مالک کی خاطر ہی شکار کرے اور اس اثنا میں شکار ذبح کرنے سے پہلے مر جائے تو بھی اس کو کھانا درست ہے۔ ہاں، البتہ شکار اگر زندہ حالت میں مل جائے تو اسے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ شکاری اور تربیت یافتہ کتے کے جھوٹے کا بھی وہی حکم ہے جو غیر تربیت یافتہ کتے کے جھوٹے کا حکم ہے کہ وہ حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت مطہرہ نے اس شکار کے کھانے کی اجازت نہیں دی جسے کتے نے کھایا ہو، خواہ تھوڑا سا حصہ ہی سہی۔ حکمت اس کی یہی معلوم ہوتی ہے کہ امت اور مخلوق کے حقیقی خیر خواہ انہیں کتے کے زہریلے جراثیم کے خطرناک نتائج سے محفوظ رکھنا چاہیے ہیں …ﷺ… مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: (سنن نسائي (اردو) ج: 1، ص: 318-322 طبع دار السلام)
(5) اس حدیث سے ضمناً یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایک جانور کو شکار کرنے کے لیے کتا چھوڑا جائے لیکن کتا اس کے علاوہ کوئی دورا جانور مالک کی خاطر شکار کر لے تو اس کو کھانا بھی جائز ہے کیونکہ کتے نے اسے اپنے مالک کے لیے شکار کیا ہے۔
(6) کتے کا شکار جائز ہے مگر اس کے لیے دو شرطیں ہیں: بسم اللہ پڑھ کر کتا چھوڑا جائے اور اس کے ساتھ کوئی ایسا کتا شریک نہ ہو جس کو چھوڑتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو، کتا شکار کے لیے سدھایا گیا ہو، یعنی وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑے نہ کہ اپنے لیے، اور اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ شکار کو صرف پکڑے، کھائے نہ۔ اگر کھا لے تو وہ سدھایا ہوا شمار نہ ہو گا۔ بعض علماء نے یہ بھی ضروری قرار دیا ہے کہ وہ کتا شکار کو بھنبھوڑ کر نہ مار دے بلکہ دانت لگائے اور جانور خون نکلنے سے ختم ہو ورنہ بھنبھوڑنے سے مرنے والا جانور حلال نہ ہو گا۔
(7) جس شخص کا ذبیحہ حلال ہے، اسی کے چھوڑے ہوئے کتے کا شکار حلال ہے، مثلاً: مسلمان، یہودی، عیسائی۔ اور جس شخص کا ذبیحہ حلال نہیں، اس کے چھوڑے ہوئے کتے کا شکار بھی حلال نہیں، مثلاً: بت پرست، مجوسی، آتش پرست وغیرہ۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4268   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4269  
´جس شکار پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے کھانے کی ممانعت کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «معراض» (بے پر کے تیر) کے شکار کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر اسے نوک لگی ہو تو کھاؤ اور اگر اسے آڑی لگی ہو تو وہ «موقوذہ» ہے ۱؎ میں نے آپ سے کتے کے (شکار کے) بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب تم (شکار پر) کتا دوڑاؤ پھر وہ اسے پکڑے اور اس میں سے کھایا نہ ہو تو تم اسے کھاؤ اس لیے کہ اس کا پکڑ لینا ہی گویا شکار کو ذبح کرنا ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4269]
اردو حاشہ:
معراض ایک خاص قسم کا تیر ہوتا تھا جس کے نہ تو پر ہوتے تھے نہ نوک۔ بس ایک چھڑی سمجھ لیجیے۔ اس کی چوٹ سے شکار مر جاتا تھا جبکہ تیر کے شکار میں ضروری ہے کہ تیر کی نوک لگے تاکہ جانور خون نکل کر ختم ہو۔ اگر تیر بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا گیا ہو تو خون نکل کر ختم ہونے کی وجہ سے یہ ذبح کے قائم مقام ہے، لہٰذا اس کا کھانا جائز ہے، البتہ چوٹ لگے تو پھر ذبح شرط ہے ورنہ وہ جانور حرام ہو گا۔ بندوق سے کیے گئے شکار کا بھی یہی حکم ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4269   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4270  
´سدھائے ہوئے کتے کے شکار کے حکم کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میں (شکار پر) سدھایا ہوا کتا چھوڑتا ہوں اور وہ جانور پکڑ لیتا ہے؟ آپ نے فرمایا: جب تم سدھایا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو پھر وہ شکار پکڑے تو تم اسے کھاؤ میں نے عرض کیا: اگر وہ اسے مار ڈالے؟ تو آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ اسے مار ڈالے۔‏‏‏‏ میں نے عرض کیا: میں معراض پھینکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: اگر نوک لگے تو کھاؤ اور اگر آڑا لگے تو نہ کھاؤ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4270]
اردو حاشہ:
سدھائے ہوئے اور تربیت یافتہ کتے سے شکار کرنا جائز ہے، نیز سدھائے اور غیر سدھائے کتوں کے شکار کا فرق ہے۔ اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ تیر اور اس قسم کی دیگر چیزوں، مثلاً: بندوق وغیرہ کے ذریعے سے شکار کرنا بھی جائز ہے، تاہم اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تیر یا بندوق کی گولی شکار کیے جانے والے پرندے یا جانور کا خون نکال دے، اسے محض چوٹ کے انداز پہ نہ مار ڈالے، یعنی ان کے ذریعے سے بھی اس طرح سے شکار کیا جائے جس طرح دھار دار چیز سے کیا جاتا ہے۔ اگر تیر یا بندوق وغیرہ بسم اللہ پڑھ کر چلائی جائے اور شکار مر جائے تو وہ شکار حلال ہے بصورت دیگر ناجائز ہو گا، تاہم اگر بندوق چلاتے وقت شکاری اللہ کا نام لینا بھول جائے تو ایسی صورت میں اس شکار کو کھانا جائز ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بھول چوک معاف فرما دی ہے۔ و اللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4270   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4273  
´جب کوئی اپنے کتے کے ساتھ کسی اور کتے کو شریک پائے جس پر اس نے «بسم اللہ» نہ پڑھی ہو؟`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا: جب تم (شکار پر) اپنا کتا چھوڑو پھر اس کے ساتھ کچھ ایسے کتے بھی شریک ہو جائیں جن پر تم نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہے تو تم اسے مت کھاؤ۔ اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ اسے کس کتے نے قتل کیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4273]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا اگر ان کو چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی گئی ہو، خواہ کسی دوسرے نے پڑھی ہو تو شکار حلال ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4273   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4280  
´کتا شکار میں سے کچھ کھا لے تو کیا حکم ہے؟`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: جب تم اپنے کتے کو چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام لے لو پھر وہ اسے مار ڈالے اور اس نے اس میں سے کچھ نہ کھایا ہو تو تم کھاؤ، اور اگر اس نے اس میں سے کچھ کھایا ہو تو مت کھاؤ اس لیے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہے نہ کہ تمہارے لیے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4280]
اردو حاشہ:
نہ کہ تیرے لیے مقصد یہ ہے کہ وہ کتا سدھایا ہوا نہیں، لہٰذا اس کا شکار جائز نہیں۔ حدیث کا اس قدر تکرار تمام تفصیلات بتانے کے لیے ہے، نیز یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ یہ حدیث غریب (ایک آدھ سند والی) نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4280   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4305  
´شکار تیر کھا کر غائب ہو جائے تو کیا کیا جائے؟`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ شکاری ہیں، ہم میں سے ایک شخص شکار کو تیر مارتا ہے تو وہ ایک رات یا دو رات غائب ہو جاتا ہے، وہ اس کا پتا لگاتا ہے یہاں تک کہ اسے مردہ پاتا ہے اور اس کا تیر اس کے اندر ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: جب تم اس میں تیر پاؤ اور اس میں کسی درندے کا نشان نہ ہو اور تمہیں یقین ہو جائے کہ وہ تمہارے تیر سے مرا ہے تو اسے کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4305]
اردو حاشہ:
البتہ یہ ضروری ہے کہ وہ بدبودار نہ ہو چکا ہو اور نہ کسی درندے نے اسے کھایا ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4305   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2848  
´شکار کرنے کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم ان کتوں سے شکار کرتے ہیں (آپ کیا فرماتے ہیں؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتوں کو اللہ کا نام لے کر شکار پر چھوڑو تو وہ جو شکار تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں انہیں کھاؤ گرچہ وہ انہیں مار ڈالیں سوائے ان کے جنہیں کتا کھا لے، اگر کتا اس میں سے کھا لے تو پھر نہ کھاؤ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2848]
فوائد ومسائل:

