كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم کتاب: طب (علاج و معالجہ) کے احکام و مسائل 19. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْعَيْنَ حَقٌّ وَالْغَسْلُ لَهَا باب: نظر بد کے حق ہونے اور اس کے لیے غسل کرنے کا بیان۔
حابس تمیمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: الو (کے سلسلے میں لوگوں کے اعتقاد) کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نظر بد کا اثر حقیقی چیز ہے (یعنی سچ ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3272)، وانظر مسند احمد (4/67) (صحیح) (سند میں حیہ بن حابس متابعت کے باب میں مقبول راوی ہیں، اس لیے حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، تراجع الالبانی/5، السراج المنیر 5590)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن قوله: " العين حق " صحيح.، الضعيفة (4804)، الصحيحة (1248) // ضعيف الجامع الصغير (6295)، صحيح الجامع الصغير (7503) //
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت (پہل) کر سکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت (پہل) کرتی، اور جب لوگ تم سے غسل کرائیں تو تم غسل کر لو“ ۱؎۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- حیہ بن حابس کی روایت (جو اوپر مذکور ہے) غریب ہے، ۳- شیبان نے اسے «عن يحيى بن أبي كثير عن حية بن حابس عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے جب کہ علی بن مبارک اور حرب بن شداد نے اس سند میں ابوہریرہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ۴- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے۔ تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 16 (2188)، (تحفة الأشراف: 5716) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: زمانہ جاہلیت میں نظر بد کا ایک علاج یہ تھا کہ جس آدمی کی نظر لگنے کا اندیشہ ہوتا اس سے غسل کرواتے، اور اس پانی سے نظر لگنے والے کو غسل دیتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو سند جواز عطا فرمایا، اور فرمایا کہ اگر کسی سے ایسے غسل کی طلب کی جائے تو وہ برا نہ مانے اور غسل کر کے غسل کیا ہوا پانی نظر بد لگنے والے کو دیدے۔ مگر اس غسل کا طریقہ عام غسل سے سے قدرے مختلف ہے، تفصیل کے لیے ہماری کتاب ”مسنون وظائف واذکار اور شافی طریقہ علاج“ کا مطالعہ کریں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1251 - 1252)، الكلم الطيب (242)
|