كتاب آداب القضاة کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل 28. بَابُ: شَفَاعَةِ الْحَاكِمِ لِلْخُصُومِ قَبْلَ فَصْلِ الْحُكْمِ باب: فیصلہ سے پہلے حاکم کسی فریق کے حق میں سفارش کرے تو اس کے جواز کا بیان۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے جنہیں مغیث کہا جاتا تھا، گویا میں اب بھی دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس (بریرہ) کے پیچھے پیچھے روتے پھر رہے ہیں، اور ان کے آنسو ڈاڑھی پر بہہ رہے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: عباس! کیا آپ کو حیرت نہیں ہے کہ مغیث بریرہ سے کتنی محبت کرتا ہے اور بریرہ مغیث سے کس قدر نفرت کرتی ہے؟، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (بریرہ) سے فرمایا: ”اگر تم اس کے پاس واپس چلی جاتی (تو بہتر ہوتا) اس لیے کہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے“، وہ بولیں: اللہ کے رسول! کیا مجھے آپ حکم دے رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، میں تو سفارش کر رہا ہوں“، وہ بولیں: پھر تو مجھے اس کی ضرورت نہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطلاق 16 (5283)، سنن ابی داود/الطلاق 19 (2231)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 29 (2077)، (تحفة الأشراف: 6048)، مسند احمد (1/215) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مغیث اور بریرہ (رضی اللہ عنہما) کے معاملہ میں عدالتی قانونی فیصلہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ”بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزادی مل جانے کے بعد مغیث کے نکاح میں نہ رہنے کا حق حاصل ہے“ مگر اس عدالتی فیصلہ سے پہلے بریرہ رضی اللہ عنہا سے قانوناً نہیں اخلاقی طور پر مغیث کے نکاح میں باقی رہنے کی سفارش کی، یہی باب سے مناسبت ہے، اور اس طرح کی سفارش صرف ایسے ہی معاملات میں کی جا سکتی ہے، جس میں مدعی کو اختیار ہو (جیسے بریرہ کا معاملہ اور قصاص ودیت والا معاملہ وغیرہ) لیکن چوری و زنا کے حدود کے معاملے میں اس طرح کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|