کتے سے شکار کرنا حلال اور جائز ہے۔


شرط یہ ہے کہ کتا سدھایا ہوا ہو۔
اور اپنے مالک کی ہدایات پر کما حقہ عمل کرتا ہو۔
یعنی اگر چھوڑے اور دوڑائے تو دوڑ جائے۔
اور اگر واپس بلائے تو واپس آجائے۔


اور پھر یہ بھی ہے کہ مالک کے چھوڑنے پر شکار کرے۔
اگر از خود شکار مار لایا تو حلال نہ ہوگا۔


کتا چھوڑتے ہوئے بسم اللہ واللہ اکبر پڑھے۔
اگر بھول جائے تو معاف ہے۔
اور شکارحلال ہے۔
کیونکہ اللہ کا نام ہر مسلمان کے دل میں ہے۔
البتہ عمدا چھوڑ دینے سے شکار حلال نہ ہوگا۔

کتا اس شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ مالک کے لئے روک رکھے اور اگر کھایا ہو تو حلال نہ ہوگا۔


اگر شکار زندہ ہو تو بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کراسے ذبح کرے۔


اگر کوئی اور کتا ان کتوں کے ساتھ مل گیا مل گیا ہو اور معلوم نہ ہو کس نے مارا ہے۔
یا نہ معلوم دوسرے کتے پر بھی بسم اللہ پڑھی گئی ہے یا نہیں۔
تو حلال نہ ہوگا۔
اگر معلوم ہو جائے کہ دوسرے پر بھی بسم اللہ پڑھی گئی ہے۔
تو بلا بلاشبہ حلال ہوگا۔


بھالے سے بھی شکار حلال اور جائز ہے۔
بشرط یہ کہ بسم اللہ پڑھ کر پھینکے اور دھار کی جانب سے شکار کو لگے اور اسے ذخمی کردے۔
اگر چوڑائی کی طرف سے لگا ہو اور شکار مر گیا ہو تو حلال نہ ہوگا۔


بندوق کی گولی اور چھرہ بھی بعض علماء (امام شوکانی سید سابق اورعلامہ یوسف قرضاوی وغیرہ۔
)
کےنزدیک اسی حکم میں ہے۔
یعنی ان کا شکار بھی حلال ہے۔
کیونکہ ان کے خیال میں بندوق کی گولی بھی شکار کو پھاڑ دیتی ہے اور خون نکال دیتی ہے۔

