كتاب آداب القضاة کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل 37. بَابُ: كَيْفَ يَسْتَحْلِفُ الْحَاكِمُ باب: حاکم قسم (حلف) کیسے لے؟
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے حلقے کی طرف نکل کر آئے اور فرمایا: ”کیوں بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: ہم بیٹھے ہیں، اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اس کا شکر ادا کر رہے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے دین کی ہدایت بخشی اور آپ کے ذریعے ہم پر احسان فرمایا، آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ۲؎ تم اسی لیے بیٹھے ہو؟“ وہ بولے: اللہ کی قسم! ہم اسی لیے بیٹھے ہیں، آپ نے فرمایا: ”سنو، میں نے تم سے قسم اس لیے نہیں لی کہ تمہیں جھوٹا سمجھا، بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں پر تمہاری وجہ سے فخر کرتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الدعوات (الذکر والدعاء) 11 (2701)، سنن الترمذی/الدعوات 7 (3379)، (تحفة الأشراف: 11416)، مسند احمد (4/92) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جب کسی معاملہ میں قاضی کو قسم لینے کی ضرورت ہو تو کن الفاظ کے ساتھ قسم لے۔ ۲؎: اسی لفظ میں باب سے مناسبت ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لفظ «واللہ» سے قسم کھایا یا لیا کرتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا، تو اس سے پوچھا: کیا تم نے چوری کی؟ وہ بولا: نہیں، اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ۱؎، عیسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں نے یقین کیا اللہ پر اور جھوٹا سمجھا اپنی آنکھ کو۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الٔلنبیاء 48 (3444 تعلیقًا)، (تحفة الٔاشراف: 14223)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفضائل40 (2368)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 4 (2102)، مسند احمد (2/314، 383) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں یہی قسم کے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ بھی کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا یا لیا کرتے تھے، دونوں حدیثوں میں مذکور دونوں الفاظ کے علاوہ بھی کچھ الفاظ کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھایا یا کرتے تھے جیسے «لا ومصرف القلوب»، «لا ومقلب القلوب» وغیرہ۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|