(موقوف) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمارة هو ابن عمير، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: اكثروا على عبد الله ذات يوم , فقال عبد الله:" إنه قد اتى علينا زمان ولسنا نقضي، ولسنا هنالك، ثم إن الله عز وجل قدر علينا ان بلغنا ما ترون، فمن عرض له منكم قضاء بعد اليوم فليقض بما في كتاب الله، فإن جاء امر ليس في كتاب الله، فليقض بما قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن جاء امر ليس في كتاب الله ولا قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم، فليقض بما قضى به الصالحون، فإن جاء امر ليس في كتاب الله، ولا قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم ولا قضى به الصالحون فليجتهد رايه ولا يقول إني اخاف، وإني اخاف فإن الحلال بين، والحرام بين، وبين ذلك امور مشتبهات فدع ما يريبك إلى ما لا يريبك". قال ابو عبد الرحمن: هذا الحديث جيد. (موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ , فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ، وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آ پڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ۱؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث بہت اچھی ہے۔
وضاحت: ۱؎: مراد ”نیک علماء“ ہیں، کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ”صالحین“ صحابہ کرام ہی تھے، اور ان کی اکثریت عالم تھی، خلاصہ کلام یہ کہ صحابہ کرام کا اجماع مراد ہے، اسی طرح ہر زمانہ کے نیک علماء و ائمہ کرام کا اجماع بھی دلیل ہو گا، اور چونکہ مراد زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اس لیے اس سے ایک عالم کی تقلید شخصی ہرگز مراد نہیں ہو سکتی، جیسا کہ بعض مقلدین نے اس سے تقلید شخصی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
(موقوف) اخبرني محمد بن علي بن ميمون، قال: حدثنا الفريابي، قال: حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، عن حريث بن ظهير، عن عبد الله بن مسعود، قال: اتى علينا حين ولسنا نقضي ولسنا هنالك، وإن الله عز وجل قدر ان بلغنا ما ترون، فمن عرض له قضاء بعد اليوم , فليقض فيه بما في كتاب الله، فإن جاء امر ليس في كتاب الله فليقض بما قضى به نبيه، فإن جاء امر ليس في كتاب الله ولم يقض به نبيه صلى الله عليه وسلم فليقض بما قضى به الصالحون، ولا يقول احدكم إني اخاف، وإني اخاف، فإن الحلال بين، والحرام بين، وبين ذلك امور مشتبهة، فدع ما يريبك إلى ما لا يريبك". (موقوف) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا حِينٌ وَلَسْنَا نَقْضِي وَلَسْنَا هُنَالِكَ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، فَمَنْ عَرَضَ لَهُ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ , فَلْيَقْضِ فِيهِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، وَلَا يَقُولُ أَحَدُكُمْ إِنِّي أَخَافُ، وَإِنِّي أَخَافُ، فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر ایک ایسا وقت آیا کہ اس وقت نہ ہم فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے اہل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے وہ مقام مقدر کر دیا جہاں تم ہمیں دیکھ رہے ہو، لہٰذا جس کسی کو آج کے بعد کوئی معاملہ درپیش ہو تو وہ اس کا فیصلہ اس کے مطابق کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، اور اگر اس کے پاس کوئی ایسا معاملہ آئے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہے تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو، اور تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے، مجھے ڈر لگ رہا ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، لہٰذا جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو شک میں نہ ڈالے اسے لے لو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9197) (صحیح) (اس کے راوی ”حریث“ مجہول ہیں، لیکن پچھلی سند صحیح لغیرہ ہے)»
(موقوف) اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا ابو عامر، قال: حدثنا سفيان، عن الشيباني، عن الشعبي، عن شريح: انه كتب إلى عمر يساله؟ فكتب إليه:" ان اقض بما في كتاب الله، فإن لم يكن في كتاب الله , فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن لم يكن في كتاب الله ولا في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاقض بما قضى به الصالحون، فإن لم يكن في كتاب الله ولا في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يقض به الصالحون، فإن شئت فتقدم، وإن شئت فتاخر، ولا ارى التاخر إلا خيرا لك، والسلام عليكم". (موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ: أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ؟ فَكَتَبَ إِلَيْهِ:" أَنْ اقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ , فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَتَأَخَّرْ، وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ".
شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا: فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ (قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث) میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو (فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