10۔
لیکن غلیل سے مارا ہوا شکار اس کی چوٹ سے مر جائے تو حلال نہیں کیونکہ وہ چیرتی ہے۔
نہ خون بہاتی ہے۔
بلکہ وہ واضح طور پر غلیلے کی چوٹ سے مرتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2848   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2849  
´شکار کرنے کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم بسم اللہ کہہ کر تیر چلاؤ، پھر اس شکار کو دوسرے روز پاؤ (یعنی شکار تیر کی چوٹ کھا کر نکل گیا پھر دوسرے روز ملا) اور وہ تمہیں پانی میں نہ ملا ہو ۱؎، اور نہ تمہارے تیر کے زخم کے سوا اور کوئی نشان ہو تو اسے کھاؤ، اور جب تمہارے کتے کے ساتھ دوسرا کتا بھی شامل ہو گیا ہو (یعنی دونوں نے مل کر شکار مارا ہو) تو پھر اس کو مت کھاؤ، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ اس جانور کو کس نے قتل کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ دوسرے کتے نے اسے قتل کیا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2849]
فوائد ومسائل:
مشکوک شکار کا کھانا حلال نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2849   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2851  
´شکار کرنے کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کتے یا باز کو تم سدھا رکھو اور اسے اللہ کا نام لے کر یعنی (بسم اللہ کہہ کر) شکار کے لیے چھوڑو تو جس شکار کو اس نے تمہارے لیے روک رکھا ہو اسے کھاؤ۔‏‏‏‏ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اگرچہ اس نے مار ڈالا ہو؟ آپ نے فرمایا: جب اس نے مار ڈالا ہو اور اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو تو سمجھ لو کہ اس نے شکار کو تمہارے لیے روک رکھا ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: باز جب کھا لے تو اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں اور کتا جب کھا لے تو وہ مکروہ ہے اگر خون پی لے تو کوئی حرج نہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2851]
فوائد ومسائل:
یہ روایت اس سند کے ساتھ ضعیف ہے۔
لیکن معناً صیح ہے۔
کیونکہ دوسری صحیح روایات میں یہ بات بیان ہوئی ہے۔
اس لئے بعض علماء نے اس روایت کی بھی تصیح کی ہے۔
البتہ باز کا ذکر اس میں ان کے نزدیک منکر ہے۔
یعنی صحیح روایات کے خلاف ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2851   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2853  
´شکار کرنے کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنے شکار کو تیر مارتا ہے پھر اسے دو دو تین تین دن تک تلاش کرتا پھرتا ہے، پھر اسے مرا ہوا پاتا ہے، اور اس کا تیر اس میں پیوست ہوتا ہے تو کیا وہ اسے کھائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگر چاہے یا فرمایا: کھا سکتا ہے اگر چاہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصيد /حدیث: 2853]
فوائد ومسائل:
جب یقین ہے کہ وہ شکار اس کے اپنے تیر سے مرا ہے۔
تو حلال ہے۔
بشرط یہ کہ گوشت خراب نہ ہوا ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2853   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3208  
´کتوں کے کیے ہوئے شکار کا حکم۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ہم ایک ایسی قوم ہیں جو کتوں سے شکار کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سدھائے ہوئے کتوں کو «بسم الله» کہہ کر چھوڑو، تو ان کے اس شکار کو کھاؤ جو وہ تمہارے لیے روکے رکھیں، چاہے انہیں قتل کر دیا ہو، سوائے اس کے کہ کتے نے اس میں سے کھا لیا ہو، اگر کتے نے کھا لیا تو مت کھاؤ، اس لیے کہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کتے نے اسے اپنے لیے پکڑا ہو، اور اگر اس سدھائے ہوئے کتوں کے ساتھ دوسرے کتے بھی شریک ہو گئے ہوں تو بھی مت کھاؤ ۱؎۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ میں نے علی بن من۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3208]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سدھایا ہوا کتا جب تکبیر پڑھ کر چھوڑا جائے تو اس کا مارا ہوا جانور حلال ہے۔

(2)
اگر کتا شکار میں سے خود کچھ کھالے تو اس جانور کا باقی حصہ حرام ہے وہ بھی کتے ہی کو کھلا دینا چاہیے۔

(3)
اگر جانور کے شکار میں دوکتے شریک ہیں ایک پر تکبیر پڑھی گئی ہے دوسرے پر نہیں پڑھی گئی ہے تب بھی وہ حرام ہے کیونکہ ممکن ہےاسے دوسرے کتے نے مارا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3208   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3212  
´تیر کمان سے شکار کا حکم۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم تیر انداز لوگ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تیر مارو اور وہ (شکار کے جسم میں) گھس جائے، تو جس کے اندر تیر پیوست ہو جائے اسے کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3212]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  جب تیر شکار کے جسم میں گھس کر اسے زخمی کر دے تو تکبیر پڑھ کر چھوڑے ہوئے اس تیر سےکیا ہوا شکار حلال ہے۔

(2)
  رائفل کی گولی یا چھرے کا عمل بھی اس کی تیزی کی وجہ سے تیر سے مشابہ ہے لہٰذا اس کا شکار بھی حلال ہے۔
واللہ اعلم
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3212   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3215  
´ہتھیار کی چوڑان سے کیے ہوئے شکار کا حکم۔`
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہتھیار کی چوڑان سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شکار میں تیر پیوست ہوا ہو صرف اسی کو کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3215]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
معراض ایک قسم کا تیر ہوتا تھا جوصرف لکڑی کے ایک نوک دار ٹکڑے پر مشتمل ہوتا تھا اس میں لوہے کا پھل وغیرہ نہیں لگا ہوتا تھا۔

(2)
  اگر معراض شکار کو نوک کی طرف سے لگے تو وہ بدن میں گھس کر زخمی کرتا ہے اس صورت میں وہ عام تیر کا کام کرتا ہے اس لیے اس صورت میں وہ شکار حلال ہے لیکن چوڑائی کے رخ لگنے پر وہ لاٹھی کی طرح چوٹ لگاتا ہے اس سے اگر جانور مرجائے تو وہ حرام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3215   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1465  
´کتے کا کون سا شکار کھایا جائے اور کون سا نہ کھایا جائے؟`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکار کے لیے) روانہ کرتے ہیں (یہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ (شکار کو) مار ڈالیں (پھر بھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو، عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ «معراض» (ہتھیار کی چوڑان) سے شکار کرتے ہیں، (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: جو (ہتھیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1465]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سدھائے ہوئے جانور کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار پرچھوڑا جائے تودوڑتا ہوا جائے،
جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔
اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے:

