سنن نسائي
كتاب آداب القضاة
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
11. بَابُ : الْحُكْمِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ
باب: اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5401
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ شُرَيْحٍ: أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ يَسْأَلُهُ؟ فَكَتَبَ إِلَيْهِ:" أَنْ اقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ , فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَاقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ شِئْتَ فَتَقَدَّمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَتَأَخَّرْ، وَلَا أَرَى التَّأَخُّرَ إِلَّا خَيْرًا لَكَ، وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمْ".
شریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے انہیں ایک خط لکھا تو انہوں نے لکھا: فیصلہ کرو اس کے مطابق جو کتاب اللہ (قرآن) میں ہے، اور اگر وہ کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو سنت رسول (حدیث) کے مطابق، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول (حدیث) میں تو اس کے مطابق فیصلہ کرو جو نیک لوگوں نے کیا تھا، اور اگر وہ نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اور نہ ہی نیک لوگوں کا کوئی فیصلہ ہو تو اگر تم چاہو تو آگے بڑھو (اور اپنی عقل سے کام لے کر فیصلہ کرو) اور اگر چاہو تو پیچھے رہو (فیصلہ نہ کرو) اور میں پیچھے رہنے ہی کو تمہارے حق میں بہتر سمجھتا ہوں۔ والسلام علیکم۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9197) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 5401 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5401
اردو حاشہ:
”خاموشی بہتر ہے“ کیونکہ اجتہاد میں غلطی کا امکان بہر صورت موجود رہتا ہے۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث اور اجماع کے بعد اجتہاد یا قیاس کا درجہ ہے، یعنی اگر کوئی مسئلہ قرآن حدیث میں مذکور نہ ہو اور اس بارے میں اجماع بھی موجود نہ ہو تو اسے اجتہاد و قیاس سے حل کیا جائے گا بشرطیکہ اجتہاد کرنے والا صاحب علم ہو، اجتہاد کے قابل ہولیکن اگر کوئی مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہو یا اس کےبارے میں صحابہ یا تابعین کا اجماع پایا جاتا ہو تو اس کے بارے میں اجتہاد جائز نہیں کیونکہ اجتہاد سے مراد منصوص مسائل میں تبدیلی کرنا نہیں بلکہ غیر منصوص مسائل کا حل معلوم کرنا ہے۔ آج کل بعض علم سے بے بہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب قرآن و سنت کے احکام معلوم کرنا ہے آج کل بعض علم سے بے بہرہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا مطلب قرآن و سنت کے احکام میں تبدیلی کرنا ہے اور ان کے بقول قرآن و سنت کے مسائل کو موجودہ حالات کے مطابق کرنا ہے، حالانکہ حق یہ ہے حالات کو قرآن و سنت کے مطابق بدلنا چاہیے نہ کہ قرآن و سنت میں حالات کے مطابق تبدیلی کرنی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5401