(1)
سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے۔

(2)
کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو۔

(3)
اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکارکر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں،
یہی جمہور علماء کا قول ہے۔

(4) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو۔

(5) سکھائے ہوئے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہوگا۔

(6) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1465   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1467  
´باز کے شکار کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے شکار کے متعلق پوچھا؟ تو آپ نے فرمایا: وہ تمہارے لیے جو روک رکھے اسے کھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1467]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں مجالد ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1467   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1468  
´آدمی شکار کو تیر مارے اور شکار غائب ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکار کو تیر مارتا ہوں پھر اگلے دن اس میں اپنا تیر پاتا ہوں (اس شکار کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہارے ہی تیر نے شکار کو مارا ہے اور تم اس میں کسی اور درندے کا اثر نہ دیکھو تو اسے کھاؤ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1468]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مفہوم یہ ہے کہ اس شکار پر تیر کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز کا بھی اثر ہے جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی موت اس دوسرے اثر سے ہوئی ہو تو ایسا شکار حلال نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1468   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1469  
´شکاری شکار پر تیر چلائے پھر اسے پانی میں مردہ پائے تو کیا کرے؟`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم اپنا تیر پھینکتے وقت اس پر اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھو، پھر اگر اسے مرا ہوا پاؤ تو بھی کھا لو، سوائے اس کے کہ اسے پانی میں گرا ہوا پاؤ تو نہ کھاؤ اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ پانی نے اسے مارا ہے یا تمہارے تیر نے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1469]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اگر تیر کی مار کھانے کے بعد یہ شکار تیر کے سبب پانی میں گرا ہو پھر شکاری نے اسے پکڑلیا ہو تو یہ حلال ہے،
کیونکہ اب اس کا شبہ نہیں رہا کہ وہ پانی میں ڈوب کر مرا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1469   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1470  
´کتا شکار میں سے کھا لے اس کے حکم کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سدھائے ہوئے کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا روانہ کرو، اور (بھیجتے وقت اس پر) اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھ لو تو تمہارے لیے جو کچھ وہ روک رکھے اسے کھاؤ اور اگر وہ شکار سے کچھ کھا لے تو مت کھاؤ، اس لیے کہ اس نے شکار اپنے لیے روکا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر ہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے شریک ہو جائیں؟ آپ نے فرمایا: تم نے اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) اپنے ہی کتے پر پڑھا ہے دوسرے کتے پر نہیں۔‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1470]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپﷺ نے جو یہ فرمایا کہ بسم اللہ تم نے صرف اپنے کتے پر پڑھا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ایسے کتے کا شکار جس کے ساتھ دوسرے کتے شریک رہے ہوں کھانا درست نہیں سمجھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1470   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1471  
´بغیر پر کے تیر کے شکار کا بیان۔`
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر پر کے تیر کے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: جسے تم نے دھار سے مارا ہے اسے کھاؤ اور جسے عرض (بغیر دھاردار حصہ یعنی چوڑان) سے مارا ہے تو وہ «وقيذ» ہے ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1471]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:

وقیذ:
وہ شکار ہے جسے لاٹھی،
پتھر اور ایسے ہتھیارسے مارا جائے جو دھار والے نہ ہوں،
حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہواکہ جب شکار کے لیے تیر اور اسی جیسے دوسرے دھار دار ہتھیار کا استعمال ہوتو یہ شکار حلال ہے اور اگر چوڑان سے ہوتو حلال نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1471   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:938  
938- سیدنا عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لاٹھی کے ذریعے شکار کرنے کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم اسے نہ کھاؤ صرف وہ کھاؤ جسے تم نے ذبح کیا ہو۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:938]
فائدہ:
اس حدیث میں شکار کا ایک مسئلہ بیان ہوا ہے کہ اگر کسی جانور کو معراض (تیر کا درمیانی موٹا حصہ) سے چوٹ آئے اور اس کو زندہ ہی پکڑ لیا جائے تو اس کو ذبح کر کے کھایا جا سکتا ہے، اگر وہ معراض سے مر جائے تو اس کو کھانا حرام ہے، نیز اگلی حدیث دیکھیے۔
اگر جانور وغیرہ کو تیر وغیرہ مارنے سے پہلے «بسم الله والله اكبر» پڑھ لیا جائے، پھر وہ مر جائے تو وہ حلال ہے لیکن حدیث میں جس صورت کا ذکر ہے، وہ ذبح کرنا ضروری ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 938   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:942  
942- سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت یافتہ کتے کے شکار کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم اپنے تربیت یافتہ کتے کوچھوڑتے ہوئے اس پر اللہ کا نام لے لو تو جو شکار وہ تمہارے لیے کرے اسے تم کھالو۔ اگر وہ خود (اس شکار میں سے کچھ) کھالے، تو تم اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ شکاراس نے اپنے لیے کیا ہے۔‏‏‏‏ میں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے کہ اگر ہمارے کتوں کے ساتھ دوسرے کتے بھی آکر مل جاتے ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم نے اپنے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:942]
فائدہ:
اس حدیث میں شکار کے بعض مسائل کا ذکر ہے، شکاری کتا اس کو کہتے ہیں جس کو جہاں روکا جائے وہاں رک جائے اور جب اس کو کسی چیز کے پکڑنے کا حکم دیا جائے تو وہ دوڑ پڑے اور شکار کیے ہوئے جانور کو خود نہ کھائے بس پکڑ کر مالک کے پاس لے آئے، حلال و حرام میں مشکوک سے پر ہیز رکھنا چاہیے، حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 941   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4972  
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، اے اللہ کے رسولﷺ! میں سدھائے ہوئے کتے چھوڑتا ہوں اور وہ میرے لیے شکار روک لیتے ہیں اور میں اس پر اللہ کا نام بھی لیتا ہوں، تو آپﷺ نے فرمایا: جب تو اپنا سدھایا ہوا کتا اس پر اللہ کا نام لے کر (بسم اللہ پڑھ کر) چھوڑے تو اسے کھا لے۔ میں نے سوال کیا، اگرچہ وہ قتل کر ڈالیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اگرچہ وہ قتل کر ڈالیں، جب تک ان کے ساتھ کوئی اور کتا شریک نہ ہو۔ میں نے آپ ﷺ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4972]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
معراض:
موٹا ڈنڈا،
وہ تیر جس کا پر نہ ہو،
وہ لاٹھی جس کا سر لوہے کا ہو،
یا نوکدار لاٹھی۔
(2)
خرق:
چیر کراس کے اندر چلا جائے،
یعنی اس سے خون نکال دے۔
فوائد ومسائل:
(1)
وہ کتا یا شکاری جانور جس کو شکار کی تعلیم دی جائے اور وہ شکار کی تعلیم حاصل کر لے،
شکاری کی بات تسلیم کرے،
اگر اس کو بسم اللہ پڑھ کر شکار پر چھوڑا جائے اور شکار کر لے تو اس کو کھانا بالاتفاق جائز ہے،
امام مالک اور ابو حنیفہ کے نزدیک اگر ذبیحہ یا شکار پر بسم اللہ پڑھنا بھول جائے،
تو اس ذبیحہ اور شکار کا کھانا جائز ہے اور امام احمد کے نزدیک ذبیحہ پر بسم اللہ پڑھنا بھول جائے،
تو اس کا کھانا جائز ہے،
لیکن صید (شکار)
پر بسم اللہ پڑھنا بھول جائے،
تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے،
(المغني ج 12،
نمبر 290)

۔
لیکن امام شافعی کے نزدیک ذبیحہ اور شکار پر بسم اللہ پڑھنا سنت ہے،
واجب نہیں ہے،
اس لیے اگر عمداً (جان بوجھ کر)
یا نسیانا (بھول کر)
بسم اللہ نہ پڑھے تو کھانا جائز ہے،
جمہور علماء کا موقف ہی درست ہے،
کہ عمدا بسم اللہ چھوڑنے کی صورت میں کھانا جائز نہیں ہے،
امام احمد کے نزدیک سیاہ کتے کا شکار جائز نہیں ہے۔
(2)
جو شکار معراض سے کیا جائے اور وہ چوڑائی سے لگے،
جس سے شکار سے خون نہ نکلے تو وہ موقوذہ کے حکم میں ہے جس کا کھانا جائز نہیں ہے،
جمہور ائمہ ابو حنیفہ،
مالک،
شافعی،
احمد،
اسحاق وغیرہم کا یہی موقف ہے۔
شکاری بندوق سے اگر خون نکل جائے،
تو پھر اس کا شکار جائز ہو گا،
اگر غلیل کی طرح خون نہ بہے،
تو پھر ذبح کے بغیر جائز نہ ہو گا۔
(المغني ج 12 ص 283)
۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4972   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4977  
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معراض کے شکار کے بارے میں سوال کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو شکار اپنی دھار سے کرے، تو اسے کھا لو اور جو اپنے عرض سے کرے تو وہ چوٹ کھایا ہوا ہے۔ (جس کا کھانا جائز نہیں ہے) اور میں نے آپ سے کتے کے شکار کے بارے میں دریافت کیا؟ تو آپﷺ نے فرمایا: جو شکار تیرے لیے کرے اور اس سے خود نہ کھائے تو اسے کھا لو، کیونکہ اس کا پکڑ لینا ہی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4977]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر شکاری کتا شکار کو پکڑ لیتا ہے اور وہ مر جاتا ہے،
تو اس کا پکڑنا ہی بالاتفاق ذبح کرنا ہے،
لیکن اگر وہ اسے زندہ پکڑ لیتا ہے،
یا اس میں اتنی دیر تک زندگی رہتی ہے کہ اس کو ذبح کیا جا سکتا ہے،
تو پھر اسے ذبح کرنا ہو گا،
اس طرح اگر شکار کرنے میں دوسرا کتا شریک ہو اور شکار کو ذبح کر لیا جائے،
تو وہ جائز ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4977   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4981  
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: جب اپنا کتا چھوڑو تو اللہ کا نام لو، اگر وہ تیرے لیے روک لے اور تم اسے زندہ پا لو تو اسے ذبح کر لو اور اگر اسے اس حال میں پاؤ کہ اس نے اس کو قتل کر ڈالا ہو اور اس سے کھایا نہیں ہے، تو اسے کھا لو اور اگر اپنے کتے کے ساتھ کوئی اور کتا دیکھو اور وہ شکار کو قتل کر چکا ہو، تو نہ کھاؤ، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں، ان میں سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4981]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر انسان تیر سے شکار کھیلتا ہے اور شکار تیر کھانے کے بعد غائب ہو جاتا ہے اور اس میں اس کے تیر کے سوا کوئی نشان نہیں ہے اور شکاری نے اس کا پیچھا کیا ہے،
بیٹھ نہیں گیا،
تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا کھانا جائز ہے،
امام احمد کا مشہور قول یہی ہے،
شافعیہ کے نزدیک جائز نہیں ہے اور امام مالک کا ایک قول ہے جائز ہے اور دوسرا قول یہ ہے،
اگر رات گزر جائے تو جائز نہیں وگرنہ جائز ہے اور غرق ہونے کی صورت میں چونکہ یہ احتمال ہے کہ وہ ڈوبنے سے مرا اس لیے جائز نہیں ہے،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
اگر کہیں دو سبب جمع ہو جائیں،
ایک سے اباحت ثابت ہو اور دوسرے سے حرمت،
تو حکم حرمت والے سبب کے مطابق لگایا جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4981   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:175  
175. حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم ﷺ سے (کتے کے شکار کے متعلق) دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑے اور وہ شکار کرے تو اسے کھا لے۔ اگر وہ کتا خود اس سے کچھ کھا لے تو اسے مت کھا، کیونکہ اب اس نے شکار اپنے لیے کیا ہے۔ میں نے پھر عرض کیا: بعض دفعہ میں اپنے کتے کو شکار کے لیے چھوڑتا ہوں، پھر اس کے ساتھ کسی دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ایسے شکار کو مت کھا کیونکہ تو نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی، دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:175]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسری روایت میں وضاحت فرمائی ہے کہ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتوں سے شکار کرنے کے متعلق دریافت کیا تھا۔
(صحیح البخاري، الذبائح والصید، حدیث: 5487)
لیکن اس مقام پر اس حدیث کے بیان کرنے کا مقصد شکار کے احکام ومسائل بتانا نہیں بلکہ کتے کے لعاب کو پاک کہنے والوں کے دلائل بیان کرنا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ دلالت صحیح ہے یا غلط، لعابِ کلب کو طاہر کہنے والوں کا استدلال بایں طور ہے کہ اگر وہ نجس ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورحکم دیتے کہ کتے نے جس جس جگہ سے شکار کے جانور کوپکڑا ہے ان تمام مقامات کو دھویا جائے، کیونکہ وہاں لعاب لگا ہو گا۔
آپ نے ایسا حکم نہیں دیا، لہٰذا یہ پاک ہے، حالانکہ یہ استدلال مبہمات میں سے ہے۔
صریح احادیث کی موجودگی میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
واضح احادیث میں سؤر کلب کو نجس قراردیا گیا ہے جس کی پہلے ہم وضاحت کر آئے ہیں، نیز یہ استدلال منطوق سے نہیں بلکہ مسکوت عنہ سے ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقامات کے دھونے سے سکوت فرمایا، اس لیے ان کی طہارت ثابت ہوئی، حالانکہ جس طرح آپ نے لعاب دھونے کا حکم نہیں دیا، اسی طرح زخموں سے بہنے والا خون صاف کرنے کا حکم بھی نہیں دیا، تو کیا اس خون کو بھی پاک قراردیا جائے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ شکار کرنے والوں کو یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں کہ اس کا خون اور لعاب دھویا جاتا ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کتے کا لعاب نجس ہوتا تو اس کے شکار کوکھانے کا جواز نہ ہوتا، لیکن محدث اسماعیلی نے اس کا جواب دیا ہے کہ حدیث نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کتے کے شکار کو مار دینا اس کے ذبح کرنے کا قائم مقام ہے، اس میں نجاست کا ثبوت ہے نہ اس کی نفی ہی ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخم سے بہنے والے خون کو بھی دھونے کا حکم نہیں دیا اور جو بات پہلے سے طے شدہ تھی اسے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی، اسی طرح لعاب کلب کی نجاست اور اس کے دھونے کی بات بھی دوسرے ارشادات کی روشنی میں طے شدہ تھی، لہٰذا اس کا ذکر نہیں فرمایا۔
(فتح الباري: 366/1)

جب کتے یا کسی اور جانور یا پرندے کو شکارکی ٹریننگ دی جاتی ہے تو یہ چیز اسے دوسرے جانوروں سے ممتاز کردیتی ہے، لہٰذا ایک عام کتے کے شکار اور سدھائے ہوئے کتے کے شکار میں بھی فرق ایک فطری امر ہے، بلکہ ایک مسلمان کے سدھائے ہوئے کتے اور غیر مسلم کے تربیت کردہ کتے کے میلان اور سلیقے میں بھی فرق آجاتا ہے۔
شکار کے متعلق دیگر مباحث آئندہ كتاب الذبائح والصید میں بیان ہوں گے، بہرحال کلب معلم کی حدیث پیش کرنے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمومی طور پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لعاب کلب کی طہارت کے قائل نہیں ہیں۔
وھوالمقصود۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 175   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5475  
5475. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نوک دار لکڑی سے کیے ہوئے شکار کے متعلق نبی ﷺ سے دریافت کیا؟ آپ نے فرمایا: اگر شکار اس کی نوک سے زخمی ہو جائے تو اسے کھا لو لیکن اگر عرض (چوڑائی) کے بل اسے لگے تو اسے نہ کھاؤ کیونکہ یہ موقوذہ ہے۔ میں نے کتے سے کیے ہوئے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ کتا تیرے کیے شکار کو روک رکھے تو کھا لو کیونکہ کتے کا شکار کو پکڑ لینا بھی ذبح کے حکم میں ہے۔ اگر تم اپنے کتے یا اپنے کتوں کے ساتھ کوئی دوسرا کتا بھی پاؤ تمہیں اندیشہ ہو کہ اس کتے کے ساتھ دوسرے کتے نے شکار پکڑا ہوگا اور وہ شکار کو مار چکا ہو تو ایسے شکار کو نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اللہ کا نام اپنے کتے پر لیا تھا دوسرے کتے پر اللہ کا نام نہیں لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5475]
حدیث حاشیہ:
(1)
جانور کے حلال ہونے کی دو صورتیں ہیں:
ایک تو یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے، یعنی بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جس جانور پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے اسے کھاؤ۔
(الأنعام: 118)
دوسری صورت یہ ہے کہ شکاری کتا چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی جائے بشرطیکہ وہ کتا سدھایا ہوا ہو۔
سدھایا ہوا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا کتا شکار پر چھوڑا جائے جو دوڑتا ہوا جائے، جب اسے روکا جائے تو رک جائے اور جب شکار پکڑے تو اس میں سے کچھ نہ کھائے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا:
اگر تم نے سدھائے ہوئے کتے سے شکار کیا اور چھوڑتے وقت تو نے اس پر اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر تم غیر سدھائے کتے سے شکار کرو پھر تمہیں اسے ذبح کرنے کا موقع مل جائے تو اسے بھی کھا سکتے ہو۔
(صحیح البخاري، الذبائح و الصید، حدیث: 5478) (2)
ہمارے رجحان کے مطابق شکاری کتے سے کیے ہوئے شکار کو کھانے کی دو شرطیں ہیں:
٭ وہ کتا سدھایا ہوا ہو۔
٭ چھوڑتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
ان دو شرطوں کے بغیر شکار حلال نہ ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5475   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5476  
5476. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نوکدار لکڑی سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: جب تم اس کی نوک سے شکار کو مار لو تو اسے کھاؤ لیکن اگر عرض کے بل شکار کو لگے اور جانور مر جائے تو وہ موقوذہ (مردار) ہے اسے نہ کھاؤ۔ میں نے دوسرا سوال کیا کہ میں اپنا کتا بھی چھوڑتا ہوں؟ پھر میں اس کے ساتھ دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: وہ شکار تم نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی دوسرے ہر نہیں پڑھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5476]
حدیث حاشیہ:
(1)
معراض، اس لکڑی کو کہتے ہیں جس کا ایک کنارہ تیز ہوتا ہے یا تیز دھار لوہا لگا ہوتا ہے، اگر اس کی نوک یا تیز دھار اسے زخمی کر دے تو ذبیحہ ہے، اسے کھانا جائز ہے۔
اگر شکار کو وہ لکڑی چوڑائی کے بل لگے اور چوٹ لگنے سے وہ مر جائے تو وہ موقوذہ (مردار)
کے حکم میں ہے۔
اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔
(2)
ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ لکڑی کی نوک یا تیز دھار لگنے سے شکار کٹ جاتا ہے جبکہ چوڑائی کے بل لگنے سے شکار کٹتا نہیں بلکہ پھٹ جاتا ہے۔
کٹنے سے خون بہتا ہے تو ذبح کے حکم میں ہے جبکہ جلد پھٹ جانے سے ایسا نہیں ہوتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5476   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5477  
5477. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم شکار کے لیے سدھائے ہوئے کتے چھوڑتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لے آئیں اسے کھا لو۔ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ اسے مار ڈالیں۔ میں نے عرض کیا: ہم نوکدار لکڑی سے بھی شکار کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: اگر اس کی دھار شکار کو زخمی کر کے چیر دے تو اسے کھا لو اور اگر لکڑی عرض کے بل لگے تو اسے نہ کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5477]
حدیث حاشیہ:
(1)
شکاری کتے کے شکار کے متعلق دو شرطیں ہیں:
اگر اسے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھی تھی اور اس نے شکاری کے لیے اس شکار کو روکے رکھا، اس سے خود نہیں کھایا تو ایسے شکار کو کھانا جائز ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ رکھیں اسے کھاؤ اور اس جانور کو اللہ کا نام لے کر چھوڑو۔
(المائدة: 5/5) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نوک دار لکڑی سے کیے ہوئے شکار کی دو حالتیں ہیں:
اگر نوک یا تیز دھار لگنے سے شکار مر جائے تو اسے کھانا جائز ہے اور اگر چوڑائی کے بل لگنے سے شکار مرا ہے تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے جبکہ امام اوزاعی، مکحول اور شام کے فقہا رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ جو شکار نوک دار لکڑی سے کیا جائے، اسے مطلق طور پر کھانا جائز ہے، خواہ وہ عرض کے بل لگنے سے پھٹ جائے یا نوک اور دھار لگنے سے کٹ جائے، اسی طرح حضرت ابو درداء اور فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بھی اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے۔
(عمدة القاري: 478/14)
بہرحال حدیث میں اس کی تفصیل ہے، اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5477   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5483  
5483. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ ہم لوگ ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتوں کو شکار پرچھوڑتے وقت اللہ کا نام لیتے ہو تو جو شکار وہ تمہارے لیے پکڑ کر لائیں اسے کھاؤ خواہ وہ اسے مار ہی ڈالیں لیکن اگر کتا شکار میں سےخود بھی کھا لے تو اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار خود اپنے لیے پکڑا تھا۔ اگر تمہارے کتوں کے علاوہ دوسرے کتے بھی شریک ہو جائیں تو ایسے شکار کو مت کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5483]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کتا اگر شکار کرنے کے بعد خود اس میں سے کھا لے تو اسے نہیں کھانا چاہیے کیونکہ اس میں یہ اندیشہ ہے کہ اس نے یہ شکار مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا تھا لیکن ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ اگر کتا اس میں سے خود بھی کھا لے تو بھی مالک کے لیے اس کا کھانا جائز ہے۔
(سنن أبي داود، الصید، حدیث: 2852)
محدثین نے ان احادیث میں تطبیق کی کئی ایک صورتیں بیان کی ہیں جو حسب ذیل ہیں:
٭ علامہ عینی رحمہ اللہ نے ابوداود کی حدیث کو داود بن عمرو کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
(عمدة القاري: 476/14)
لیکن جو روایت ہم نے ذکر کی ہے اس میں یہ راوی نہیں ہے۔
وہ حدیث: 2848 میں ہے۔
یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔
٭ اس کی تاویل اس طرح کی گئی ہے کہ شکاری کتے نے شکار پکڑ کر مار ڈالا اور اسے مالک کے لیے رکھ چھوڑا، خود وہاں سے دور چلا گیا، پھر دوبارہ واپس آ کر اس سے کچھ کھا لیا تو اس حالت میں مالک کے لیے کھانا جائز ہے، ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ چونکہ غریب اور نادار تھے، اس لیے ان کے لیے اجازت دی گئی حضرت عدی بن حاتم مال دار تھے ان کے لیے اجازت نہ دی گئی۔
بہرحال حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اور پہلو بھی ذکر کیے ہیں، (فتح الباري: 745/9)
تاہم احتیاط کا تقاضا ہے کہ اگر کتا خود کھا لے تو مالک اسے نہ کھائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5483   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5486  
5486. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں اور اس پر بسم اللہ پڑھتا ہوں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تو بسم اللہ پڑھ کر کتا چھوڑے اور وہ شکار پکڑ کر اسے مار دے، پھر اس سے کچھ کھالے تو اسے مت کھا کیونکہ اس نے یہ شکار اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے عرض کی: اپنا کتا چھوڑتا ہوں، پھر اس کے پاس کوئی دوسرا کتا پاتا ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ یہ شکار کس نے پکڑا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایسا شکار نہ کھاؤ کیونکہ تم نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی تھی دوسرے کتے پر نہیں پڑھی تھی۔ اس کے بعد میں نے نوکدار لکڑی سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: اگر شکار نوک کی دھار سے مرا ہو تو اسے کھا لو اگر تو نے اسے عرض کے بل زخمی کیا ہے تو ایسا شکار ضرب سے مرا ہے اسے مت کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5486]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر شکاری کتے کے ساتھ دوسرے کتے مل گئے اور معلوم نہ ہو کہ کس نے شکار مارا ہے یا یہ معلوم نہ ہو کہ دوسرے کتے پر بسم اللہ پڑھی گئی تھی یا نہیں تو اس صورت میں وہ شکار حلال نہیں ہو گا۔
اگر یہ معلوم ہو کہ دوسرے کتوں پر بسم اللہ پڑھی گئی تھی تو وہ شکار بھی حلال ہو گا۔
ہاں، اگر دوسرے کتوں کا مارا ہوا شکار زندہ مل گیا اور اسے ذبح کرنے کا موقع مل گیا تو ایسا شکار کھانا جائز ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5486   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5487  
5487. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ نے عرض کی کہ ہم ایسے لوگ ہیں جو ان کتوں سے شکار کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سدھائے ہوئے کتے چھوڑو اور ان پر اللہ کا نام لے لو تو جو شکار وہ تمہارے لیے روک لیں اسے کھاؤ لیکن اگر کتے نے شکار سے کچھ خود بھی کھا لیا ہوتو وہ نہ کھاؤ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ اس نے وہ خود اپنے لیے پکڑا ہے۔ اور اگر ان کتوں کے ساتھ دوسرا بھی شریک ہو جائے تو ان کا مارا ہوا شکار مت کھاؤ۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5487]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بطور مشغلہ شکار کرنا مشروع ہے تاکہ اس سے اپنی گزر اوقات کا سہارا لے اور اگر اس کا مشغلہ اور ذریعۂ معاش کوئی اور ہے اور تفریح طبع کے طور پر کبھی کبھار شکار کرتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے لیکن محض کھیل تماشے کے طور پر ہر وقت شکار کے پیچھے پڑے رہنا جائز نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
جس نے جنگل میں رہائش اختیار کی وہ سخت دل ہوا اور جو شکار کے پیچھے پڑا رہا وہ غافل ہوا۔
(سنن أبي داود، الصید، حدیث: 2859)
بہرحال کھیل کود کے لیے شکار کا مشغلہ اختیار کرنا مومن کی شان کے خلاف ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5487   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7397  
7397. سیدنا عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: میں شکار پر اپنے سکھائے ہوئے کتے چھوڑتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سدھائے ہوئے کتے چھوڑو اور چھوڑتے وقت اللہ کے نام بھی لو، پھر اگر وہ شکار پکڑ کر اسے روک لیں، اس سے خود نہ کھائیں تو تم اسے کھا سکتے ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7397]
حدیث حاشیہ:

معراض اس تیر کو کہتے ہیں جس کے آگے پھل نہ ہو۔
اگر وہ جانور وغیرہ کے عرض کے بل لگے جس سے اس کا گوشت دب جائے اور خون وغیرہ نکلے بغیر مر جائے تو ایسا جانورکھانا جائز نہیں، ہاں اگر زخم کے بعد اسے زندہ پکڑ لیا جائے اور اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اسے ذبح کر لیا جائے تو حلال ہے۔
اگر وہ نوک کے بل لگے جس سے گوشت پھٹ جائے اوراس سے خون نکل آئے تو اگر اسے پھینکتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا تھا تو اس صورت میں اس کا گوشت کھایا جا سکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت سے اس قسم کا شکار حلال ہے۔

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ناموں کے طفیل اس کی عبادت کرنے کا ایک اور انداز بیان ہوا ہے کہ اگر شکاری کتے کو چھوڑتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا تھا اور وہ شکاری کتا جانور سے خود نہ کھائے بلکہ مکمل طورپر روک لے تو ذبح کے بغیر اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔
یہ صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی برکت ہے۔

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کتا چھوڑتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو تو ایسا جانور استعمال میں لانا جائز نہیں، خواہ کتا اس سے خود نہ بھی کھائے۔
بہرحال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرنا ہے:
سب سے اچھے نام اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، لہذا تم اسے انھی ناموں سے پکارا کرو۔
(الأعراف 180)
اسے پکارنے کی ایک صورت اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7397